آزادی بیان اور آزادی صحافت اب انسانی حقوق کے زمرے میں
آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے آزادی بیان اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ہر
شخص ، ہر وقت اور ہر قسم کی بات کرسکتا ہے۔ یہ آزادی اس قدر بڑھی کہ دنیا
میں کسی کے جذبات و احساسات اور اعتقادات کا پاس نہ رہا یہاں تک کہ ایک ارب
سے زائد مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم کی شان میں اہانت کی گئی، دنیا بھر میں کروڑوں مسلمانوں
نے مظاہرے کیے لیکن مغربی ذرائع ابلاغ ، حکام اور دانشوروں نے مسلمانوں کے
اقدامات کو آزادی بیان سے متصادم قرار دیا اور اس طرح آزادی بیان کی سرحدیں
اتنی وسیع کردی گئیں کہ اب کسی چیز کا تقدس ہی باقی نہیں رہا۔
آزادی بیان صرف مذہبی مسائل تک محدود نہیں رہی بلکہ سیاسی دنیا میں بھی ایک
بہترین ہتھیار کے طور پر استعمال ہورہی ہے چنانچہ اگر کسی ملک نے اپنے
اندورونی حالات بہتر بنانے کے لیے خبروں کو سنسر کرنےکی کوشش کی تو مخالف
ممالک نے متبادل چینل بناکر خبریں اور حکومت مخالف پروگرام نشر کرنا شروع
کردیئے یا اپنےخرچے پر مخالف ملک میں ایسے چینل بنوائے گئے جو دوست بن کر
پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی خدمت انجام دے رہے ہیں جس کی مثال آج بھی مختلف
چینلز کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے جو دوسرے ممالک میں بیٹھ کر کسی بھی ملک
کی سیاسی و نظریاتی بنیادیں کھوکھلی کرتے رہتے ہیں۔
آزادی بیان کی گنگا صرف اس وقت تک سیدھی بہتی ہے جب تک امریکہ اور مغربی
ممالک کے مفادات کے مطابق اور مسلمانوں کے خلاف ہو چنانچہ حال ہی میں یورپی
سٹلائٹ کمپنی انٹل سٹ نے ایرانی چینلز کی نشریات روک دی ہیں اس کے علاوہ
فرانس اور اسرائیل کی مشترکہ کمپنی یوٹیل سیٹ نے مختلف سٹلائٹ کمپنیوں کو
خطوط ارسال کیے ہیں کہ ایرانی چینلز کی نشریات روک دی جائیں۔ چند دن بعد
ہاٹبرڈ اور گلیکسی بھی ایرانی نشریات روک دیں گی۔ سوال یہ ہے کہ ایک طرف تو
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے ترجمان مائیکل مین کہہ رہے ہیں کہ ذرائع
ابلاغ پر پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا اور دوسری طرف ایک کے بعد دوسری ایک
کے بعد دوسری سٹلائیٹ کمپنی ایرانی چینلز کی نشریات روکتی چلی جارہی ہے۔
یورپ کے اس رویہ کو دیکھتے ہوئے بے اختیار سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا یہ
جملہ کہنے کو دل کررہا ہے کہ "کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے!" لیکن یورپ اور
مغرب کے بارے میں اس قسم کے جملے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے کیونکہ عالمی
مسائل اور خاص طور پر اسلامی دنیا کے بارے میں ان کے کھلے تضادات کی لوٹ
سیل لگی ہوئی ہے۔ |