بدعنوان کون ہیں۔۔۔؟

گزشتہ روزکابینہ کے ارکان اور وفاقی سیکرٹریوں کو ایک لکھے گئے خط وزیراعظم محمد نوازشریف کی طرف سے لکھا گیا۔کہ موجودہ حکومت کے دور میں کرپٹ اور غیر شفاف طور طریقوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، وفاقی وزرا اور سیکرٹریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اپنے اداروں میں بدعنوان افسروں کو فارغ کر کے اہم عہدوں پر ایماندار اور بے داغ افسروں کو تعینات کریں۔ ایسے افسروں کو بھی ہٹا دیا جائے جو عوام سے غیر دوستانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ عوام نے انتخابات میں ان پر اعتماد کا اظہار کیا اور ان کے پاس اس اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا آپشن موجود نہیں۔نظام کو کرپشن کی لعنت سے پاک کرنا ان کی حکومت کے ایجنڈے میں سب سے اہم ترجیح ہے کیونکہ کرپشن، اقربا پروری اور نااہلی کے خاتمے کے بغیر گورننس میں بہتری نہیں لائی جا سکتی۔ وزیراعظم نے وزرا اور وفاقی سیکرٹریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ جانچ پڑتال کر کے کرپشن اور غیر مناسب رویہ رکھنے والے ملازمین کو برطرف جب کہ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے بدعنوان افسران کے معاہدے منسوخ کر دیں اور ملازمین کو پیشہ وارانہ فرائض بخوبی سرانجام دینے کی ہدایت کریں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق خط میںوزیراعظم نے وزرا سے کہا ہے کہ عوام کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش نہ آنے والے ملازمین کے خلاف انضباطی کارروائی کی جائے گی۔ اہلیت اور دیانتداری کی بنیاد پر ملازمین کی حوصلہ افزائی کی جائے کسی صورت میں شفافیت پر سمجھوتہ نہ کیا جائے کرپشن اور بدانتظامی آخری حد تک ناقابل برداشت ہونی چاہئے۔ کنٹریکٹ افسروں سے معذرت کر لی جائے۔

مہذب دنیاکے دانشوراورجمہوری ادارے ابھی تک کوئی متفقہ نتیجہ نہیں نکال سکے کہ انسان جرم کیوں کرتاہے۔ وہ قانون شکنی میں کیوں فخر محسوس کرتا ہے۔اسے کون سی قوت لاقانونیت اختیار کرنے کی طرف کھینچ کرلے جاتی ہے؟ اوراس پر بھی کوئی متفقہ فیصلہ سامنے نہیں آسکا کہ اگر کوئی کوئی فرد جرم کرتا ہے یا قانون توڑ تا ہے توایسے کس قسم سزا دی جانی چاہیے؟کیاسزا سخت ہونی چاہیے جس سے دیگر لوگ عبرت حاصل کریں؟ یااصلاحی طریقے کواختیارکرناچاہیے تاکہ وہ ایک اچھا اور مفید شہری بن سکے۔آخر الزکرکے لیے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ نفرت انسان کے برے اعمال اور عادات سے ہوسکتی ہے اس سے نہیں۔لہذا انسان کو احساس دلانا ہی اصل کام ہوتاہے۔اول الزکرکے وکیلوں کا موقف ہے کہ جرم کرنے والے انسان کو سخت سزاملنی چاہیے تاکہ وہ خود اور دوسرے لو گ بھی اس سے عبرت حاصل کریں۔ایک محاور ہ ہے کہ ”چور کو مال کھاتے ہوئے نہ دیکھو مارکھاتے ہوئے دیکھو“۔اس کا مطلب ہے کہ ہیرا پھیری، چوری اور دغابازی کرنے والوں کی زندگی کو مت سامنے رکھو بلکہ جب یہ لوگ قانون کے شکنجے میں کسے جائیں تواس وقت ان کی حالت دیکھنی چاہیے۔ بحرحال معاشرے میں امن وامان برقراد رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ سزاؤں کا نظام نافذہو۔معاشرے لوگوں سے بنتے ہیں اور اشرافیہ ان کومہذب اور قانون کا احترام کرنے والے بناتی ہے۔اسے آجکل انتظامیہ کہاجاتاہے۔انتظامی اداروں کے عہد ید اراگر ایمان داراورفرض شناس ہوں توحکومت کے اعلیٰ عہدیدارابھی ان سے لرزتے ہیں اوراپنے فرض ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتے۔

امیرتیمورجن کادمشق سے لے دہلی تک سکہ چلتاتھا اپنی سوانح عمری”میں ہوں تیمور“ میں لکھتے ہیں کہ وہ جب کوئی علاقہ فتح کرتے تو وہاں کا امن وامان کا ذمہ کوتوال کو سونپ دیا جاتا۔ایک عام قانون نافذ تھا جس کے تحت کو توال اور چوکیدار کام کرتے تھے۔اگر کسی علاقے میں چوری ،ڈکیتی،نقب زنی یا راہزنی کی واردات ہوتی توکوال اور چوکیدار کا سرقلم کردیاجاتاتھا۔ملازمت پر حاضر ہوتے وقت دونوں عہدیداروں کوبتادیاجاتاتھاکہ ان کے فرائض کیاہیں؟۔اوران کی غفلت کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔معاشرے ہمیشہ دیانتداراہل کاروں اورانصاف پسندحکمرانوں کے زیر حکومت ہی ترقی کرسکے ہیں۔ہم پہلے بھی کئی باربتاچکے ہیں کہ حکمرانوں کے لیے فلسفہ،منطق یا علم نجوم جانناضروری نہیں۔ان کا دیانتداراوردلیر ہوناضروری ہوتاہے۔لیکن کروڑوں روپے سکیورٹی پر خرچ کیے جانے باجود پاکستان کی صوبائی اور وفاقی حکومت کے نمائندے بھی ہر روز ایسی متعدد دہشت گردی کی وارداتوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ امن وامان دور دور تک نظر نہیں آرہا۔عام خیال ہے کہ حکمران اپنے کا رنامے چھپانے کیلئے کسی نئی سوچ میں پڑے ہیں۔

Ghulam Murtaza
About the Author: Ghulam Murtaza Read More Articles by Ghulam Murtaza: 33 Articles with 21307 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.