پاکستان میں سزائے موت کے خاتمے کی کوشش ایک عرصے سے جاری
ہے۔بیرونی قوتیں تمام دنیا سے سزائے موت کے قانون کو ختم کرانے کے در پے
ہیں۔سزائے موت کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی 2010 میں 41 کے
مقابلے میں 109 ووٹوں کی اکثریت رائے سے سزائے موت کو معطل کرنے کی قرارداد
کی منظوری دے چکی ہے۔ جس کے لیے بعض ممالک سول سوسائٹی اور این جی اوز
مسلسل تگ و دو کررہے ہیں۔ سزائے موت کے خلاف عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔
پچھلے سال اس عالمی دن کی دسویں سالگرہ کے موقع پر اسلام آباد میں چھ یورپی
ممالک کے وزرائے خارجہ نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں دنیا سے سزائے موت ختم
کرنے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا میں کئی جنگیں ایسی ہیں جو
تنہا نہیں جیتی جاسکتیں، ان میں سے ایک سزائے موت کے خاتمے کی جنگ بھی ہے۔
اسلام آباد میں فرانسیسی سفارت خانے سے جاری کردہ پریس ریلیز میں آسٹریا،
فرانس، جرمنی، اٹلی اور سوئٹزرلینڈ کے وزرائے خارجہ نے سزائے موت کے خلاف
عالمی دن کے موقعے پر کہا تھا کہ یہ دن ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ تمام تر
حالات کے باوجود سزائے موت کے خلاف جدوجہد تیز کردیں۔ ہمیں اس سزا کے خلاف
کوششوں کو ایک آواز اور مربوط کرنا ہوگا تاکہ 21 ویں صدی میں اس کا وجود
باقی نہ رہے۔ اس پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ 20 سال میں 130
ممالک نے اسے ختم کردیا ہے اور 50 سے زائد ممالک سزائے موت پر عمل نہیں
کرتے ہیں۔ تاہم 50 ممالک میں اس سزا پر اب بھی عمل ہورہا ہے۔
سزائے موت کے خاتمے کے سلسلے میں دیگر ممالک کی طرح پاکستان پر بھی عالمی
دباﺅ ہے اور خاص طور پر توہین رسالت پر سزا یافتہ مجرموں نے تو دنیا بھر کے
ممالک، سربراہان اور این جی اوز کی توجہ اور دباﺅ کا رخ پاکستان کی جانب
مبذول کردیا۔ اس سزا کے ختم کرنے کی ایک بڑی وجہ توہین رسالت کی سزا کے
مجرموں کو تحفظ فراہم کرنا ہے، کیونکہ اسلام میں گستاخ رسول کی سزا موت ہے
اس لیے بیرونی قوتیں سزائے موت کے قانون کے ضمن میں توہین رسالت کی سزا کا
خاتمہ بھی چاہتی ہیں۔
2008 میں برسر اقتدار آنے کے بعد پی پی پی حکومت نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی
55 ویں سالگرہ کے موقعے پر سزائے موت عمرقید میں تبدیل کرنے اور قیدیوں کی
سزا میں 90 دن کی تخفیف کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ سزائے
موت کو ختم کرنے کے لیے سمری منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھیجی جائے
گی۔اسلام آباد میں یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کی جانب سے جاری کردہ پریس
ریلیز کے مطابق سزائے موت سے متعلق دنیا کے ممالک کی درجہ بندی کچھ اس طرح
کی گئی تھی۔ پہلی کیٹیگری ان ممالک کی ہے جن میں سزائے موت پر عملدرآمد کیا
جاتا ہے۔ دوسری کیٹیگری ان ممالک کی ہے جہاں سزائے موت تو ہے لیکن اس پر
عمل درآمد نہیں کیا جاتا ہے اور تیسری کیٹیگری ان ممالک کی ہے جہاں سزائے
موت کو یکسر ختم کردیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان پہلی کیٹیگری میں تھا
جہاں سزائے موت پر عمل درآمد کیا جاتا تھا۔ صدر مملکت کی طرف سے ایک
آرڈیننس کے ذریعے سزائے موت پر عمل درآمد روک دینے سے دوسری کیٹگری میں چلا
گیا تھا۔ لیکن 30 جون کو اس کی مدت ختم ہونے سے پھر کیٹیگری ون میں آگیا
ہے۔گزشتہ ماہ تیس تاریخ کو اس پابندی کی مدت ختم ہو چکی ہے۔موجودہ حکومت
پاکستان نے جرائم کی روک تھام اور دن بدن بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات
سے نمٹنے کے لیے ملک میں سزائے موت پر عائد عارضی پابندی ختم کر دی ہے۔
حکومت پاکستان نے سزائے موت پر عائد عارضی پابندی میں توسیع نہ کرنے کا
فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے پاکستانی وزارت داخلہ کے ترجمان
عمر حامد خان نے بتایا کہ موجودہ حکومت اس پابندی میں توسیع کا کوئی ارادہ
