اقتدار کا معاملہ بھی رزق کی
مانند ہوتا ہے کہ کب، کسے اور کس قدر حاصل ہو اس کا حتمی علم رازق کے سوا
کسی اور کو نہیں ہوتا ۔یہ ایک اضطراری عمل ہے لیکن جب اقتدار حاصل ہوجائے
تو کیا رویہ اختیار کیاجائے اور جب چھن جائے تووہ کس وقار کا مظاہرہو یہ
اختیاری عمل ہے۔ صدر محمد مورسی نے نہ تو کسی انسان سےہاتھ پھیلا کر
اقتدارطلب کیا اور نہ ہاتھ جوڑ کر اسے بچانے کی کوشش کی۔ وہ ایک شانِ بے
نیازی کے ساتھ کرسیٔ اقتدار پر فائز ہوئے اور اسی قلندرانہ شان کے ساتھ
اقتدار سے بے دخل ہوگئے ۔ اس بات کا پورا امکان تھا کہ وہ فوج کے آگے
گھٹنے ٹیک کر چپ چاپ سعودی عرب یا ترکی جانب نکل جاتے لیکن ان کا ایسا کرنا
مومنانہ وقار کے خلاف تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ایک شجر پر بہار کی مانند فوج
کی آندھی کے سامنے سینہ سپر ہونے کا انجام کیا ہوسکتا ہے؟ لیکن بندۂ مومن
کے نزدیک یہ حسابِ سود و زیاں بے معنیٰ مشق ہوتی ہے۔ وہ اپنی زندگی اطاعتِ
خداوندی میں بسر کرتا ہے اور انجام کی پرواہ کئے بغیر اقتدار پر اصول و
نظریہ کو ترجیح دیتا چلا جاتا ہے کہ اقتدار تو موسم کی طرح ایک آنی جانی
شہ ہے لیکن عقائدو نظریات کا معاملہ رگِ جاں کا سا ہے وہ جیتے جی جدا نہیں
ہوسکتے۔
اس کارگہہ ہستی میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ افراد واجتماعیت کوکبھی کبھار رب
کائنات ایک ایسے دو راہے پر لاکھڑا کردیتا ہے جہاں ایک جانب اصول اور دوسری
جانب اقتدار ہوتا ہے۔ یہ کڑی آزمائش کا مرحلہ ہوتا ہے ۔حدیث کا مفہوم ہے
جب اقتدار اوردین الگ ہو جائیں تو دین کا ساتھ دو۔ امریکہ کے جڑواں ٹاورس
کی مسماری کے بعد افغانستان میں طالبان اسی صورتحال سے دوچار ہوئے تھے۔ ان
سے دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد طاقت نے اسامہ بن لادن کی سپردگی کا مطالبہ
کیا ۔ طالبان کا جواب تھا ان کے جرم کا کوئی ثبوت مانگا تاکہ مقدمہ دائر
کیا جاسکے ۔اس معقول مطالبہ نےفرعونِ وقت جارج بش کو چراغ پا کردیا۔ اس نے
یہ کہہ کرانکار کیا کہ تم جانبدار ہو ۔طالبان جواب تھا یہی بات تم پر صادق
آتی ہےاس لئے ایسا کرتے ہیں کہ کسی غیر جانبدار سے رجوع کرتے ہیں جو حق کے
ساتھ عدل کر سکے ۔ امریکی کبر ونخوت نے اس معقول پیش کش کو بھی رد
کردیااوربلا شرط اطاعت کا مطالبہ کرتے ہوئےاقتدار سے بے دخل کرنے کی دھمکی
دے دی۔ اس نازک موقع پرطالبان نے اقتدارسے دستبردار ہونا گوارہ کرلیا لیکن
اصولوں سے مصالحت نہیں ۔نتیجہ یہ ہوا کہ بارہ سال بعد ناٹو کی متحدہ فوج کے
سربراہ کو اعتراف کرنا پڑا کہ جو گفت و شنید امریکہ فی الحال طالبان سے
کررہا ہے یہی کچھ اسے ۲۰۰۲ میں کرنا چاہئے تھا۔ اسے کہتے ہیں حق کی فتح
اور باطل کی شکست۔ اگر اس وقت اقتدار کو بچا لیا جاتا تو حق شکست کھا جاتا
