راجہ رینٹل اور خواجہ سیالکوٹی

کیا کہیں پھر اس ہمیشہ سے دھوکے کھاتی قوم کے ساتھ اب کی بار بھی کوئی ہاتھ تو نہیں ہو گیا،کیا تیر سے لہو لہو قومی بدن کسی شیر کے شکنجے میں تو نہیں آ گیا ،کیا کہیں ایساتو نہیں ہو گیا کہ قوم کو آٹے کے بدلے آٹا مل گیا ہو،نہلے پہ دہلا تو نہیں لگ گیا،جانیوالے اگر کشکول اپنے ساتھ لے گئے تو آنیوالے تھیلے اور جھولے لیکر تو نہیں آ گئے،غیر سنجیدہ لوگوں کی جگہ کہیں جوکروں نے تو نہیں لے لی،تقدیر بدلنے کے دعوے کرنے والے کہیں چہرے بھی تو نہیں بگاڑنے آ گئے،نیا پاکستان اور بدلیں گے پاکستان کے نعروں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیئے کہیں نشتر زنی تو نہیں شروع کی جا رہی،کیوں کہ چیر پھاڑ اور بڑے آپریشن کے بغیر نا سور تو اپنی جگہ سے ہلتا بھی نہیں مگر کہیں ناسور کو نکالتے نکالتے دل ،جگر ،گردے اور پھیپھڑوں پہ طبع آزمائی کا ارادہ تو نہیں،یہ اور ان جیسے ان گنت سوال ہیں جو اب اب آہستہ آہستہ لال نیلے اور غربت کی پیلاہٹ سے اٹے چہروں اور آنکھوں میں اٹھنا شروع ہو گئے ہیں،تیروں کی بوچھاڑوں سے چھلنی بدن سنبھالتی قوم سراپا سوال بنتی جا رہی ہے کہ کہیں اس نے آپ اپنا آپ کسی بھوکے شیر کے حوالے تو نہیں کر دیاکل تک عوام کے درد میں دبلے ہوئے جا رہے شیر اور سونامی خان آج لگتا ہے سارے حساب چکانے کے درپے ہیں کیا سندھ ،کیا بلوچستان کیا پنجاب اور کیا خیبر پختونخواہ کہیں بھی کچھ بھی تو نہیں بدلا،اگر یہی کچھ ملنا تھا اتنے کشٹ اٹھانے کے بعد تو پھر اتنے تردد کی کیا ضرورت تھی،کیوں ایک سے ایک بڑا ناہل اس قوم کا مقدر بنتا ہے ہر دفعہ ،دلیل یہ ہے کہ ہر جانیوالا چند ماہ بعد مسیحا اور فرشتہ لگنا شروع ہو جاتا ہے،آپ ظلم کی انتہا دیکھیں کہ ڈکٹیٹروں تک کے بارے میں لوگ مجبور ہو کر کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ان سے تو وہ کئی گنا بہتر تھاشیر نے پہلا بجٹ پیش کر کے ہی قوم کی کافی ساری غلط فہمی دور کر دی،خواص کو چھوڑ کر ٹیکسوں کی عام افراد پر بھرمار نے اس شیر کی یاد تازہ کر دی جس نے ایک دفعہ جنگل کے تمام جانوروں کو اپنے دربار میں اکٹھے ہونے کا حکم دیا اور جب تمام کے تمام جانور اکٹھے ہو گئے تو بادشاہ سلامت نے زور سے پنجہ زمین پر مارا اور گرج دار انداز میں دھاڑتے ہوئے تمام جانوروں کو ایک لائن میں بیٹھ جانے کا حکم سنایا جب تمام جانور ڈر سہم کر بیٹھ گئے تو بادشاہ سلامت نے خرگوشوں کے ،،ڈار،،کو حکم دیا کہ تم میں سے ایک شاہی فرمان پڑھ کے سنائے خرگوش چند قدم آگے آیا اپنا بریف کیس کھولا، بادشاہ سلامت کی طرف دیکھا شیر نے تائید میں سر ہلایاخرگوش بولا جیسا کہ آپ جانتے ہیں ان دنوں ہم سخت کرائسس سے گذر رہے ہیں،ہماری سلطنت کے معاشی حالات سہی نہیں ہیں اور جیساکہ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ادھر ادھر سے بھی ہمیں ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے کچھ ملنے کی امید نہیں اس لیئے اس دفعہ پھر