کسی دانشور کا قول ہے کہ ''تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے
کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا''یہی وجہ ہے کہ جب سابق صدراور آمر مطلق
پرویزمشرف دوبار آئین توڑنے،افغان جنگ کیلئے امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ کے نام
پر کندھا پیش کرنے ،پاکستان کی آزادی وخودمختاری کو پامال کرتے ہوئے نیٹو
افواج کو پاکستان میں ڈرون حملوں کی اجازت دینے،بلوچستان میں فوج کشی
واکبربگٹی کو قتل کرنے، لال مسجد میں بدنام زمانہ آپریشن سائیلینس کے ذریعے
قوم کی عفت ماٰب بیٹیوں پر فاسفورس بم برسانے اور60معززججوں کو بیک جنبش
قلم گھر بھیجنے اور 8000سے زائد افراد کی لوٹ مار کو ایک این آراو کے ذریعے
ختم کرنے جیسے مکروہ اقدامات کے بعد خودساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے اس
ڈکٹیٹر کے بارے میں عقلی طور پر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ ایک
بار پھر اسی سرزمین پر قدم رکھے گالیکن قدرت کا نظام حرکت میں آیااور اس نے
پرویزمشرف کی عقل پر ایسا پردہ ڈالا کہ کہ اس نے نہ صرف ملک واپسی کی ٹھان
لی بلکہ وہ ایک بار پھر صدارت کے خواب دیکھنے لگا مگر مشرف صاحب کو یاد
نہیں تھا کہ اب نہ تو ان کے جسم پر وہ وردی ہے جسے وہ اپنی کھال کتے نہیں
تھکتے تھے اور نہ ہی یرغمال میڈیا یا ڈوگر کورٹس موجود تھیں جس کا نتیجہ یہ
نکلا کہ کل کا فرعونِ وقت آج مکافات عمل کا شکار ہے کہ کل تک جنہیں وہ جن
کی سیاست کا تمسخراڑاتے ہوئے مکے دکھاتا تھا اور جو محترمہ بینظیر بھٹو اور
میاں نواز شریف کی وطن واپسی کو ایک خواب قراردیتا تھا آج انہی کے رحم وکرم
پر نظرآتا ہے آپ اندازہ کیجئے کہ اس وقت ملک کے چیف جسٹس کے عہدے پر وہی
شخصیت براجمان ہے جس کو اسی آمر کے دور میں شاہراہِ دستور پر دھکے دے کر اس
کی بے عزتی کی گئی اور وزارت عظمیٰ اسی میاں نوازشریف کے ہاتھ میں ہے جس کی
آئینی حکومت کو اس نے فوجی بوٹوں تلے روند ڈالا تھا اور اب پیپلزپارٹی ،تحریک
انصاف اور جماعت اسلامی کی جانب سے بھی پرویزمشرف پرآرٹیکل 6کے حوالے سے
موقف کی حمائت سامنے آگئی ہے یاد رہے یہ وہی جماعتیں ہیں جو ماضی میں کسی
نہ کسی طرح پرویزمشرف کی ساتھی رہی ہیں جس کے بعد اب بظاہر ماضی کے اس
ڈکٹیٹر کو سزا چنددنوں کی بات لگتی ہے ۔ ع بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
لیکن یہ سب باتیں تصویرکا ایک رخ لگتی ہیں کیوں کہ ان جماعتوں میں پرویز
مشرف کو تنہا تمام جرائم کا سزاوار قراردینے کی بجائے اس میں ملوث تمام
چہروں کو شامل تفتیش کرنے کی بحث بھی شدت سے چھڑ گئی ہے اور یہ بات کھلے
عام کہی جارہی ہے کہ اگر پرویزمشرف کا ٹرائل کرنا ہے تو3نومبر2007ء کی
بجائے اس کی ابتدا 12اکتوبر1999ء سے کی جائے جب اس نے ایک منتخب حکومت کا
تختہ الٹا تھا اس مطالبے کو عالمی سیاسی ماہرین پرویزمشرف کو بچانے سے
تعبیر کرتے نظرآتے ہیں کیوں کہ جب وہ بارہ اکتوبر سے ٹرائل کا تزکرہ کرتے
