کہا جاتا ہے کہ خواتین صنفِ نازک
ہوتی ہیں اور مردوں سے زیادہ حساس بھی ،ماں بہن بیٹی،بیوی کی شکل میں ان کے
خوبصورت روپ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اندر محبت و شفقت، خلوص، ہمدردی
اور وفا کے جزبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوتے ہیں،قیام پاکستان کے بعد عملی سیاست
میں بھرپور طریقے سے شامل ہونے کے لئے سب سے پہلے مادر ملت محترمہ فاطمہ
جناح سامنے آئیں اگرچہ قائد اعظم کی وفات کے بعد آپ نے گوشہ نشینی کی زندگی
اختیار کر لی تھی ۔مگرکچھ قریبی ساتھیوں کے مشورے سے سیاست کے خار دار میں
قدم رکھنے کا فیصلہ کر لیااور 1965 کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے لئے
پورے ملک کا طوفانی دورہ بھی کیا ،مگر افسوس کہ اپنوں کی سازشوں اور
ہوشیاریوں کا شکار ہو گئیں، صدارتی انتخاب کے دوران ایوب خان کی نکتہ چینی
کے جواب میں مادر ملت نے کہاتھا’’ ایوب فوجی معاملات کا تو ماہر ہو سکتا ہے
لیکن سیا سی فہم و فراست میں نے قائد اعظم سے براہ راست حاصل کی ہے ۔‘‘
کاش اس وقت مادر ملت کو کچھ عرصہ کے لئے ہی سہی اس ملک کی قیادت نصیب ہو
جاتی ،مگر پاکستان کی بدنصیبی کہ ابتداء سے ہی پاکستان کو میر جعفر اور میر
صادق جیسے غداروں کا سامنا کرنا پڑا ۔9جولائی 1967کو73 سال کی عمر میں آپ
کا انتقال ہو گیا ۔ ایک حیرت انگیز امر یہ ہے کہ قائد کی زندگی میں19سال تک
ساتھ رہیں یعنی 1929سے1948اور پھراپنی وفات تک 1946 سے1967تک زندگی کی مزید
19 بہاریں دیکھیں ۔مگر عملی سیاست سے نہ صرف آپ کو بلکہ اس ملک کے مخلص ،
محنتی اور محب وطن لوگوں کی جماعت کو ایک سازش کے تحت الگ کرنے کا سلسلہ
بھی ساتھ ساتھ جاری رہا ۔
مادر ملت نے ان دنوں اپنے بیانات میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا تاریخ گواہ
ہے کہ وہ سب سچ ثابت ہوئے۔ان خدشات میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی مداخلت،بیرونی
قرضے، غربت اور معاشی ناہمواری،مشرقی پاکستان اور دیگر پس ماندہ علاقوں کی
حالت زار ، ناخواندگی اور سائیٹفک تعلیم کے بارے میں مجرمانہ غفلت، نصاب
میں اسلامی اقدار اور قرآنی تعلیمات کا فقدان،جمہوری اور پارلیمانی دستور
کی تشکیل میں تاخیر،خارجہ پالیسی کے یک طرفہ اور غیر متوازن رویے ،شامل
تھے۔
محترمہ فاطمہ جناح کے بعد نمایاں سیاسی شخصیت جنہوں نے پاکستان کی سیاست
میں ایک تاریخ رقم کی اور اہم کردار ادا کیا ،وہ محترمہ بینظیر بھٹو ہیں،ان
کو دو بار حکومت کرنے کا موقع ملا ، مگر دیکھا جا ئے تو یہ بھی اپنوں کی ہی
سازشوں کا شکاررہیں۔ آپ میں ایک اچھی لیڈر کی صلا حیت موجود تھی ،اگر ان کو
ایک بہترین مخلص اور محب وطن ساتھیوں کا ساتھ مل جاتا تو ہو سکتا تھا کہ
ملکی حالات میں کچھ بہتری کے آثار نظر آ جاتے ۔مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا
اور27 دسمبر 2007میں ایک خوفناک حادثہ نے ان کی زندگی کے چراغ کو ہمیشہ کے
لئے گل کر دیا ۔یہ ان کی ہی شخصیت کا کمال تھا کہ پیپلز پارٹی ایک عوامی
مقبولیت کی سند کا درجہ رکھتی تھی ،مگر2013کے الیکشن میں ان کے نہ ہونے سے