یہی فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس جنگل میں چونکہ چھوٹے اور نچلے درجے کے جانوروں کی بہتات ہے اور کثرت تعداد کی وجہ سے اس جنگل کے زیادہ تر وسائل بھی وہی استعمال کرتے ہیں اور ان کا زیادہ تر وقت بلکہ پوری زندگی اسی جنگل میں ہی گذرتی ہے اس لیے ان تمام جانوروں کو تھوڑی تھوڑی قربانی دینا ہو گی لہٰذا اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کر لو تاکہ بعد میں آپ جانوروں کو کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ نہ ہو،اگر کسی کو کوئی اعتراض ہو تو شہنشاہ معظم سے صرف ایک سوال کی اجازت ہے،جنگل میں خاموشی چھا گئی،تھوڑی دیر بعد بادشاہ کی دھاڑ سنائی دی کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں آپس میں مشورہ کر کے بھی سوال کر سکتے ہو،جانور آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے اور تھوڑی دیر کے بعد فیصلہ ہو ا کہ بادشاہ سلامت سے سوال کی مجال تو کسی میں بھی نہیں ہاں البتہ دست بدستہ ایک گذارش ضرور کی جائے گی اور گذارش بھی کسی معصوم اور کمزور جانور کے ذریعے کی جائے گی تاکہ شہنشاہ معظم کی طبیعت پہ گراں نہ گذرے مبادا کہ بادشاہ سلامت ناراض ہو جائیں،چنانچہ فیصلہ ہو ا کہ بکری یا بھیڑ کے بچے کو یہ ذمہ داری سونپی جائے ،تمام جانوروں نے میمنے پہ اتفاق رائے پیدا کیا اور نسبتاً سمجھدار سے ایک میمنے کو بادشاہ سلامت کے سامنے بھیجا،بادشاہ نے کہا سوال کیا جائے میمنے نے کہا جناب عالی جان کی امان پا کے صرف اتنی گذارش ہے اور وہ بھی جنگل کے تمام باسیوں کی طرف سے کہ رعایا یعنی ہم ہر دفعہ قربانی دیتے ہیں اس دفعہ اگر تھوڑی سی قربانی حکمران یعنی آپ دے دیں تو حالات بہت بہتر ہو جائیں گے ،میمنے کی بات ابھی مکمل بھی نہ ہو پائی تھی کہ شیر نے ہنسنا شروع کر دیا اور اتنا ہنسا کہ ہنس ہنس کے لو ٹ پوٹ ہو گیا،بادشاہ کو ہنستا دیکھ کر باقی جانور بھی خوشی سے اچھلنا کودنا شروع ہو گئے ،شرلیاں اور پٹاخے چلنے لگے،کچھ ڈھول کی تھاپ پر ناچنے لگے کہ بادشاہ سلامت کو ہماری بات بہت زیادہ اچھی لگی تبھی تو شہنشاہ عالم پناہ ہنسی ہی جا رہے ہیں،کافی دیر بعد جب ہنسی کا دورہ کچھ تھما تو بادشاہ سلامت نے ٹشو سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے چھوٹی منرل واٹر کی بوتل منہ سے لگاتے ہوئے ایک دفعہ پھر تمام جانوروں کو خاموش ہونے کا حکم دیا اور کہا کہ تم سب کی طرف سے اس چھوٹے میمنے کی طرف سے جو تجویز سامنے آئی ہے ہمیں بڑی پسند آئی مگر مجھے ہنسی تمھارے اس پاگل نمائندے پہ آئی جو کہہ رہا کہ اس دفعہ حکمران یعنی شیر بھی قربانی دیں بات اس کی بالکل ٹھیک ہے کہ ہر دفعہ بھیڑ بکریاں ہی قربانی دیتی ہیں اس دفعہ شیر وں کو بھی قربانی دینی چاہیے مگر دیکھو اس پاگل کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ہم قربانی کیوں نہیں دیتے ہم ضرور دیتے قربانی مگر بھائیو آپ میں جوپڑھے لکھے ہیں وہ چنگی طرح جانتے ہیں کہ شیر کی قربانی جائز نہیں اب آپ ہی بتائیں اس میں بھلا ہمار کیا قصور۔ لہٰذا قربانی تو آپ کو ہی دینی پڑے گی،اب آپ بتائیں کہ اس شیر میں اور ہمارے شیروں میں کتنا فرق ہے ادھر کے ڈار صاحب نے بھی کیا کمال کر دیا شاید ان کو یہ بات پہلے سے معلوم تھی کہ شیروں کی قربانی تو جائز ہی نہیں اس لیے سارا وزن بھیڑ بکریوں پر ڈال دیا،اب کہتے ہیں ہمیں مسائل ہی مسائل ملے ہیں ورثے میں،تو جناب تبھی تو مزہ آتا ہے حکمرانی کا اور اپنی مہارت کو آزمانے کا ،سائلوں نے آپ کو انہی مسائل کے حل کے لیے مینڈیٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجا ہے،آپ کچھ تو نیا کریں اپنے پیشروؤں سے،ان کے وزیر پانی و بجلی فرماتے تھے 2009کے دسمبر کے بعد قوم لوڈشیڈنگ کو بھول جائے گی اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ آپ کے شہباز کہتے تھے کہ چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ کا قلعہ قمع کر دیں گے اور اب آپ ہی کے خواجہ سیالکوٹی فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ تین سال تک تو حل ہونے والا نہیں تو جناب ذرا یہ بھی تو بتا دیں کہ کیا آپ کو تیس سال دیں تب تک یہ حل ہو جائے گا اور اگر یہ قوم آپ کو تیس سال دے بھی دے تب بھی آپ سے یہ حل ہونے والا نہیں کیوں کہ اس کے حل کے لیے عملی طور پرکچھ کرنا پڑتا ہے جی ہاں عملی طور پر۔جس حساب سے پاکستان کی آبادی اور نئے گھر بڑھ اور بن رہے ہیں چند سال بعد ہمیں نہیں امید کہ پاکستانیوں کو بجلی چند گھنٹے بھی لگا تار مل سکے ایک طرف ایم پی اے اور ایم این اے دھڑا دھڑ نئے کنکشن اور نئی لائینیں فراہم کیے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ کالا باغ تو دور کی بات ڈاکٹر ثمر مبارک مند کب سے تھر میں اپنی دکان سجائے اس انتظار میں ہیں کہ کب کوئی اس طرف نظر کرم کرے اور اس قوم کو اس لوڈشیڈنگ کے عذاب سے کسی حد تک ہی سہی نجات مل جائے،اب کالا باغ ڈیم (جس سے بجلی ہمیں دو روپے یونٹ مل سکتی ہے جبکہ آج بجلی کی ایک یونٹ کی لاگت پندرہ روپے جبکہ عام افراد کو دس روپے میں مل رہی ہے) کی تعمیر کے لیے بظاہر کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی ۔ پنجاب میں آپ کی اپنی بلوچستان میں من مرضی اور سب سے زیادہ جن کو اعتراض تھا خیبر پختونخواہ میں نیا پاکستان والوں کی حکومت ہے بسم اﷲ کیجیے اگر آپ کچھ کرنے میں سنجیدہ ہیں تو ۔خالی خولی بیانات اور دعووں کا وقت گذ ر گیا اب عملی طور پر کچھ کرنے کا وقت ہے اگر آپ نے بھی وہی سب کرنا ہے جو آپ سے پہلے کر تے رہے صرف پوائنٹ سکورنگاور ڈنگ ٹپانے ہیں تو پھر ڈنگ ٹپانے والوں کا حشر بھی آپ کے سامنے ہے،تاریخ کا سب سے بڑ االمیہ یہی ہے کہ کوئی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا ،قوم نے آپ کو اپنا نجات دہندہ سمجھا رہنما سمجھا اس سے قبل جس کو راہنما بنایا گیا وہ راہزن نکلا امید ہے آپ پہلوں سے مختلف ثابت ہوں گے اﷲ آپ کا حامی و ناصر ہو،،،،،،،،