اور باطل کو کامیاب ہوجاتا۔ آج سرزمین افغانستان میں طاغوت اپنی آخری
سانسیں گن رہا ہےاورکابل اقتدارپھر ایک بار طالبان کے جھولی میں آنے کو
ہے۔مصر کی موجودہ صورتحال میں اقتدار اور اصول کی کشمکش سے ظاہر ہونے والے
دیرپا نتائج کوواضح کرنے والی اس سے بہتر مثال کوئی اورنہیں ہوسکتی۔
ربِّ ذوالجلال کی جانب سےدنیا ئے فانی میں انعام و اکرام کے ساتھ آزمائشوں
کا بھی سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے اور اکثر یہ سب غیر متوقع طریقے پرہوتا
ہے ورنہ کون سوچ سکتا تھا کہ مٹھی بھر مسلمان میدانِ بدر سے کامیاب و
کامران لوٹیں گے اور کون جانتا تھا کہ اس سے محض ایک سال بعد احد کےوادی
میں یہ عظیم فتح شکست میں بدل جائیگی لیکن فرمانِ خداوندی ہے ’’ یہ تو
زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘
اللہ تعالیٰ غزوۂ احد کی شکست پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ا ِس وقت
اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی
لگ چکی ہے‘‘یہاں پر بین السطور یہ بات موجود ہے کہ دیکھو تمہارے دشمن بھی
تو اپنی ناکامی سے مایوس نہیں ہوئے بلکہ مقابلے پر لوٹ آئے۔ اسی کے ساتھ
ڈھارس بندھائی جاتی ہے کہ دل برداشتہ ہونے کی مطلق ضرورت نہیں ’’ دل شکستہ
نہ ہو، غم نہ کرو‘‘۔اور پھر یقین د ہانی کہ بالآخر’’ تم ہی غالب رہو گے
اگر تم مومن ہو‘‘۔ تاریخ شاہد ہے کہ تمام تر غیر یقینی صورتحال کے باوجود
وحی الٰہی کا ایک ایک حرف صحیح ثابت ہوا اور چند سالوں کے اندر مکہ فتح
ہوگیا۔
قصۂ خضر وموسیٰ ؑ اسی حقیقت کا غمازہے کہ انسان اپنے اطمینان کی خاطر مشیت
ایزدی کے اسباب و علل کی واقفیت چاہتا ہے۔ اس لئے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے
کلامِ عالی مقام میں شکست وریخت کی وجہ اس طرح بیان فرماتے ہیں’’تم پر یہ
وقت ا س لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں،
اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں کیونکہ
ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں‘‘۔شدید آزمائش کا پیش خیمہ اس چھان بین کا
مقصدِ جلیل ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’اور وہ اس آزمائش کے ذریعہ
سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کر دینا چاہتا تھا‘‘ گویا
کافروں کی سرکوبی کا متبرک کام مخلص مومنین کے ذریعہ لیا جائیگا اس فریضہ
کی ادائیگی سے قبل آزمائش کی چکی سے گزار کر منافقین کو مومنین سے الگ
کردیا جائیگا۔
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ رئیس المنافقین کا اصلی چہرہ پہلی مرتبہ غزوۂ
احد سے قبل سامنے آیا جب وہ اس آزمائش سے قبل اپنے تین سو ساتھیوں کے
ساتھ یہ کہہ کر الگ ہوگیا کہ باہر نکل کر جنگ کرنے کے کا فیصلہ ہمارے مشورے