ہیں تو اس سے مرادان کی یہ ہوتی ہے اس معاملے میں میاں نواز شریف،پاک فوج
کے موجودہ سپہ سالار،چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت 600سے زائد اہم شخصیات
ملوث ہوتی ہیں اب ظاہر ہے کہ ان سب کے خلاف ایکشن نہیں لیا جاسکتا اور اگر
یہ کام شروع ہوگیا تو اور کچھ ہو یا نہ ہو پرویزمشرف آرٹیکل 6کے پھندے سے
ضرور بچ جائیں گے ۔یہاں ایک بات البتہ ضرور ہے کہ میاں نواز شریف صاحب اور
ان کی پارٹی نے انتخابی مہم کے دوران عوام کو دہشتگردی سے نجات دلاکر ملک
کو امن و امان کا گہوارہ بنانے ،بدترین توانائی بحران سے نکالنے،معیشت کی
بحالی ،خودمختار خارجہ پالیسی اور ڈرون حملوں کو روکنے کے جو وعدے کئے تھے
حکومت نے ان وعدوں کی تکمیل کیلئے سوائے سرکولرڈیبٹ کے خاتمے کے کوئی بڑے
فیصلے نہیں کئے جس سے یہ تاثر پیدا ہونا ایک فطری سی بات ہے کہ اپنے hony
moon period میں ہی میاں نوازشریف کو پرویزمشرف کیس میں الجھا کر پرویزمشرف
کو نہیں اصل میں میاں نوازشریف کو ٹریپ کیا جارہاہے تاکہ ان کی توجہ اصل
عوامی مسائل سے ہٹا ئی جاسکے اورہوابھی یوں ہی ہے کہ میاں صاحب نے اقتدار
میں آتے ہی یہ اعلان تو فرما دیا تھا کہ ہماری حکومت کی پہلی ترجیح معیشت ،دوسری
ترجیح معیشت اور تیسری ترجیح بھی معیشت ہوگی جبکہ اب یہ عالم ہے کہ میاں
صاحب اسمبلی میں کھڑے ہوکر عوام کو مہنگائی غربت ،بیروزگاری ،امن و امان
اور دیگر مسائل سے نجات دلانے کی خوشخبری سنانے کی بجائے پرویزمشرف کو
سزادلانے کی نوید سنارہے ہیں اور دوسری جانب جی ایس ٹی میں ایک فیصد
اضافے،پٹرولیم مصنوعات اور بجلی میں دوباراضافے سے پیدا ہونے والے مہنگائی
کے طوفان نے عوام کے ہوش اڑادئیے ہیں اب یہاں نوازلیگ کی قیادت کا اصل
سیاسی امتحان ہے کہ وہ بیک وقت ان تمام مسائل سے کیسے خود کو عہدہ برآ
کرپاتی ہے جس کیلئے وہ پلاننگ کربھی رہی ہے لیکن مشرف کیس میں سب سے افسوس
ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہرسیاسی جماعت آئے روز یہ اعلان گلا پھاڑ
پھاڑ کر کرتی نظرآتی ہے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں آمریت کی قطعاََ
کوئی گنجائش نہیں ،آمروں کو قبروں سے نکال کر پھانسی پر لٹکادینا
چاہئے،بدترین جمہوریت بہترین ڈکٹیٹر شپ سے بہتر ہے وغیرہ وغیرہ لیکن اب جب
کہ ملک میں پہلی بار کسی ڈکٹیٹر کو آئین تورنے کی سزادینے کا وقت آیا ہے تو
بظاہر سب اس کی حمائت لیکن اس کیساتھ ساتھ ڈکٹیٹرز کو سزادینے کے سلسلے کو
ضیا اور ایوب تک بڑھانے اور کبھی 99ء سے شروع کرنے اور اس کے تمام کرداروں
کو ملوث کرنے کی بات کرکے پرویزمشرف کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔میں
نہیں جانتا اس کیس کا کیا بنے گا لیکن یہ میں وثوق کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ
یہ کیس ہماری سیاسی منافقت کی ایک اعلیٰ مثال ضرور بنے گا کہ ہم ایک طرف
توڈکٹیٹروں کو قبروں سے نکال کر پھانسی دینے کی باتیں کرتے ہیں لیکن آج ایک
زندہ ڈکٹیٹر کو بچانے کے حامی بھی ہیں۔ |