ویسے تو گزشتہ دَورِ حکومت کا ایک ایک دن پیپلز پارٹی کے
لیے”ہر روز روز عید است ، ہر شب شبِ برات“ کی عملی تصویر تھا لیکن سوئس
کیسز میں زرداری حکومت نے اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ جو ”ہتھ“ کیا اسے تو سُن کر
ہر کوئی عش عش کر اُٹھا ۔کچھ معتبر کالم نگار اسے ”شرمناک واردات “ قرار
دیتے ہیں لیکن ہم تو اِس ذہانت ،فطانت ،چالاکی اور ہوشیاری پر مزے لے رہے
ہیں۔سکول کے زمانے سے ہم ”آنکھوں میں دھول جھونکنا“ جیسا فضول محاوہ سُنتے
چلے آ رہے تھے لیکن اس کے لغوی ،حقیقی یا مجازی معنی کبھی سمجھ میں نہیں
آئے۔جب بھی ٹیچر نے اِس محاورے کو جملے میں استعمال کرنے کا حکم صادر
فرمایا ہم نے ہمیشہ غلط استعمال پر ٹیچر سے پھینٹی ہی کھائی۔پھینٹی کے بعد
بھی ٹیچر نے نہ کبھی اس محاورے کا جملہ بنا کر دکھایا اور نہ ہی ہم نے
پوچھنے کی ہمت کی کیونکہ سوال کرنے والے بچے ٹیچر کو زہر لگتے اور ہمیشہ
بُرے انجام سے دوچار ہوتے ۔ہم چونکہ ذرا محتاط واقع ہوئے تھے اس لیے پھینٹی
کے بعدحفظِ ما تقدم کے طور پر ”زباں بندی“ میں ہی عافیت سمجھتے رہے ۔اب
ہمیں رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ کاش اُس زمانے میں بھی زرداری صاحب ہی کی
حکومت ہوتی اور ہم ٹھک سے یہ کہہ کر ”زرداری اور حواری اعلیٰ عدلیہ کی
آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو گئے“ ٹیچر کو لاجواب کر دیتے اور
پھینٹی سے بچ جاتے ۔بہرحال اب تو صرف کفِ افسوس ہی ملا جا سکتا ہے البتہ تا
حال ہم اِس واردات سے لطف اندوز ہو رہے ہیںجس سے سکول کے زمانے میں پڑنے
والی پھینٹی کی کوفت اور ندامت کچھ کم کم محسوس ہونے لگی ہے۔
ویسے کیا بات ہے ”لفظی جادوگر“ فاروق ایچ نائیک صاحب کی اِس تازہ واردات کی
جس نے سپریم کورٹ کو بھی ہلا کر رکھ دیا کیونکہ ہمہ مقتدر اعلیٰ عدلیہ اپنے
ساتھ ایسی کسی واردات کا تصوّر بھی نہیں کر سکتی تھی ۔ اب ”بڑے منصف صاحب“
اپنے ساتھیوں سمیت شدید جھلاہٹ اور تلملاہٹ کا شکار ہو کر خطرناک نتائج کی
دھمکیاں دے رہے ہیں ۔اُن کی تلملاہٹ کو دیکھ کرتو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے
نائیک صاحب نے اُن کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی بلکہ مرچیں ڈال دی
ہیں۔یقیناََ زرداری صاحب اور اُن کے حواری کل کلاںیہ کہتے نظر آئیں گے
کہ”اُچی تھانویں نیو لگایا ، بڑی مصیبت بھاری“ لیکن ہم خوش ہیں کہ ہمارے
عظیم صدر صاحب نے عظیم ترین واردات کرکے فراڈیوں کی تاریخ میں اپنا نام سب
سے اوپر لکھوا لیا ۔اب ہم بھی اپنی گردنوں میں ”سریا“ ڈال کر بڑے فخر سے یہ
کہہ سکتے ہیں کہ
”ہم سا ہو تو سامنے آئے“
آستانہ نوازلیگ کے مریدِ خاص ، وزیرِ اعظم کے دِل کے بہت قریب ، معتبر کالم
نویس کہ جن کی خوبصورت نثر پڑھ کر ہمیں ہمیشہ مولانا محمد حسین آزاد یاد آ
جاتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں ”کیا اکیسویں صدی کی کسی بے ننگ و نام ریاست میں
بھی ایسی حیا باختہ واردات کا تصّور کیا جا سکتا ہے ۔۔۔ حیف ہے وہ ریاست جس
کے حکمران وارداتئیے بَن جائیں“۔پتہ نہیں محترم لکھاری کے نزدیک بے ننگ و
نام ریاست کا تصّور کیا ہے۔جس ملک کا خزانہ خالی ہواور اُس کے سرمایہ
داروںکا کھربوں ڈالر بیرونی ممالک کے بینکوں میں پڑا گَل سَڑ رہا ہو ،جو
