ایک روشن صبح کا آغاز

موسم اور وقت کی نزاکت سے آج بھی ویسی ہی صبح کا آغاز ہو رہا ہے سورج کی کرنیں اپنا رخ موڑ رہی ہیں اور فضا ان گرم گرم کرنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے لیکن یہ صبح بہت روشن ہے ۔موسم اپنی منزل کی جانب رواں ہے گرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن صبر کرنے والی قوم کے چہرے مسکرا رہے ہیں کیونک انہیں اپنی قسمت بدلنے کا موقع ملا ہے ۔میڈیا نے عوام کو بہت شعور دیا ہے جس کی بدولت عوام نے پورے ملک میں میں ایک ہی نعرے پر لبیک کیا ہے۔اور ایک زندہ قوم بن کر اپنی اور ملک کی تقدیر بدلنے کا ارادہ کیا ہے، فوج نے سب جھوٹوں کو مسترد کر کے غیر جانبدایری کا ثبوت دیا ہے۔جی ہاں الیکشن میں ایک ہی پارٹی کو اکثریت دلا دی تا کہ کبھی یہ نہ کہا جائے ہم اکیلے نہیں تھے۔میاں محمد نواز شریف کو اکثریت مبارک ہو اور قوم کی یوتھ کو متحد کرنے والے عمران خان جنکی سترہ سال کی محنت رنگ لائی اور آج ایک مضبوط لیڈر بن گئےاور اپنا سیاسی مستقبل مضبوط کرلیا ہے۔یہ الیکشن امریکن ٹاﺅٹس اور اسلام پسندوں کے درمیان تھا۔امریکن ٹاوٹس بُری طرح شکست سے دوچار ہوئے۔عوام نے ثابت کیا کہ وہ امریکن غلامی سے نجات چاہتے ہیں۔ قوم نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک مقروض قوم نہیں بنناچاہتی قوم مزید کسی کی جنگ میں اتحادی نہیں بننا چاہتی بھارت سے برابری کی سطح پر تعلقات چاہتی ہے۔غربت میں مزید خود کشیا ںنہیں کرناچاہتی ۔ یہ قوم اپنے پاﺅں پہ کھڑا ہونا چاہتی ہے لیکن کوئی آسرا دینے والا ہو۔دھوکے باز تو پہلے بھی وعدے کرتے رہے لیکن کبھی ساتھ نہیں دیا ساتھ دیا بھی تو اپنے خاندانوں کا،پیسے کے چکر میں اور اقتدار کے غرور میں مال کے پجاری صرف اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف رہے صبر کرنے والی قوم کا مزاق اڑایااور مکان کپڑا تو کیا روٹی بھی چھین لی لیکن یہ قوم صبر کرتی رہی اور آج اپنے موقع کا بھر پور فائدہ اُٹھایا اور ۵سال کے لئے اپنی قسمت کے فیصلے چند قائدین کے ہاتھ میں دے دیے۔

اس قوم کو جتنا روندا گیا خودکُش حملے کروائے گئے، لبرل اور سیکولر کا بنانے کی کوشش کی گئی، ،مہنگائی کے خوفناک جن کو اس قوم پر حاوی کیا گیا لیکن قوم اپنے صبر و شکر پر ڈٹی رہی اور ہرآفت کا مقابلہ کیا ۔وطن عزیز میں کچھ نہیں رہا بجلی غایب ہوگئی،گیس کا نام نہیں رہا ضرورت اشیاءلینے کی جرائت نہ رہی پھر بھی قوم نے اپنے وطن سے محبت قائم رکھی۔ایک طرف لسانی نفرت پھیلائی گئی اور دوسری طرف ملک میں نئے تعصبات میں اضافہ کیا گیا۔صوبائیت کا نام پر قوم کو علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی تو کہیں مذہبی فرقہ واریت کو خطرناک حد تک لایا گیا۔لیکن قوم نے ایک بن کر دکھایا اور سب مصیبتوں آفتوں کا مقابلہ کیا۔ان صحافیوں کو بھی نہیں بھُلایا جا سکتا جنہوں نے اپنی جانیں پیش کیں اور نہ ڈروں حملوں میں شہید ہونے والوں کی قربانیاں بھلائی جا سکتی ہیں۔دشمن سے مقابلہ کرنے والے پاک فوج کے جوان شہید ہوکے آج بھی قوم کے سینوں میں زندہ ہیں۔مختصر یہ کہ سابقہ دو ادوار حکومت قوم کے لئے کٹھن و دشوار گزرے ۔جس کا ازالہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا ۔ان نااہل لوگوں کو قوم نے مسترد کردیا جن کی بنیاد ہی جھوٹ پر مبنی تھی جو وعدہ خلافی کوقُرآن و حدیث نہیں سمجھتے تھے۔جن لوگوں نے اپنی عیاشیوں کی خاطراداروں سے ٹکراﺅ جاری رکھا اور جھوٹوں کے آئی جی کہلانے کے مستحق ہوئے۔اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو پاﺅں تلے روندا جن کے خون سے اقتدار حاصل کرنے والے کبھی اُس بے گناہ محترمہ کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کرسکے وہ عوام کے عام آدمی کلا تحفظ کیسے کرتے آج ان نا اہل اور کرپٹ لوگوں کو شکست ہوئی ہے ۔