پارٹی کو شدید دھچکہ لگا اور وہ سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی۔
نجانے یہ پاکستانی سیاست کا کمال ہے یا اس کا سحر کہ موجودہ دور کی سیاسی
خواتین نے جب جب اس میدان میں قدم رکھا تو وہ بھی اسی سیاسی کلچر میں ڈھل
گئیں کہ جو روایتی طور پر ہمارے ملک میں را ئیج ہے ۔ یعنی کرپشن ،دھوکہ دہی
، وعدے کر کے اس سے پھر جانا ،جھوٹ ،دھونس دھاندلی،ظلم کے خلاف صرف آواز
اٹھانا ،اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال،عوام کی خدمت کی بجائے اپنی خدمت
کو ترجیح دینا،عوامی جزبات و احساسات کا استحصال وغیرہ ۔اتنی جلدی تو شاید
گرگٹ بھی اپنا رنگ نہیں بدلتا،جتنی جلدی الیکشن کے فورا بعد جیت کے نشے میں
سر شار نام نہاد عوامی نمائندے اپنا رنگ و روپ بدل لیتے ہیں ۔بہت سے سیاست
دانوں نے سیاست کو خدمت کی بجائے پیشہ بنا رکھا ہے ۔
موجودہ دور کی سیاسی خواتین عوامی خدمت کی بجائے فیشن ، مہنگی خریداری ،
ظلم و زیادتی ،پارٹیاں تبدیل کرنا ،ٹکٹ نہ ملنے پر اپنی ہی پارٹی کے خلاف
محاذ بنا لینے اور خاندانی سیا ست کی وجہ سے خاصی مشہور ہو ئی ہیں ۔
سب سے پہلا نمبر حنا ربانی کھر صاحبہ کا آتا ہے ۔جن کا زیادہ وقت ملک و قوم
کی خدمت کی بجائے اپنے آپ کو بنانے سنوارنے میں گزر گیا ۔ ان کے مہنگے ترین
خریدے گئے بیگ اور نیکلس نے ان کو خاصا مشہور کر دیا ، نرم و نازک نسوانی
حسن کی وجہ سے موضوع بحث بنی رہیں ،کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ پاکستان کے امیج
کو بہتر کرنے اور ملک کی ترقی کے لئے اپنی صلاحتیں صرف کرتیں ۔ان کی سیاست
صرف بیانات دینے تک ہی محدود رہی۔
یوں لگتا ہے کہ پاکستانی سیاست اور معاشرہ اخلاقی ، معاشرتی تباہی کی طرف
بڑھتا چلا جارہا ہے۔عوام سے محبت اور ہمدردی کے دعوے تو کئے جاتے ہیں مگر
جب یہی سیاست دان عملی سیاست میں حصہ لیتے ہیں تب ان کی اخلاقیات اور عوام
سے نفرت کا رویہ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔پا کستان کی قومی اسمبلی میں234کے
ایوان میں خواتین کی60 مخصوص نشستیں ہیں ۔
ابھی نئی حکومت کو اقتدار میں آئے صرف ایک ماہ ہی ہوا ہے ،کہ ان سیاسی
خواتین کی عوامی خدمت کی کارکردگی سامنے آنا شروع ہو گئی ہے۔
رعونت ،تکبر اور عوامی نفرت سے بھرپور پہلی سیاسی خاتون شخصیت کا چہرہ جو
بار بار نظروں کے سامنے آتا ہے وہ پیپلز پارٹی کی وحیدہ شاہ ہیں ،جنہوں نے
2012کے ضمنی الیکشن کے دوران دو تین خواتین کے منہ پر تھپڑمارنے سے اچھی خا
صی شہرت یا بدنامی حاصل کی قطعہ نظر اس کے کہ وہ قصور وار تھیں یا نہیں،ایک
عوامی نمائندے بننے والی اور ایک عورت ہونے کے ناتے ان کو یہ حرکت کسی بھی
طرح سے زیب نہیں دیتی ،کہ آپ سرِ عام کسی کو خود سزا دیں یا اس کی عزت کو
اس طرح سے پامال کریں ۔عدالت نے ان پر 2 سال کی پابندی لگا دی ۔
پھر یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں ابھی حال ہی میں نگہت شیخ جو مسلم لیگ سے تعلق
رکھتی ہیں نجانے کس طرح اپنی بڑی بڑی گاڑیوں کو چھوڑ کر بس میں سفر کرنے کا
