برطانیہ اور الطاف حسین

اگر کوئی میرے شہر کراچی کو قاتلوں کا شہر کہے تو میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی ،میرا جسم اس کے ماضی کو اور پھر حال کو سوچ کر کانپنے لگتا ہے۔یہ عروس البلاد کہلاتا تھا جہاں اب ایشیاءکی سب سے بڑی کچی آبادی میںبیوہ کالونی آباد ہوچکی ہے ، کسی غیر مسلم کمیونٹی سے یہاں پاکستان کے قیام کے بعد کوئی جنگ نہیں چل رہی تھی ، مگر ایسا کیا ہوا 1984-85کے بعد کہ یہاں اب” شہداءقبرستان“ تیزی سے آباد ہورہاہے ۔ مشہور مذہبی ، سیاسی ، سماجی اور تجارتی شخصیات بھی گولیوں کا نشانہ بن رہی ہیں اور بن چکی ہے ، روزانہ جنازے اٹھتے ہیں ، شہر کا کوئی بھی علاقہ اب ایسا نہیں رہا جہاں گزشتہ 28, 30 سالوں کے دوران قتل کے ایک سے زائد واقعات نہ ہوئے ہوں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران کم و بیش ۱۱ ہزار افراد میرے شہر میں قتل ہوچکے ہیں ، جنازے اٹھانے کا بھی مسلسل رونا رویا جارہا ہے ،اس حوالے سے جو سب سے زیادہ روتے ہیں وہ صرف اسی حوالے سے آہ و بکاہ نہیں کرتے ،وہ تو مسلسل ہی ٹینشن میں رہتے ہیں مگر کیوں ؟ اس کا جواب نہ ان کے پاس ہے نہ ان کے چاہنے والوں کے پاس ۔۔۔۔ایسا نظام بنادیا گیا ہے کہ مارنے والا جنازے میں بھی ہوتا ہے اور شام کو متاثرین سے تعزیت کرنے والوں میں بھی شامل ہوتا ہے۔مرنے والے کے لواحقین بھی سب جانتے ہیں کہ کون قاتل ہے مگر کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ مارنے والے کو یا اس کے ساتھیوں کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھے ۔۔۔۔۔۔کیوں؟ ۔۔۔کیوں کہ ان کے دلوں اللہ کے خوف کے بجائے دنیاوی خداﺅں کا خوف ہے۔۔۔اس خوف نے صرف عام لوگوں کو ہی نہیں بلکہ قانون نافذکرنے والے اداروں کے لوگوں کو بھی خوفزدہ کیا ہوا ہے ۔ جب یہ صورتحال پیدا ہوجائے تو شیطانی اذہان کے لوگوں کا حوصلہ بڑھتا رہتا ہے ۔۔۔وہ طاقت کے اظہار کو ایمان سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔ان کا خیال ہے کہ وہ طاقت سے سب کچھ حاصل کرتے رہیں گے ۔۔۔۔دنیا بھر کے قانون کو توڑتے رہیں گے ۔۔۔۔۔سیکیورٹی کا ادارہ یا پولیس ان کی طاقت کے سامنے بے بس ہے ۔۔۔۔۔۔دنیا کی نامور ایجنسیوں کو بھی وہ اپنی طاقت دکھا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ کس کی ایما ءایسا سوچتا اور کرتا ہے ؟۔۔۔۔۔۔بے وقوف لوگوں کے ہجوم پر اسے ناز ہے ۔۔۔۔مگر مجھے ان سب سے پیار ہے ۔۔۔۔اس لیے کہ وہ انسان ہیں ۔۔۔۔۔میں ان کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ” زندگی وہ نہیں ہے جو تم گزارہے ہو بلکہ تمھاری اصل زندگی وہ ہے جن کے لیے تم زندگی گزارہے ہو “ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر تمھارے وجود کا مقصد بھی کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔آخرت کی لمبی زندگی اگرمرنے کے بعد کی ہے تو وہ بھی اسی صورت میں ملے گی جب تم اپنی ذات سے ہٹ کر دوسروں کے بارے میں سوچوں گے۔۔۔۔سوچنے کے لیے ان سے پیار کروگے ۔۔۔۔دوسروں سے حقیقی محبت کا ثبوت یہ ہے کہ آپ ان کے لیے کچھ نہیں صرف خصوصی دعا کرلیں۔۔۔۔۔میرا شہر پہلے محبت کرنیوالوں کا شہر کہلاتا تھا ۔اس شہر سے لوگ جانے کا نہیں بلکہ یہاں آکر ہمیشہ کے لیے آباد ہوجانے کا سوچا کرتے تھے ۔۔۔۔مگر اب میرا شہر مقتل اور قاتلوں کا شہر کہلانے لگا، یہاں روشنیوں کی جگہ اندھیرے نے جگہ لے لی ہے ۔۔۔۔میرے شہر میں سب سے بڑی سازش تو یہ ہے کہ اسے ایسے لوگوں کا شہر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جن کی زندگی کا کوئی مقصد ہے تو وہ صرف شخصیت پرستی ہے ۔۔۔ایسے لوگوں کو منزل نہیں چاہئے ۔۔۔۔اس لیے کہ انہیں اصل منزل اور مقصد سے ہی دور کردیا گیا ہے ۔۔۔۔انہیں بتادیا گیا ہے کہ تم زندہ ہوتو ”اس کی“ وجہ بھی وہ ہی( نعوذبااللہ)۔۔۔جس کی اپنی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے ۔۔۔۔۔وہ صاحب تاریخی نوعیت کے بزدل بھی ہیں اور خود غرض بھی ، معمولی قوت کے ڈر سے اپنے بیانات سے انکار کردیا کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اپنی زندگی کے تحفظ کے لیے 1992میں پاک وطن کو خیرباد کرکے لندن میں مقیم ہوچکے ہیں۔ انہیں برطانیہ میں اپنی زندگی محفوظ پاکستان کے مقابلے میں زیادہ محفوظ محسوس ہونے لگیںتھیں۔یہ سچ ہے کہ برطانیہ میں قانون بہت سخت ہے ۔یہاں دنیا کی مایہ ناز اسکاٹ لینڈیارڈ پولیس لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کے لیے دن رات مصروف رہتی ہے ۔دنیا کو اس بات پر مان ہے کہ وہ کسی قتل کے کیس کو زیادہ طول نہیں دے سکتے اور قاتلوں کو وہ ضرور جلد ہی کیف و کردار تک پہنچائیں گے۔