اگر آج 41سال بعد ایک جمہوری پارٹی کو دوبارہ قوم نے موقع دیا ہے تو لیڈران کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کریں اور قوم کی اُمیدوں پر پورا اُتریں۔میاں محمد نواز شریف صاحب نے انتخابات کے دن ہی قوم کو اچھا پیغام دیا ہے سیاستدانوں کو ملک کے لئے ایک جگہ مل بیٹھنے کا اندیہ دیا ہے یہ بہت ہی اچھا ہے اور اپنے سیاسی حریف عمران خان کو نہ صرف معاف کرنے کا اعلان کیا بلکہ اُن کی عیادت کے لئے شوکت خانم ہسپتال بھی گئے اب عمران خان کو چاہئے کہ وہ بھی مثبت رویہ اپنائیں اور قوم کے لئے ایک بہتر اپوزیشن کا کردار ادا کریں۔ میاں نواز شریف صاحب بھارت کے حوالے سے بھی محتاظ رہیں کیونکہ بھارت نے حال ہی میں ثناءاللہ جیسے بیگناہ قیدی کوایک مجرم کے بدلے میں شہید کردیا جس کے زخم ابھی تک موجود ہیں ۔میاں صاحب کو چاہیے اگر بھارت سے تعلقات رکھنے بھی ہیں بلکہ رکھنے چاہیں لیکن برابری کی سطح پر تعلقات ہوں ۔ خان صاحب کو جس طرح یوتھ نے ووٹ دیا ہے اور خیبر پخونخواہ نے تحریک انصاف کو چُنا ہے خان صاحب کو چاہیے کہ اُن کی امیدوں پر پورا اُتریں پخونخاہ میں اکثریت قبایلیوں کی ہے جو عرصہ دراز سے جنگ کی کیفیت میں ہیں جن کو ہر طرف سے نشانا لگایا جا رہا ہے خان صاحب کو چاہیے کہ وہ طالبان سے بھی ہاتھ بڑھائیں اور انہیں بھی امن کی دعوت دیں۔مولان فضل الرحمٰن صاحب کی پارٹی بھی کے پی کے سے اچھی پوزیشن لے چُکی ہے لیکن حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے پھر بھی تحریک انصاف سے ھخومت لینے کے چکر میں ہے۔مولانا صاحب کو چاہیے کہ وہ عمران خان سے جمہوری حق نہ چھینیں اور خان صاحب کو حکومت بنانے دیں تا کہ جن لوگوں نے اسے منتخب کیا ہے ان کا حق نہ چھینیں۔ مولان صاحب ہر بار حکومت میں رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو کافی شکایات کا بھی سامنا رہتا ہے اب بہتر ہے کہ مولانا صاحب مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کریں۔سب سے اچھی بات یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے جو دھینگا مشتی چل رہی تھی تحریک انصاف اور مسلم لیگ میں وہ کافی کم ہو گئی ہے اوریہ خوشی کی بات ہے۔عمراں کان کو چاہئے اکہ وہ اب الیکشن رزلٹ قبول کر لینے چاہیں اور کسی بھی افواہ پہ کان نہیں دھرنے چاہیں جس سے امن اور جمہوریت کو نقصان پہنچے۔سو فیصد بھی الیکشن شفاف نہیں ہو اور جتنا تحریک انصاف دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے اتنا دھاندلی بھی نہیں ہوئی۔ عمرا ن خان اور میاں صاحب کو تلخیاں بُھلا دینی چاہیں اورقوم کی لئے ایک ہو جانا چاہیے اور مل کر دہشت گردی،بدامنی،مہنگائی،لوڈشیڈنگ،جہالت اور بیروزگاری جیسے مسائل کا مستقل حل ڈھونڈنا چاہیے یہ سب اتفاق سے ہی ہو سکتا ہے۔ایسی قوتیں بھی ملک عزیز میں موجود ہیں جو ملک کو توڑنا چاہتی ہیں ایسی قوتوں کا مقابلہ کیا جائے اور ایسے بھارت نواز نظریات کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔عوام سے کئے گئے وعدوں کو لیڈران خود بھی یاد رکھیں اور اپنے اراکین کو بھی یاد دلاتے رہیں ،کیونکہ قوم کل آپ کو بھی مسترد کر سکتی ہے۔لیڈر بن کر آپ سوچیں تو یہ ملک ترقی کر سکتا ہے اگر پہلے والوں کی طرح صرف عودے وعید ہیں تو پھر قسمت اس قوم کی۔بقول شاعر
”فصل بہار آئی ہے لے کر رُت بھی نئی،شاخیں بھی نئی
سبزہ گُل کے رُخ پرلیکن رنگ قدامت آج بھی ہے“

Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 3 Articles with 1905 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.