اسرائیل کی بڑھتی مداخلت،کمزورخارجہ پالیسی کی علامت

باسمہ تعالیٰ

نہرونے آج سے ۶۰ سال پہلے اسرائیل نوازی کی جوبیج بوئی تھی وہ فصل بہت پہلے تیارہوچکی تھی اوراب اسرائیل اسے آہستہ آہستہ کاٹ رہاہے۔ہندستان کے حکمراں بھی عجیب و غریب ذہنیت کے مالک ہیں اصول کے نام پرتووہ بابائے قوم مہاتماگاندھی کی باتیں کرتے نہیں تھکتے لیکن عملی میدان میں وہ نہروکواپناہیروبناکراس کے نقش قدم پرچلنے کوہی اپنی حب الوطنی سمجھتے ہیں،تاریخ سے واقف ہرشخص جانتاہے کہ عرب کے قلب میں جنم لینے والی ناجائزریاست کے وجودکی مہاتماگاندھی نے مخالفت کی تھی لیکن ان کے ہونہارچیلے نہرو نے ناجائزریاست اسرائیل کی کھل کرحمایت کی تھی،اتناہی نہیں بلکہ انہوں نے اسرائیل کے ایک رہنماکولکھے گئے خط میں یہودیوں کی طرف سے فلسطینیوں پرکئے گئے مظالم کوبھی جائزٹھہرایاتھا۔نہروکی اس حمایت کااثریہ ہواکہ ۱۹۹۲ء میں کانگریسی رہنمااوراس وقت کے وزیراعظم بابری مسجدکے کلیدی مجرم نرسمہاراؤ نے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات استوارکیے،اورنہرونے جوبیج بوئی تھی اسے اتنی غذاپہونچائی کہ وہ ننھاپوداایک تناوردرخت کی شکل اختیارکرگیا،جس کانتیجہ آج ہمیں بھگتناپڑرہاہے۔

ہندستانی حکومت کی اسرائیل نوازی اوراسرائیل دوستی کاہی یہ شاخسانہ ہے کہ اسرائیل جس کی کوئی سرحدہم سے نہیں ملتی، ایک ایسی ناجائزریاست جس کاہندستان کے ساتھ کسی طرح کابھی تعلق خواہ وہ ثقافتی ہویامذہبی ہوہی نہیں سکتا،وہ آ ج ہماری کمزورخارجہ پالیسی اورہمارے مفادپرست اسرائیل نوازحکمرانوں کی اسرائیل دوستی کاناجائزفائدہ اٹھاکروقفہ وقفہ سے ہندستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی کوشش کررہاہے،اورہماری حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے،اسے ہم اپنے حکمرانوں کی بزدلی کہیں یاپھردرپردہ ان کی مسلم دشمنی۔تاریخ کاطالب علم اس حقیقت سے واقف ہے کہ ہندستان ایک کثیرمذہبی ملک ہے،جس کا عرب اورایران کے ساتھ بڑادیرینہ مذہبی وثقافتی رشتہ ہے،ہندستان ایک ایساملک ہے جہاں کثرت میں وحدت کی انوکھی مثال ملتی ہے جوکہ دنیاکے کسی اورملک میں دیکھنے کوشایدہی ملے،ہندستان کے عربوں سے تعلقات کاپتہ ابتدائے اسلام سے ہی ملتاہے ،تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے شق القمرکامعجزہ پیش کیاتھاتوجن لوگوں نے اپنی آنکھوں سے اس واقعہ کا مشاہدہ کیاتھاان میں ایک ہندستان کاراجہ بھوج بھی تھاجس نے اس واقعہ کی تصدیق کے لیے اپناایک نمائندہ بھی عرب دنیابھیجاتھا،اسلام کے داعیان صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین جب اسلام کی دعوت کے لیے دنیاکے مختلف اطراف میں پھیلے توان میں سے کچھ ہندستان کے ساحل مالابارپربھی اترے جنہوں نے وہاں قیام کیا،اسلام کی دعوت دی اورپھروہ یہیں کے ہوکررہ گئے،آج بھی ان علاقوں میں ان کی اولادیں موجودہیں اوران کے آثارپائے جاتے ہیں،ہندستان جس پرمسلمانوں نے آٹھ سوسال تک بڑی شان وشوکت کے ساتھ حکومت کی، جس کی رعایامیں ہندوبھی تھے،سکھ بھی اورعیسائی بھی ،لیکن اس کثرت میں وحدت کی وہ مثال پیش کی اورعدل وانصاف کاپیمانہ اس طرح قائم رکھاکہ جس کی مثال آج بھی تاریخ کے صفحات پرموجودہیں۔لیکن افسوس صدافسوس!کہ صدیوں کے اتنے گہرے اورمضبوط رشتہ کو بالائے طاق رکھ کرہمارے حکمراں ایک ایسی ریاست کی شان میں قصیدہ خوانی کرنے لگے جس کاوجودہی مسلم اوراسلام دشمنی پرہوا،جس کامقصدہی عربوں کوان کے اپنے گھروں سے بے گھرکرنااور قبلۂ اول بیت المقدس سے مسلمانوں کومحروم کرنا۔ یہود و نصاریٰ کی اتنی مجال نہیں کہ وہ مسلمانوں کومات دے سکیں،لیکن یہ مسلمانوں کے اعمال بدکانتیجہ ہی ہے کہ وہ ہرجگہ ذلیل وخوارہورہے ہیں،ایک طرف وہ قوم جس کے بارے میں قرآن اعلان کررہاہے کہ اﷲ نے ذلت اوردردربھٹکنااس قوم کامقدرکردیاہے وہ قوم توآج پوری دنیاپرحکومت کاخواب دیکھ رہی ہے ، اورجس قوم کواﷲ نے سربلندی کی بشارت دی وہ آج ذلیل وخوارہورہی ہے،تواس کی وجہ صرف اورصرف اﷲ اوراس کے رسول کے احکام کوپس پشت کرنااورقرآن سے دوری اختیارکرناہے،خداکی قسم اگرآج بھی مسلمان اﷲ اوراس کے رسول کے احکام کافرماں بردارہوجائے،قرآن کواپنے سینے سے لگالے توآج بھی مسلمان ہی سربلنداورغالب رہیں گے۔