کےبغیر یا ہماری مرضی کے خلاف کیوں کیا گیا۔ اس صورتحال کا مظاہرہ حالیہ
کشمکش کے دوران بہت ہی واضح انداز میں قاہرہ کے اندر دیکھنے میں
آیا۔دیکھتے دیکھتے طوطا چشمی حامیوں نے رخ بدل کر دشمنوں کی حمایت کا
اعلان کردیا۔ مدینہ منورہ کے دو بڑے قبائل اوس اور خزرج نے ۱۲۰ سال آپس
جنگ کرنے بعد صلح کرلی تھی اور عبداللہ بن ابی کو اپنا مشترک سردار بنانے
کا فیصلہ کرکےتاجپوشی کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ اسی دوران حج کے موقع پر
مدینہ کا ایک قافلہ مشرف بہ اسلام ہو گیا ۔ اس کے ایک سال بعد بیعتِ عقبہ
ثانیہ ہوئی جس میں مدینہ کی سعید روحوں نےحضورِاکرم ؐکے ساتھ جینے اور مرنے
کے عہدو پیمان کرکےیثرب آنے کی دعوت دی۔ عبداللہ بن ابی کا دیرینہ خواب
چکنا چور ہونے لگا اور اس وقت ٹوٹ کر پاش پاش ہو گیا جب محمدِ مصطفیٰ ﷺ
ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے آئے ۔
حسنی مبارک کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعدمصر کےفوجی سربراہ بھی اقتدار
پر قابض ہونے کا خواب سجانے لگے ۔ تحریر چوک پر جمع ہونے والے مظاہرےسے
انہیں اندازہ ہو گیا تھا جب ان کا جوش و خروش سرد ہوگا تو یہ ہمیں کو
بلواسطہ یا بلا واسطہ اقتدار سونپ دیں گے ۔ ان کا یہ اندازہ صحیح تھا ۔
حسنی مبارک کے دستِ راست اور سابق وزیراعظم محمد شفیق کو صدراتی انتخاب میں
ملنے والے ووٹ فوجیوں کی خوش گمانی کی جانب اشارہ کرتے ہیں لیکن وہ اس
حقیقت کو بھول گئے تھے کہ مصر صرف قاہرہ کے آس پاس بسنے والے لوگوں کا ملک
نہیں ہے ۔مصر کے طول و عرض کے اندر اخوان المسلمون کے تئیں پائی جانے والی
ہمدردی کا اندازہ لگانے میں ان لوگوں نے غلطی کی لیکن ملک کے اولین
آزادانہ و غیر جانبدارپارلیمانی انتخاب ان کی غلط فہمی دور کردی ۔ اخوان
کی سیاسی شاخ آزادی و انصاف پارٹی کو ۴۷ فیصد عوام کی حمایت حاصل ہوئی اور
تو اور دوسرے نمبر پر بھی یہ سیکولر اور اشتراکی فکر کے لوگ نہ آسکے بلکہ
سلفی جماعت نو ر کے حق میں ۲۷ فیصد لوگوں نے اپنی رائے دی۔ بقیہ ۲۶ فیصد
رائے دیگر جماعتوں کے درمیان تقسیم ہوگئی اس طرح مصر ی عوام کی نمائندگی کا
دم بھرنے والی سیکولر جماعتوں کے تمام دعویٰ پانی کے بلبلے ثابت ہوئے
نیزدودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا لیکن اس کے باوجود وہ چین سے نہیں
بیٹھے بلکہ ڈیڑھ سال بعدجمہوریت اور حقوق انسانی کے ان نام نہاد علمبرداروں
نے اپنی اقلیتی رائے کو ملک کی اکثریت پر تھوپ کرفوجی اقتدار کی راہ ہموار
کردی۔
مصر کے اندر انقلاب کے مراحل اس طرح سے تھے کہ پہلے انتخاب کے ذریعہ ایک
پارلیمان تشکیل پاتی اس کے بعد عوام کے نمائندوں پر مشتمل پارلیمانی دستور