چلیں چھوڑیں اس ذکر کو اب بات کرتے ہیں ایک ”بہادر اور نڈر “ شخص کی۔الطاف حسین نے اتوار کی صبح لندن سے ٹیلفونک خطاب میں اس بات کا اعتراف کیا کہ پولیس نے چند روز قبل ان کے گھر کا محاصرہ کیا اور طویل تلاشی لی تھی اس تلاشی کے نتیجے میں ان کا بہت سامان بھی وہ ساتھ لے گئی انہوں نے خود ہی پہلی بار یہ بتایا کہ پولیس کی ان کے گھر آمد ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے سلسلے میں تھی ۔ پولیس ان سے سوال کرتی رہی کہ ” آپ کا ڈاکٹر عمران فاروق سے جھگڑا تو نہیں ہوا تھا؟ “۔ الطاف بھائی نے اپنے کارکنوں کا کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ”اسکاٹ لینڈ اور لندن پولیس انہیں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث کرنے کی سازش کررہی ہے “ بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق الطاف بھائی نے کہا کہ ” ان کے خلاف سازش بند کی جائے اسی میں برطانیہ کی بہتری ہے “۔اسی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ الطاف حسین نے کہا کہ مجھ پر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے الزامات لگائے جارہے ہیں ۔ الطاف حسین نے یہ بھی کہا کہ ” ان کی جان کو خطرہ ہے برطانوی حکومت اور اسٹبلشمنٹ میری جان بھی لے سکتی ہے کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا ،اگر میں مرجاﺅں تو میرے کارکن میرے لیے دعائے خیر کریں “۔

الطاف بھائی برطانیہ کے لوگ تو لفظ اسٹبلشمنٹ کو اس پیراہے میں شائد ہی جانتے ہوں جس میںآپ کہنا چاہ رہے ہوں کیونکہ پاکستانی لوگ بھی پہلی بار آپ ہی کی زبانی یہ لفظ سنکر اس کے معنی اور مفہوم تلاش کرتے رہی تھے۔ اچھا ہوتا کہ آپ وہاں کے لوگوں کو اس کے معنی اور مفہوم بھی بتادیتے ۔ ویسے الطاف بھائی آپ ہیں کمال کے آدمی ، آپ کی ذہانت کا جواب نہیں ہے کہ آپ نے ایسے وقت میں تقریر کا اور اپنے جلسے کا انعقاد کیا جب اسلام آباد میں برطانوی وزیراعظم کیمرون ڈیوڈ وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کررہے تھے ۔ایسا لگتا ہے کہ الطاف بھائی دراصل برطانوی وزیراعظم کو اپنی طاقت بتانا چاہتے تھے سو اس میں کامیاب ہوگئے ۔ انہوں نے دراصل اپنے چاہنے والوں کا دیدار بھی برطانوی وزیراعظم کو کرانا تھا اور ان سے کارکنوں کی جذباتی محبت کو بھی ظاہر کرنا تھا۔

چند روز قبل میں ایک کالم لکھ رہا تھا کہ برطانیہ میں کیا ہورہا ہے وہ کون سی شخصیت جن کے گھر کی تلاشی لی گئی میں یہ کالم وقت پر نہیں مکمل نہیں کرسکا لیکن شکریہ الطاف بھائی کہ آپ نے خود ہی یہ بتادیا کہ وہ گھر آپ کا تھا اور آپ سے پوچھ گچھ کی جارہی تھی۔ اب بس ایک بات واضع ہے کہ آپ کا خوف ہے یا احترام کے پاکستان کے اخبارات (ایک یا دو کے سوا) اور میڈیا آپ کا نام تک نہیں لے رہا تھا۔ اگر اس کی وجہ پہلی ہے تو یہ آپ کی شخصیت اور آپ کی تحریک کے لیے درست نہیں ہے اور اگر دوسری ہے تو اس پر تبصرہ کرنا ناممکن ہے۔بہرحال سب کو اس بات کا بھی علم ہوگیا کہ آپ کے(الطاف بھائی) چند روز قبل کے بیانا ت جن میں” آپ کی اعصاب شکنی کے لیے بین الاقوامی طاقتوں نے کام شروع کردیا ہے “۔اور ” پاکستان مسلم امہ کا ٹائٹنک ہے اسے بچانے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ ڈوب جائے گا“۔ کے بیانات کا پس منظر کیا تھا۔

Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 166111 views I'm Journalist. .. View More