سوشل میڈیا سے لے کر عام ماحول تک آج کل ایک بحث لب عام
ہے کہ مشرف کو سزا ہوگی یا نہیں اگر ہو بھی گئی تو کس جرم میں یا پھر فوج
اور دوسری طاقتیں مشرف کو فری ہینڈ دینے میں کامیاب ہوجائیں گی۔کچھ
دانشور،تجزیہ کار اور کچھ سیاستدان نواز شریف کو تنبیہ کر رہے ہیں کہ مشرف
کے ساتھ اگر ایسا ویسا کیا گیا تو ان کی حکومت زیادہ دیر نہیں چل پائے
گی۔منتخب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ابھی خوف سے باہر لگ رہے ہیں کیونکہ
میاں صاحب نے عدالتی فیصلئے کی تائید کردی کہ حکومت،عدالتی فیصلے پر من وعن
عمل کرے گی اور آرٹیکل چھ کے تحت کاروائی کرے گی اور مشرف پر غداری کا
مقدمہ چلائے گی۔بہت سے رہنماﺅں نے اس فیصلے پر ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے
دوسری جماعتوں کے علاوہ۔میاں صاحب کی اپنی پارٹی میں بھی ایسے لوگ شامل
ہوچکے ہیں جو مشرف کے کبھی نغمے گاتے رہے اب چپ سادھے ہوئے ہیں اور مشرف کو
آئین توڑنے کے جرم کی سزا دلوانے کی اسمبلی میں تائید کر چکے ہیں لیکن شیخ
رشید صاحب جو آج کل عمران خان کے مرید ہوچکے ہیں موصوف کبھی مشرف کے بہترین
ہمنوا رہے ہیں آج مشرف کے نمک کا حق ادا کر رہے ہیں اور باربارمیاں نواز
شریف کو احتیاط برتنے کا کہہ رہے ہیں۔ شیخ صاحب مشرف کے کالے کارناموں میں
بہترین ساتھی رہے جو پنڈورا بکس کھلنے کے ڈر سے بار بار ڈرا رہے ہیں ۔یہ
بھی لگتا ہے کہ شیخ صاحب دوبارہ فوج کو دعوت عام دے رہے ہیں اور دوبارہ فوج
کی آمریت کو سہارا دینے کے چکر میں ہیں کیونکہ موصوف آمریت کو بھی انجوائے
کر چکے ہیں شاید زبان پہ ذائقہ اب بھی موجود ہے۔پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما
اور اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ نے یہاں تک فرمایا ہے کہ پارلیمنٹ اور قومی
مقامات سے آمروں کی تصاویر ہٹا دی جائیں لیکن پورے پانچ سال میں حکومت کرنے
کے باوجود شاہ صاحب اور ان کی پارٹی کویہ’ گناہ‘ کرنے کی جسارت نہیں ہوئی
اور ان کی پارٹی نے ہی مشرف کو باعزت طور پر ملک سے رخصت کیا اور قاتل لیگ
جسے کہا پھر ساتھ ملا لیا پھر مل جل کر لولی لنگڑی جمہوریت کے ذریعے مزے
لیتے رہے۔آمروں کی تصاویر ہٹانے سے تاریخ تو کبھی ختم نہیں ہوسکتی ۔
عدالت عالیہ نے بھی بےنظیر کے قتل کا مرکزی ملزم بھی مشرف کو قرار دے دیا
ہے لیکن دیکھتے ہیں کہ عدالت اس کو منطقی انجام تک پہنچاتی ہے یا پھر سابقہ
نہ ہونے والے فیصلوں کی طرح مزید طوالت دینا چاہتی ہے ۔ مشرف کی باقیات یا
’پیر مشرف‘ کے مریدین بھی فرماتے ہیں کہ مشرف کو اگر سزا دینی ہے تو ایوب
خان سے شروع کی جائے لیکن اب نہ ہی جنرل ایوب زندہ ہیں اور نہ ہی جنرل
ضیائالحق زندہ ہیںجو زندہ ہے اسے سزا ہونے دو اور یہ طعنہ بھی عوام کو
دوبارہ سننے کا موقع نہ ملے کہ ملک صرف آمروں کی وجہ سے ترقی نہ کر پایا۔
اب اگر غداری کو علاوہ بے نظیر کے قتل میں مشرف کو مرکزی ملزم قرار دیا
جاسکتا ہے تو لال مسجدکی شہید بیٹیوں کی سزا بھی مشرف کو ملنی چاہئے اور
نواب اکبر بگٹی کی روح کو بھی تب تک چین نہیں آئے گا جب تک مشرف کو سزا
نہیں ملے گی ۔بہتر یہی ہے کہ مشرف کو سزا ملنی چاہیے تاکہ آیندہ کوئی طالع
آزما اس طرح قانون اور آئین توڑنے کی حوصلہ شکنی کا مرتکب نہ ہو۔
عدلیہ کو چاہیے تمام فیصلے جلد سے جلد ہونے چاہیئں اور حکومت عملدرامد کرنے
میں بھی سنجیدہ ہو کیونکہ اب حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کا عدلیہ سے بھی
اعتماد اٹھ رہا ہے ۔ سیاسی نمائندگان ایک دوسرے کو طعنہ دے رہے ہوتے ہیں کہ
فلاں تو آمریت کی پیداوارہے اگر تاریخ کے صفحات دیکھے جائیں تو یہ تاریخ
کوئی زیادہ پرانی نہیں ہے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر میاں نواز
شریف تک سب اسی آمریت کی پیداوار ہیں۔ وہی موروثی سیاستدان وہی جاگیردار
وہی گدی نشین ان کی اولادیں ہمیشہ آمریت اور جمہوریت کے کاندھوں پر اپنی
اپنی باری لیتے رہے ہیں پھر ہمارے سیاستدان ہماری قوم کو جمہوریت کا جھانسہ
ہی دیتے آئے ہیں ۔جمہوری چیمپئن کہلانے والی پیپلز پارٹی نے اخری دورحکومت
میں جس طرح عوام سے جمہوریت ایک بہترین انتقام کے طور پر لیا وہ ابھی سب کو
یاد ہے ۔ملزم ،مجرم سب کو سزا ملنی چاہئے بغاوت کا اقدام کرنے والوں کو اور
ان کے ساتھیوں کو سب کو سزا ملنی چاہیئے لیکن بیچاری عوام کے پانچ سال انہی
سزاﺅں کے چکر میںبرباد نہ کئے جائیں۔توانائی کے بحران پر بہت سجیدگی سے
میٹنگز تو ہورہی ہیں لیکن ابھی کاغذی کاروائی سے آگے کچھ نہیں ہورہا۔سب سے
بڑا مسئلہ دہشت گردہی ہے اس پر بھی ابھی کچھ خاص فیصلے نہیں ہوئے۔مشرف کو
سزا دینے پر سوائے چند سیاستدانوں کے سب متفق تو ہو چکے ہیں لیکن اس کے
ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ،مہنگائی اور دہشت گردی ختم کرنے کے لئے بھی سب کو متفق
ہونا ہوگا اگر عوام خوشحال ہوگئی تو کبھی کوئی بغاوت کرنے کی جرائت نہیں
کرے گا۔عوام کی خوشحالی کے لئے تمام تر توانائیاں صرف کرنی ہونگی ۔ |