ہندستان کے اندرونی معاملات میں اسرائیل کی مداخلت روزبروز بڑھتی ہی جارہی ہے،کچھ دنوں قبل جب دہلی سے ایک روزنامہ کااجراء ہوااس وقت بھی اسرائیل کے پیٹ میں مروڑہوناشروع ہوااوراس نے اس اخبارکی اشاعت کوملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بتایا،حالاں کہ یہ خبردہلی کے انگریزی کے ایک مؤقرروزنامہ میں شائع ہوئی جس سے دانشوراورامن پسندطبقہ میں بڑی تشویش پائی گئی،لیکن واہ رے ہماری حکومت!اس نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی یایوں کہہ لیں کہ حکومت نے خاموشی اختیارکرکے اپنی اسرائیل نوازی کاثبوت دیا،یہ معاملہ ابھی لوگوں کے ذہنوں سے پوری طرح مٹابھی نہیں تھاکہ اسرائیلی صدرنے ایک بارپھراپنی دریدہ دہنی کاثبوت دیتے ہوئے اس سے بھی خطرناک بیان دیاجوکہ صرف ہندستانی قانون ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کی بھی صریح خلاف ورزی ہے،اسرائیلی صدرشمعون پیریزاپنے بیان میں ہندستانی اسرائیل نوازحکومت کویہ کہتے ہوئے ہندستان کے ایک ایسے طبقہ کونظراندازکرنے کی جرأت کررہاہے جوطبقہ ہندستانی تہذیب وثقافت کاایک اہم معمارہے،پیریزاپنے بیان میں کہتاہے کہ :ہندستان کوچاہیے کہ وہ مسلمانوں کونظراندازکرکے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کومضبوط کرے،ہندستانی نیوزایجنسی پی ٹی آئی کودیے گئے اپنے ایک خصوصی انٹرویومیں پیریزنے کہاکہ ہندستان کوچاہیے کہ وہ مسلمانوں کی پرواہ نہ کرے بلکہ ہمارے ساتھ رشتوں کومضبوط کرنے میں اہم کرداراداکرے،وہ مزیدکہتاہے کہ ایران پوری دنیاکے لیے خطرہ ہے اسے چاہیے کہ وہ ایران کوخطہ میں بڑی طاقت بن کرابھرنے سے روکے،اورہند۔اسرائیل مفادات کوتحفظ فراہم کرائے،پیریزمزیدکہتاہے کہ ہنداسرائیل تعلقات باضابطہ طورپر بھلے ہی ۱۹۹۲ء میں قائم ہوئے ہوں،لیکن وہ ہندستان کے بہت پرانے مریدہیں اورانہوں نے ہندستانی تہذیب وثقافت کابڑی گہرائی سے مطالعہ کیاہے اوراپنے آپ کواس سے بہت قریب مانتے ہیں،لہٰذاہندستان کومسلمانوں کی پرواہ کیے بغیراسرائیل سے اپنے تعلقات کومزیدمضبوط کرناچاہیے اورخطہ سے ایران کی جارہ داری کوختم کرنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔‘‘