سازکمیٹی فرسودہ دستور کو نئے دستور سے بدلتی۔ اس دوران نئے صدر کا انتخاب
ہوتاجو اس نئے دستور کے مطابق ازسرِ نو انتخاب کرواتا اور پھر اقتدار کی
باگ ڈور عوام کے نمائندوں کو سونپ دی جاتی۔ اس بالآخرطرح اقتدار سے چمٹے
ہوئے ماضی کے افسران اورفوجیوں سے سیاسی نظام کو پاک کردیا جاتا۔ یہ ایک
نہایت معقول لائحۂ عمل تھا لیکن پارلیمانی انتخاب میں اسلام پسندوں کی
کامیابی نے سیکولر ،بے دین اور اشتراکی فکر کے حاملین کو فکر مند کردیا ۔
انہوں نے اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے مثبت حزب اختلاف کا کردار ادا کرتے
ہوئے آئندہ محنت کرکے رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کے بجائے سیاسی ریشہ
دوانیوں کا آغاز کردیااور چہارجانب سے یلغار کردی۔اس میں ایک محاذپر غیر
سیاسی مظاہرین تھے تو دوسری جانب سیاسی جماعتیں۔ایک طرف فوج تھی تو دوسری
طرف عدلیہ ۔ان سب کی غلامی پر ذرائع ابلاغ معمور تھا۔یہ پانچوں دھڑے اسلام
پسندوں سے خوفزدہ تھے اور پسِ پردہ اسلام کی مخالفت پر ایک دوسرے کی
ہمنوائی کرتے تھے۔اس طرح گویا عوام کی خاموش اکثریت کے ساتھ اسلام پسند ایک
جانب تھے اور دوسری جانب اس سے برسرِ پیکارہنگامہ خیز طاقتور اقلیت تھی۔
اس اقلیت نےسب سے پہلی رکاوٹ دستور ساز کمیٹی کے قیام میں ڈالی اور یہ
الزام لگایا کہ یہ مصری معاشرے کی نمائندگی نہیں کرتی اس لئے کہ اس میں
اسلام پسندوں کی بھرمار ہے۔ سوال یہ ہے یہ دستور جس عوام کی خاطر بنایا
جارہا ہے اس نے جس تناسب سے اپنے نمائندوں کو منتخب کیا ہے اس کو پشت ڈال
کرایسے لوگوں کو اس کمیٹی میں شامل کرلیا جنہیں عوام نے دھتکار دیا کیا
مبنی بر انصاف مطالبہ تھا ۔ اگر عوام اسلام پسندوں کو مسترد کردیتے تو کیا
اس کمیٹی میں انہیں کوئی جگہ دینے کی رواداری کا مظاہرہ یہ نام نہاد
جمہوریت کے علمبردار کرتے۔اس کے مقابلے اسلام پسندوں نے کشادگی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے۱۰۰ رکنی دستور ساز کمیٹی میں اخوان کے صرف ۳۲ افراد کو شامل کیا
جو نمائندگی کےلحاظ سے ۱۵ فیصدکم تھے حالانکہ منتخب شدہ ارکانِ پارلیمان
میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد آزادی اور انصاف پارٹی سے تعلق رکھتے
تھے۔ لیکن پھر ضد اور ہٹ دھرمی کی بنیادپر ایک ایک کرکے سیکولر ارکان نے
استعفیٰ دے دیا اور یہ اعلان کردیا کہ یہ دستور اس لئے قابل قبول نہیں ہے
کہ اسے عوام کی حمایت یعنی ان کی حمایت حاصل نہیں ہے۔اس طرح گویا آئین
سازی کے عمل کو سبوتاژ کیا گیا۔
صدارتی انتخاب میں اول تو اخوان نے دلچسپی نہیں لی تھی لیکن ایوانِ
پارلیمان جمہوریت نوازوں کا اصلی چہرہ دیکھنے کے بعد وہ سمجھ گئےآگے چل کر
ایوانِ صدارت کیا مسائل پیدا کرسکتا ہے اس لئے انہوں نے صدارتی انتخاب میں
حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اب صدارتی انتخاب میں روڑہ ڈالنے کی غرض سے مظاہرین
پھر تحریر چوک میں جمع ہونے لگے بظاہر وہ آزادی و انصاف پارٹی کی مخالفت
نہیں کررہے تھے لیکن ان کا مطالبہ تھا انتخاب سے قبل اقتدار کسی غیر فوجی
کے حوالے کیا جائے۔ فوج نے آزادانہ پارلیمانی انتخاب کا انعقاد کرکے یہ
ثابت کردیا تھا کہ وہ انتخابی عمل میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہتی اس کے
باوجود یہ مظاہرے انتخابی عمل کو التواء میں ڈالنے کیلئے کئے جارہے تھے۔
سوال یہ تھا کہ جس غیر فوجی شہری کو اقتدار سونپا جائے اس کی بنیاد کیا ہو؟
تحریر چوک پر جمع ہونے والے مظاہرین کی مرضی مطابق کسی آدمی اقتدار سونےن
کے بجائے عوام کی رائے معلوم کرکے ان کے نمائندے کو صدر کیوں نہ بنایا
جائے؟ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کل تک جو لوگ فوج کے تحت انتخاب کے روادار
نہ تھے آج وہی لوگ اقتدار فوج کے حوالے ہوجانے پر بغلیں بجا رہے ہیں۔ اسے
کہتے ہیں بے اصول ابن الوقتی اور موقع پرستی۔
صدارتی انتخاب کے پہلے دور میں صدر محمد مورسی اول نمبر پر اور سابق
وزیراعظم ریٹائرڈجنرل محمد شفیق دوسرے نمبر آئے۔ مصری آئین کے مطابق
چونکہ صدر کیلئے ۵۰ فیصد رائے لازمی ہے اس لئےانتخاب کا دوسرا دور ہوا جس
میں صرف دو امیدوار تھے اور اس مرتبہ صدر محمدمورسی کو ایک مہین اکثریت سے
کامیابی حاصل ہوئی لیکن ایسا تو جارج بش کے ساتھ بھی ہوا تھا۔صدارتی انتخاب
میں نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر سیکولر اور اشتراکی فکر کے حاملین نے
جواپنے آپ کو آمریت اور فوج کا مخالف گردانتے ہیں محمد مورسی کے خلاف
ایڑی چوٹی کا زور لگا کر آمریت کےسابق فوجی آلۂ کار کو کامیاب کرنے کوشش
کی لیکن ناکام و نامراد رہے اس کے باوجود ان لوگوں نے اپنی شکست کو تسلیم
نہیں کیا۔مصر کی عوام کوخوب پتہ تھا کہ آزادی و انصاف پارٹی کاتعلق اخوان
سے ہے اور وہ بار بار اس کی حمایت کررہے تھے اس کے باوجود ان سیکولر لوگوں
کامطالبہ تھا کہ صدر اور پارلیمان اخوان کے بجائے ان سے رہنمائی طلب کرے
جبکہ عوام نے انہیں پے درپے مسترد کردیا تھا۔
پارلیمانی انتخاب سے قبل اچانک فوجی حکمرانوں کو اپنے غیر محفوظ ہونے کا
اندیشہ لاحق ہوگیا اور انہوں نے دستور میں تبدیلی کرکے صدر مملکت کے بیشتر
اختیارارت کو بلاواسطہ سلب کرلیا۔ اس دھاندلی کے خلاف سیکولر حضرات نےکوئی
مظاہرہ اس لئے نہیں کیا کہ اس سے ان کے ازلی دشمن محمد مورسی کے حقوق پر
گاز پڑتی تھی۔ آگے چل کر کمال ہوشیاری سے صدر محمد مورسی نےفوجی کاؤنسل
کے سربراہ حسین طنطاوی کوان کے ساتھیوں سمیت سبکدوش کرکے سیاست کوفوج کے
عمل دخل سے پاک کردیا لیکن افسوس کہ حالیہ تبدیلی نے اس زبردست کامیابی پر