خیال آگیا جو عوام کو مہنگا پڑ گیا ، بس ہوسٹس کو صرف اس وجہ سے تھپڑ دے
مارا کہ اس نے پانی پلانے میں تا خیر کی ۔ایک لڑکی جو محنت اور رزق حلال
کمانے کی نیت سے گھر سے نکلی وہ عوامی نمائیندے کی غنڈہ گردی کا شکار ہو
گئی۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق اس بچاری بس ہوسٹس کے خلاف ہی جھو
ٹا مقدمہ درج کر ڈالا، جو بعد میں خارج کر دیا گیا ،بس کے مسافر بھی 4گھنٹے
تک انتظار کی سولی پر لٹکتے رہے ۔یہ ہے ان کی عوامی خدمت اور ان کو ووٹ دے
کر ایوان اقتدار میں لانے کا صلہ۔۔
شرمیلا فاروقی صاحبہ کے بارے میں کچھ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ یہ صرف نام کی
ہی شرمیلا ہیں پتہ نہیں ماں باپ نے کیا سوچ کے ان کا یہ نام رکھ دیا ہے
،ویسے یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے ان کے والد عثمان فاروقی اور والدہ صاحبہ ا
نیسہ فاروقی صاحبہ دونوں ہی پر 2000میں کرپشن کے الزامات لگے ،یوں ان کو
ایک سال تک لوٹی ہوئی رقم واپس کرنا پڑی،اس طرح دونوں 21 سال تک نا اہل
قرار پائے۔ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ۔۔17 جولائی2012 میں ایک ٹی وی ٹاک
شو میں نڈر اور بے باک صحافی انصار عباسی کے خلاف شرمیلا صاحبہ نے بے بنیاد
اور سنگین الزامات لگائے ۔جس کی بناء ہر ان پر مقدمہ بنا ۔جو کہ بعد میں
معافی نامہ پر خارج کر دیا گیا ۔یہ بھی اس ملک کی ایک عجیب روایت ہے کہ
اثرو رسوخ رکھنے والوں نے بڑے سے بڑا جھوٹ بولا ہو ، کرپشن کی ہو معافی
مانگ کر جان چھڑا لیتے ہیں۔اسی طرح ایک ٹاک شو میں جب ان سے حکومت کی
کارکردگی،اور محترمہ بینظیر کے قاتلوں کی عدم گرفتاری سے متعلق سوال پوچھا
گیا تو جواب دیئے بغیر ہی پروگرام سے اٹھ کر چلی گئیں۔کالا باغ ڈیم بنانے
کے معاملے میں ان کے بیان کو بھی تنقیدی نظر سے دیکھا گیا جب انہوں نے سندھ
اسمبلی میں دھوواں دار تقریر کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ کالا
باغ ڈیم ان کی لاش پر سے ہو کر بنے گا ۔
اب ذکر ہو جائے ماروی میمن صاحبہ کا اپنی سیاست کے آغاز میں تو انہوں نے
خوب جوش و جزبے سے عوامی خدمت کرنے کا بیڑا اٹھایا۔مگر وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ یہ بھی پاکستان کی روایتی سیاست کی نظر ہو گئیں ۔اور پارٹی تبدیل کرتے
کرتے پی ایم ایل ن کو پیاری ہو گئیں۔الغرض اس وقت تک تو ایسی کوئی بھی مخلص
اور ملک و قوم کی صحیح معنوں میں خدمت کرنے والی سیاسی خاتون نظر نہیں
آتیں۔ہر کسی کو اپنا یا پارٹی کا مفاد ہی عزیز ہے ، اب آنے والا وقت ہی
بتائے گا کہ یہ سیاست دان آخر کب تک عوام کے صبر اور حوصلے کو آزماتے
ہیں،کہیں یہ اس انتظار میں تو نہیں کہ ہم تب بدلیں گے جب تم بدلو
گے،پاکستان سماجی انصاف ،مساوات، اخوت،اجتماعی بھلائی ،امن اور مسرت کے
حصول کے لئے قائم کیا گیا تھا ،آج ہمیں اس نصب العین سے دور پھینک دیا گیا
ہے۔کیا ہمیں اب بھی اس خفیہ ہاتھ کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس نے ہماری
زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے ۔ |