چودہ ہزار ارب کا مقروض ہو ،جہاں پانچ سالوں میں پندرہ ہزار ارب کرپشن کے
مگر مچھوں کے پیٹ میں جا چکا ہو، جہاں ہر روز خودکش حملے اور بم دھماکے ہوں
، جہاں ٹارگٹ کلر اور بھتہ خور سرِ عام دندناتے پھرتے ہوں اور جس ملک کی
اپنی کوئی خارجہ پالیسی ہو نہ داخلہ ، وہ ریاست بھی اگر بے ننگ و نام نہیں
تو پھر لغت سے لفظ ”بے ننگ و نام“ ویسے ہی نکال دینا چاہیے۔ ہم تو یہی
سمجھتے ہیں اور اسی پر فخربھی کرتے ہیں کہ بے ننگ و نام ریاستوں کی فہرست
میں صرف ہم ہی ”گولڈ میڈل“ کے حق دار ہیں اور ہماری جمہوریت کا تو حُسن ہی
یہی ہے کہ ہم چُن چُن کر وارداتیوں کو مسندِ اقتدار پر بٹھائیں۔مجھے حیرت
بھی ہوتی ہے اور غصّہ بھی آتا ہے کہ ہم چھ کروڑ ڈالروں جیسی حقیر رقم کے
لیے ”ایویں خوامخواہ“ زرداری صاحب کے پیچھے لَٹھ لے کر دَوڑ رہے ہیں
حالانکہ زرداری صاحب نے پچھلے پانچ سالوں میں کرپشن کے ایسے ”بچّے جمورے“
پیدا کیے ہیں جن کی وارداتوں کو دیکھ کر بعض اوقات خود زرداری صاحب بھی
حیران رہ جاتے ہیں ۔پچھلے پانچ سالوں میں یہ بچّے جمورے قوم کا پندرہ ہزار
ارب ڈکار گئے ۔ثبوت موجود ہیں اور یہ جمورے بھی زندہ و تابندہ لیکن مجال ہے
جو کوئی اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھے ۔محترم وزیرِ اعظم صاحب کا
ٹارگٹ معیشت کی بحالی اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہے ۔اللہ اُنہیں اُن کے مقصد
میں کامیاب کرے کہ اسی میں ملک و قوم کی بہتری مضمر ہے۔سوال مگر یہ ہے کہ
کیا وہ قوم سے کیا ہوا وعدہ ایفا کر رہے ہیں؟۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے
میاں صاحب کے برادرِ خورد اور پنجاب کے خادمِ اعلیٰ اپنی ”جذباتی انگشتِ
شہادت“ لہرا لہرا کر قوم کو یہ یقین دلاتے رہے کہ نواز لیگ کرپشن کی ایک
ایک پائی وصول کرے گی اور وارداتیوں کو چوراہوں میں اُلٹا لٹکائے گی۔خود
وزیرِ اعظم صاحب متعدد بار اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں ۔شاید
اسی لیے قوم نے دعا کے ساتھ دوا کا بندوبست بھی کیا لیکن مسندِ اقتدار پہ
جلوہ افروزہونے کے بعد سے لے کر اب تک اُن کی زبان سے کرپشن کے مگر مچھوں
کے بارے میں ایک لفظ بھی ادا نہیں ہوا۔اگر وہ اپنی ساری توجہ لوٹا ہوا مال
اگلوانے میں صرف کر دیتے تو خالی خزانہ بھی بھر جاتا ، قرضوں کے بوجھ تلے
دبی سسکتی معیشت میں بھی کچھ جان آ جاتی، لوڈ شیڈنگ کا بندوبست بھی ہو جاتا
اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال ہو جاتا۔اگرفی الحال وارداتیوں
پر ہاتھ نہ ڈالنا اُن کی ”مفاہمتی پالیسی“ کا حصّہ ہے تو قوم کو یہ منظور
نہیں۔اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ قوم کے جذبات کا لاوا کسی وقت بھی پھٹ سکتا
ہے جو سب کچھ بہا لے جائے گا۔جَلاوطنی سے واپسی کے بعد ایک دفعہ بڑے میاں
صاحب نے ہنستے ہوئے فرمایا ”لوگ کہتے تھے کہ قدم بڑھاؤ نواز شریف ، ہم
تمہارے ساتھ ہیں لیکن جب میں نے قدم بڑھایا تو سبھی بھاگ گئے“۔وثوق سے کہا
جا سکتا ہے کہ میاں صاحب اب اگراِن وارداتیوں پر ہاتھ ڈالیں تو پوری قوم
اُن کا بھرپور ساتھ دے گی کیونکہ روٹی ، کپڑا اور مکان جیسے دِل خوش کُن
نعروں کی ڈسی ہوئی قوم نے اُنہیں مینڈیٹ ہی کرپشن کے خاتمے کا دیا ہے ۔ |