پانی پھیردیا اور بھر ایک بار فوج کو اقتدار کے گلیارے میں لے آئی۔
اس کے بعد عدلیہ نے حرکت میں آئی اس نے انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کے
نام پرایوانِ پارلیمان کو معطل کردیا۔ یہ اس قدر احمقانہ فیصلہ تھا جس کی
کوئی حد نہیں ۔ دستوری عدالت کے مطابق چند محفوظ حلقۂ انتخاب میں آئین کی
خلاف ورزی ہوئی تھی اس لئے سارا انتخابی عمل باطل قرار دے دیا گیا حالانکہ
اگر ایسا ہوا بھی تھا توساری پارلیمان کو معطل کرنے کے بجائے ان حلقوں میں
ضمنی انتخابات کروالئے جاتے لیکن یہ دراصل آئین سازی کو روکنے کی ایک
گھناؤنی سازش تھی۔ چونکہ اس سے اسلام پسندوں کی اکثریت والی پارلیمان
برخواست ہوتی تھی اس جمہوریت نواز سیکولر طبقے نے اس ظلم کی مخالفت کرنے کے
بجائے اس کی جی بھر کے پذیرائی اور اسے عدلیہ کی برتری قرار دیا ۔
صدر محمد مورسی نےاقتدار سنبھالنے کے بعد فوج کے ذریعہ کئے جانے والی
دستوری ترمیمات کو صدارتی حکمنامے سے مسترد کرکے پارلیمان کو بحال کردیا۔
اس پر ہنگامہ کھڑا کردیا گیا ۔ ان پر آمریت کا اور دستور کی پامالی
کاالزام لگایا گیا۔ انہیں عدلیہ کا قاتل قراردیا گیا ۔ عدلیہ نے اس حکم
نامے کو غیر آئینی قرار دے دیا جس سے محمد مورسی نے بعد میں رجوع کرلیا ۔
اس دوران فرسودہ فوجی آئین کو بدلنے کیلئے تیار کئے گئے نئے آئین کو
پارلیمان میں پیش کیا گیا اور صدر محمد مورسی نے اس پر استصواب کرانے کا
حکمنامہ جاری کردیا ۔ اس پر پھر ایک بار ہنگامہ کھڑا ہو گیا کہ یہ پورے
سماج کی نمائندگی نہیں کرتا ۔ اس سے اسلامی شریعت کی بو آتی ہے۔ تحریر چوک
پر پھر مظاہرے شروع ہو گئے۔سوال یہ ہے کہ تحریر چوک پر ٹی وی کیمروں کے
سامنے بڑی بڑی باتیں کرنے والے یہ لوگ اپنی عوام کو سمجھانے کیلئے کیوں
نہیں گئے کہ یہ دستور ملک وقوم کیلئے نقصان دہ ہے اس لئے وہ استصواب میں اس
کے خلاف رائے دیں؟وہ لوگ اس مشقت طلب کام کو اس لئے بھی نہیں کرنا چاہتے
تھے اس میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اس مرتبہ ۶۴ فیصد عوام کی
اکثریت نے اس دستور کے حق میں رائے دی لیکن جمہوریت کے ان علمبرداروں نے
عوام کی مرضی کو تسلیم کرنے سے پھر ایک بار انکار کردیا۔ اس طرح گویا چوتھی
مرتبہ ان کی ہٹ دھرمی بنام جمہوریت پسندی عریاں ہو کر دنیا کے سامنے
آگئی۔بقول اقبال ؎
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر
استصوابِ آئین کے بعد صدر مورسی نے نئے دستور کے تحت پارلیمانی انتخاب کا
اعلان کیا ۔ یہ سب سے اہم مرحلہ تھااس لئے کہ اس کے بعد ہی اقتدار کی باگ
ڈور سابق اہلکاروں اور فوجیوں سے نکل کر عوام کے نمائندوں کے ہاتھوں میں
جانی تھی لیکن پے درپے پرتشدد احتجاج کے سبب انتخابات ملتوی ہوتے رہے اور
وہ نوبت ہی نہیں آئی۔ اس التواء کے عمل میں مظاہرین اور عدلیہ نے سب سے
