پچھلے دنوں جب میرا جنریٹر خراب ہوگیا، تو
میں نے کچھ دن تک اس کے بغیر یوں گزارا کرنے کی کوشش کی، جیسے عاشق اپنی
محبوبہ سے ناراض ہو کر چند دن کے لیے اسے فون کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ عشق کے
سلسلے میں تو شاید یہ تھیوری کچھ کام کرتی ہو، لیکن جنریٹر کے معاملے میں
یہ بالکل چوپٹ ثابت ہوئی، کیوں کہ جنریٹر پر میری بے اعتنائی کا کوئی فرق
نہیں پڑا۔ پھر معرفت کی ایک منزل وہ بھی آئی، جب میں نے پرانا جنریٹر بیچ
کر گنڈیریاں کھا لیں اور نیا جنریٹر خریدنے کا فیصلہ کر لیا۔ میرے اس فیصلے
کو جہاں دوست احباب نے تحسین کی نگاہوں سے دیکھا، وہاں چند مفسدوں نے مجھے
یہ کہہ کر ورغلانے کی کوشش بھی کی کہ محترم وزیر بجلی، پانی، طاقت، وغیرہ
یہ کہہ چکے ہیں (واضح رہے کہ میں ایک ہی وزیر کی بات کر رہا ہوں) کہ اس سال
کے آخر تک لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی۔ اگر کسی طرح کڑوا گھونٹ بھر کے یہ
گرمیاں نکال لی جائیں، تو جو پیسے آپ جنریٹر پر لگانا چاہ رہے ہیں، وہ بچ
جائیں گے۔
میری ناقص رائے میں ( جو کم از کم اس موقع پر بالکل ناقص نہیں ہے ) اگر کسی
کا خیال ہے کہ اگلے چھ ماہ میں کوئی الہ دین کا چراغ رگڑ کر یہ 4500
میگاواٹ کی کمی ہمیشہ کے لیے پوری کر دے گا، تو میرے خیال میں اس بات پر
یقین کرنا، ایسے ہی ہے، جیسے ان عاملوں پر یقین کرنا، جو چوبیس گھنٹے میں
کایا پلٹ کام کروانے کی منی بیک گارنٹی دیتے ہیں۔ جب آپ جنریٹر خریدنے کا
ارادہ کرلیں تو آپ کا رخ خود بخود لاہور کی مارکیٹ برانڈ رتھ روڈ کی طرف
ہوجائے گا، جو ہر قسم کی مشینری، موٹر، جنریٹر وغیرہ کی خریدو فروخت کے لیے
مشہورو معروف ہے۔ یہاں کے کاروباری شیخ اپنی مثال آپ ہیں اور کئی دہائیوں
سے بزنس کر رہے ہیں، بلکہ اب تو ان کی اگلی نسل نے کاروبار سنبھال لیے ہیں۔
نئی اور پرانی نسل کے کاروبار کرنے کے انداز میں یوں تو کافی فرق ہے، لیکن
دونوں کا نصب العین ایک ہی ہے، اندھا دھند پیسہ بنانا!!! نئی نسل کے نوجوان
کاروباری شیخ ماڈرن ہیں، اپنے لباس اور گفتگو کا خیال رکھتے ہیں، چوں کہ
باہر سے پڑھ لکھ کر آئے ہیں، اس لیے مناسب قسم کی انگریزی بھی بولتے ہیں،
لیپ ٹاپ اور بلیک بیری استعمال کرتے ہیں، تاہم جو کاروباری باتیں انہوں نے
اپنے بزرگوں سے سیکھی ہیں، انہیں بھی پلّے سے باندھ کر رکھتے ہیں۔
برانڈ رتھ روڈ میں ایک اچھا بھلا سمجھ دار شخص ( میرا اشارہ اپنی طرف ہر گز
نہیں ہے، تاہم اگر آپ ایسا ہی سمجھنا چاہیں تو آپ کو اس کا پورا حق ہے )
بھی محض تین چار دکانیں گھوم کر کنفیوز ہو جاتا ہے کہ آیا وہ گیس سے چلنے
والا جنریٹر لے یا پیٹرول یا ڈیزل سے چلنے والا، آٹو میٹک لے یا مینوئل،