ملاحظہ کریں اسرائیلی صدر شمعون پیریزکے یہ الفاظ،جس میں وہ ہندستانی حکومت کواپنے ہی ملک کے ایک اہم اقلیتی طبقہ کونظراندازکرنے کی بات کہہ رہا ہے جس کے ووٹوں کی بدولت ہرکوئی یہاں اپنی حکومت بنانے کاخواب دیکھتاہے،لیکن اسرائیلی صدر کے اتنی واضح تنبیہی الفاظ کے بعدبھی ہماری حکومت کے کان پرجوں تک نہ رینگی،اوریہ جانتے ہوئے بھی کہ پیریزکے ان الفاظ کاہندستانی مسلمانوں پربہت گہرااثرپڑے گا،ہندستانی حکومت نے اپنی خاموشی نہیں توڑی،اسے کیاکہیں گے؟کیایہ اسرائیل نوازی نہیں ہے،کہ ایک ایساملک جس کی بنیادہی غاصبانہ طریقے سے ہوئی اوردنیامیں جس کاکوئی اخلاقی وجودنہیں ہے وہ ایک ایسے ملک کوجس کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ اس دنیاکی،اورجس کے اندرابھی بھی دنیاکی رہنمائی کی تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجودہیں،جواس وقت دنیاکے نقشہ پرآبادی کے اعتبارسے دوسرے نمبرپرہے توجمہوری طاقت کے اعتبارسے پہلے نمبرپرہے،اس ملک کوایک ایساملک ہدایت دے رہاہے جس کی حیثیت ہندستان کی ایک غریب اورچھوٹی ریاست سے بھی کم ہے۔

اسرائیلی صدرکی یہ ہدایت کہ وہ ایران کوخطہ میں ابھرنے سے روکے،ہندوایران کے دیرینہ تعلقات پرایک کاری ضرب ہے،ہندستان کے تعلقات جس طرح عربوں سے دیرینہ ہیں اسی طرح ایران سے بھی ہیں،لیکن ہندستانی حکومت کی یہ اسرائیل نوازی ہی ہے کہ اس نے اقوام متحدہ میں ایران کے خلاف ووٹ دے کراپنی اسرائیل دوستی کاثبوت دیا تھا، حالاں کہ ایران سے قدیم سرحدی وثقافتی تعلقات ہونے کی وجہ سے ہندستان کایہ فرض تھاکہ وہ اپنے دیرینہ دوست کی حمایت کرے لیکن افسوس کہ وہ اسرائیل دوستی اورمسلم دشمنی کا مظاہرہ کرنے میں یہاں بھی پیچھے نہیں رہا،اتناہی نہیں اسرائیل کی مداخلت کی وجہ سے آج تک ایران ۔ہندگیس پائپ لائن پروجیکٹ پرعمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ ہندستان کی ایک بڑی مسلم آبادی کاایران کے ساتھ مذہبی اورجذباتی رشتہ ہے،ایسے میں اگرہندستان ایران کونظراندازکرتاہے تویقینااسے اس کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔

درحقیقت ہندستان جیسی بڑی حکومت کواسرائیل جیسی ناجائزریاست کااس طرح ہدایت دینایہ ہماری حکومت کی کمزوری اورخامیوں کاپتہ دیتی ہے،ہماری خارجہ پالیسی کے بے اثرہونے کی واضح علامت ہے،جوکہ ہندستان جیسے کثرت میں وحدت کی مثال رکھنے والے ملک کی صحت کے لیے بہت ہی مضرہے،اوراگرہماری حکومت کی یہی حالت رہی،اور اسرائیل نوازی میں اسی طرح اپنے ہی ملک کی ایک اہم آبادی’ جوکہ اس ملک کی معماراول ہے ‘کو نظراندازکرتے رہیں توسمجھ لیں کہ پھرحکومت اورریاست کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے،ہزاروں برس قبل افلاطون نے اپنی کتاب’’ریاست‘‘میں ایسے ہی حکومت کاکچھ اس اندازمیں تجزیہ کیاتھاجوکہ موجودہ دورمیں ہماری حکومت کے لیے درس عبرت ہے:
’’جب کسی ملک یاریاست کی حکومت اس طرح کمزوراورنااہل ہوجائے کہ اس کے اندرونی معاملات میں بیرونی لوگ مداخلت کرنے لگیں اوراسے وقت بے وقت مشورہ بھی دینے لگیں کہ یوں کیاجائے یایوں کیاجائے اوررفتہ رفتہ ان کاحوصلہ اس قدربڑھ جائے کہ وہ بزوراپنے مطالبات منوانے لگیں اورمتعلقہ حکومتوں کوان کے سامنے جھکناپڑے توسمجھ لینا چاہیے کہ اب اس ملک اورریاست کی زندگی تھوڑی رہ گئی ہے۔اس لیے کہ یہ بات ہرکوئی جانتاہے کہ جب تک انسان اچھابھلااورتندرست رہتاہے تووہ خودکفیل اور خود مختار ہوتا ہے،مگرجب اسے کوئی بیماری اس طرح پکڑلیتی ہے کہ دوسرے اس کے خصوصی اورعمومی معاملات میں دخل اندازی کرنے لگیں،اسے اٹھائیں بٹھائیں اس کے لیے یہ کرو،وہ نہ کرو کامشورہ دینے لگیں توسمجھ لیجیے کہ اب اس کی زندگی بہت کم رہ گئی ہے اوروہ انسان اب زندگی میں کوئی بڑاکام نہیں کرسکتا۔‘‘

مذکورہ اقتباس سے ہرسوجھ بوجھ رکھنے والاانسان سمجھ سکتاہے کہ ہماری موجودہ حکومت ایسے ہی موذی مرض میں مبتلاہے کہ اب اس کے اندراپنا کوئی بھی کام خودسے کرنے کی صلاحیت نہیں ہے،لیکن ایسے موقع پراس حکومت کواپنی موت مرنے دینابھی مسلم قیادت کے لیے عقلمندی کاثبوت نہیں ہے کیوں کہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جوہماری حکومت کے جڑ میں پیوست ہوچکی ہیں،اوراس کاعلاج صرف اوپرکے نشان ختم کرنے سے نہیں ہوگابلکہ اسے جڑسے کاٹناہوگااوراس کے لیے ضرورت ہے کہ مسلم قیادت ہوش میں آئے، اور بجائے اس کے کہ حکومت ہمیشہ کی طرح اس باربھی ہمیں اپنے دام میں پھانس لے ،بلکہ اس بارجال ہمیں بچھاناہوگاکیوں کہ کہ یہ بڑاسنہراموقع ہے،اﷲ نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ جوسیکولرجماعتیں ہمارے ووٹ کاخواب دیکھ رہی ہیں ہم اپنے دیگرمطالبات کے ساتھ اپنے اس مطالبہ کوبھی شدت کے ساتھ منوائیں کہ وہ خارجہ پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے اسرائیل سے ہرطرح کے تعلقات منقطع کرے،اگرسیکولرجماعتیں اس کے لیے تیارہوجائیں توٹھیک ورنہ مسلم قیادت کوبہت ہی ٹھوس لائحہ عمل تیارکرناہوگاتبھی ہم اپنے ملک میں اوراپنے گھرمیں اسرائیل کی سازشوں کاشکارہونے سے بچ پائیں گے اورفلسطین کے معصوم مسلمانوں کے حق میں آوازبلندکرسکیں گے،ورنہ ہماراحشربھی اندلس اوربرماکے مسلمانوں سے کچھ الگ نہ ہوگااورہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں!!!
رابطہ کے لیے:
 

Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 46695 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More