اہم کردار ادا کیا اور ایک ایسے عوامی توثیق شدہ آئین کے تحت منعقد ہونے
والے انتخاب کو ملتوی کرواتے رہے ۔ حالیہ بغاوت (جس میں صدر مورسی کوبزورِ
قوت معزول کرکےنظر بند کردیا گیا ہے)میں انہیں تینوں طبقات کا کردار نمایاں
ہے۔ مظاہرین نے دباؤ بنایا فوج نے اقتدار پر قبضہ کرکے سابق آمریت کے
اہلکار کو عدلیہ سے لاکر ملک کا کٹھ پتلی سربراہ بنا دیااور سب سے پہلا کام
یہ کیا کہ عوام کے منتخبہ صدر کے ساتھ ساتھ عوام کے توثیق شدہ دستور کو
معطل کردیا اس پر یہ اعلان کہ۲۵ جنوری کو آنے والے انقلاب کی جانب یہ اہم
ترین قدم ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا حسنی مبارک کو اس لئے اقتدار سے ہٹایا گیا
تھا اس کی جگہ اسی کے ایک باجگزار جج کو فوج کٹھ پتلی سربراہ بنا کر قوم پر
مسلط کردے؟
تمرد نامی تحریک جس کے معنیٰ باغی کے ہوتے ہیں اس تبدیلی میں پیش پیش رہی
۔اس کا دعویٰ ہے کہ صدر محمد مورسی کو ہٹا کر نیا انتخاب کروانے کے حق میں
اس کے پاس دوکروڈ دس لاکھ دستخط ہیں جو مورسی کو حاصل ہونے والے ایک کروڈ
تیرا لاکھ ووٹ سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے ۔ اس کے جواب میں جب یہ تجویز آئی کہ
کیوں نہ اس سوال پر استصواب کرا لیا جائے کہ کیا ابھی صدارتی انتخاب ضروری
ہیں تو یہ لوگ خوفزدہ ہوگئے اور استعفیٰ کے مطالبے پر اڑ گئے بصورتِ دیگر
سول نافرمانی پر اتر آئے۔ تاریخ انسانی میں یہ اولین مضحکہ خیزمطالبہ تھا
جہاں دستخط کی بنیاد پر سربراہ ِ مملکت کااستعفیٰ طلب کیا جارہا تھا جبکہ
دستخط تو ایک شخص دن بھر میں سو مرتبہ کرسکتا ہے لیکن ووٹ تو ایک ہی مرتبہ
دے سکتاہے۔ اگر عوام کی اس قدر زبردست حمایت ان باغیوں کو حاصل تھی تو
انہوں نے استصواب کی پیش کش کو کیوں قبول نہیں کیا؟ دو مراحل میں کام ہو
جاتا پہلے میں فوراً انتخاب پر اتفاق ہوجاتا اور دوسرے میں ان کاا پنا
آدمی صدر بن جاتا لیکن کسی نے سچ کہا ہے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اس
لئےاسے منھ کے بل گرنے میں دیر نہیں لگتی۔ بقول شاعر
کتنے پانی میں ہوں میں جان گیا یہ پانی
اک جھجک نے ہی بھرم کھول دیا پانی پر
سوال یہ ہے چور دروازوں سے اقتدار کے مزے لوٹنے کا یہ کھیل آخر کب تک چلے
گا؟ گزشتہ ڈیڑھ سال میں چار مرتبہ مصر کی عوام نے ببانگ دہل اس بات کا
اعلان کیا کہ ان کی اکثریت سیکولر زم کے علمبرداروں کے ساتھ نہیں بلکہ
اسلام پسندوں کے ساتھ ہے اور آئندہ جب بھی انہیں آزادانہ اظہار رائے کی
آزادی ملے گی وہ اسی طرح اسلام کا پرچم بلند کریں گے۔ انقلاب کی راہ میں
اس طرح کے نشیب وفراز آتے رہیں گے لیکن بالآخر فتح انہیں کی ہوگی۔ بقول
حفیظ میرٹھی ؎
ہر انقلاب کی تاریخ یہ بتاتی ہے
وہ منزلوں پہ نہ پایا جو رہگزر میں ملا |