سیلف اسٹارٹ لے یا رسی سے کھینچ کر اسٹارٹ کیا جانے والا۔ جب آپ اچھی طرح
کنفیوز ہو چکیں تو پھر اس دکان میں سے جنریٹر خریدنے کا انتخاب کریں، جس کے
مالک کی گفتگو کچھ اس قسم کی ہو:
”ہیلو! جی انکل جی…جی جی بالکل ٹھیک…بالکل ہے انکل، مل جائے گا…33,000 روپے
کا…جی میں محبت کر کے ہی آپ کو ریٹ بتا رہا ہوں…انکل میں نے کہا نا کہ میں
آپ کو محبت والا ہی ریٹ بتا رہا ہوں…( کسی قدر چڑ کر ) اچھا تو پھر مفت لے
لیں…میں نے کہا نا انکل کہ پھر مفت لے لیں…اچھا پھر 32,500 ہو جائے گا…فائنل
، بے شک پوری مارکیٹ چیک کر لیں…انکل جی ہن جان لینی جے؟“
چوں کہ اس کالم سے محض خلق خدا کی رہنمائی مقصود ہے اور حاشا و کلا کسی
جنریٹر کی ڈیلر شپ میرے پاس نہیں، اس لیے میں صارفین کی رہنمائی کے لیے چند
مزید ٹپس بھی یہاں بیان کر دیتا ہوں۔ مثلاً ایسا جنریٹر خریدیں، جس کی کوئی
( جھوٹی سچی ہی سہی ) گارنٹی ہو، جنریٹر کے ساتھ لگنے والی والے پرزہ جات
کی قیمت بھی خریدنے سے پہلے طے کر لیں، ورنہ جب آپ کو ان کی قیمت بعد میں
پتا چلے گی تو آپ کی خوشی خاک میں ملنے کا چانس ہے۔ جنریٹر کا شور کافی
ہوتا ہے، اس لیے اگر آپ کے اپنے ہمسایوں سے اچھے تعلقات ہیں، تو پھر بے شک
شور کی پروا نہ کریں اور اگر تعلقات اچھے نہیں تو پھر تو بالکل پروا نہ
کریں!
صارفین کے لیے ٹپس دینے کا خیال مجھے اس لیے بھی آیا، کیوں کہ آج کل
پاکستان میں بھی حقوق صارفین سے متعلق قانون سازی ہو گئی ہے اور ادارے اور
کنزیومر کورٹس وغیرہ بن رہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اشتہار بھی نظر سے گزرا،
جو اس حد تک تو معقول تھا کہ اس میں کوئی فاش غلطی نہیں تھی، تاہم اس
اشتہار کے آخر میں ایک شعر پڑھ کر یقین ہو گیا کہ اس کا آئیڈیا کسی سرکاری
ملازم کا ہوگا، شعر ملاحظہ ہو:
صوبے میں اتری تحفظ کی کرن
ہو گئے روشن حقوق صارفین
ایکٹ جھومر بن گیا پنجاب کا
تاباں ہو گی اب تو صارف کی جبیں
میرا وجدان کہتا ہے کہ جب یہ اشتہار منظوری کے لیے ہونے متعلقہ افسر کے پاس
گیا ہوگا تو اس نے محض فائل پر اعتراض لگانے کی غرض سے لکھ دیا ہوگا کہ
ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو چاہیے کہ اشتہار میں جدت پیدا کرنے کی غرض سے اس میں
کوئی شعر ڈالے، جو اس قدر زبان زد عام ہو جائے کہ بچّہ بچّہ گاتا پھرے۔
یقیناً فائل پر لگا اعتراض اس شعر کی شکل میں فوراً دور کر دیا گیا ہوگا۔
اس شعر کو اشتہار میں شامل کرنے کی اس کے علاوہ صرف ایک اور وجہ سمجھ میں
آتی ہے کہ متعلقہ محکمے کا افسر بذات خود شاعر ہو اور یہ شعراس کا اپنا ہو،
ایسی صورت میں انہیں سات خون بھی معاف ہیں! |