نہیں رکھتی۔ ان کے بقول وزیر اعظم نواز شریف کی پالیسی کے تحت سزائے موت
پانے والے تمام مجرمان کو پھانسی دے دی جائے گی سوائے ان کے جنہیں انسانی
بنیادوں پر معاف کیا جا چکا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ ملک کے چند حصوں میں
جرائم سے نمٹنے کے لیے یہ سزا ضروری ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے سزائے
موت پر عائد پابندی میں توسیع نہ کرنے کے فیصلے سے انسانی حقوق کی تنظیمیں
کچھ زیادہ خوش نہیں ہیں۔ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کے مطابق پاکستان کا
شمار ان چند ایک ممالک میں ہوتا ہے جہاں یہ سزا برقرار ہے۔ اس تنظیم کے
بیان کے مطابق یہ پیش رفت اس لیے بھی قابل فکر ہے کیونکہ پاکستان میں سزائے
موت کے حقدار قرار دیے جانے والے قیدیوں کی تعداد آٹھ ہزار کے قریب
ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان میں سزائے موت کی مخالفت کرتی ہیں۔ غیر
سرکاری تنظیم لائیر فار ہیومن رائٹس اور لیگل ایڈ کے سربراہ ضیاءاحمد اعوان
کہتے ہیں کہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے قانون و انصاف کے نظام میں تبدیلی
اشد ضروری ہے۔ ”آپ کو شواہد اکٹھا کرنے کے نظام کو بہتر اور جدید تقاضوں کے
مطابق بنانا ہوگا۔ گواہوں اور ججوں کو تحفظ فراہم کرنے کا نظام متعارف
کروانا ہوگا۔ صرف سزاؤں سے کچھ نہیں ہوگا۔ اگر سزاو ¿ں سے جرائم رکتے تو
جنرل ضیاءکے حدود کے قوانین کے باجود جرم نا صرف رکا نہیں بلکہ اس میں
اضافہ ہوا ہے۔“حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جدید تقاضوں کو مدنظر
رکھتے اور انسانی جان کو اہمیت دیتے ہوئے حکومت کو سزائے موت کے خاتمے کے
لیے پارلیمان کے ذریعے قانون سازی کرنا چاہیے۔ قانونی ماہرین کے مطابق صدر
کے پاس اب بھی اختیار ہے کہ وہ قیدیوں کوسنائی جانے والی سزائے موت پر عمل
درآمد رکوانے کے علاوہ سزاکو عمر قید میں تبدیل اور اس میں تخفیف کرسکتے
ہیں۔ حکومتی اعلان کے بعد ان قیدیوں کی سزائے موت کے احکامات پر عمل درآمد
شروع کردیا گیا ہے جن کی تمام تر اپیلیں مسترد ہوچکی ہیں۔ اس وقت آٹھ ہزار
کے قریب سزائے موت کے قیدی پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید ہیں جن میں سے
سب سے زیادہ تعداد، آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں
ہیں جن کی تعداد چھ ہزار کے قریب ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ملک میں
سزائے موت کے قانون کو ختم کرانے کی کوشش میں ہیں۔
دوسری جانب سیاسی و مذہبی جماعتوں نے سزائے موت کے قانون میں ترمیم کی سخت
مخالفت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، (ق)
لیگ، اے این پی، جمعیت علماءاسلام (ف)، مرکزی جمعیت اہلحدیث، جمعیت
علماءاسلام (س) اور عوامی مسلم لیگ سمیت سیاسی و مذہبی جماعتوں نے سزائے
موت کے قانون میں ترمیم کی سخت مخالفت کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ سزائے
موت کا قانون ختم کرنے سے ملک میں قانون کو ہاتھ میں لینے اور قتل وغارت
میں مزید اضافہ ہو گا اس لیے حکومت ہر صورت سزائے موت کے ملزموں کو سزا دے
اور اگر حکومت نے ترمیم کی کوشش کی تو اس کے خلاف سخت احتجاج کیا جائے گا۔
مذہبی سیاسی جماعتوں نے سزائے موت کے قانون کے خاتمہ کے لیے کسی بھی سطح پر
کوشش کو پوری طاقت سے ناکام بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بعض
جماعتیں اور مغربی امداد پر چلنے والی نام نہاد این جی اور سزائے موت کی
مخالفت کرکے مغرب کو خوش کرنا چاہتی ہیں، موجودہ افراتفری کا تقاضا ہے کہ
مجرموں کے خلاف اسلامی قوانین کے مطابق سزائے موت سمیت تمام سزاﺅں کو یقینی
بنایا جائے۔ اس سے ملک میں قیام امن میں مدد ملے گی۔
واضح رہے کہ دو ہزار بارہ میں دنیا کے 58 ممالک سے 1722 افراد کو سزائے موت
سنائے جانے کے واقعات سامنے آئے جبکہ 2011 میں 63 ممالک میں 1923 افراد کو
سزائے موت دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ ایمنٹسی کا کہنا ہے کہ ان اعداوشمار
میں چین میں دی جانے والی وہ ہزاروں موت کی سزائیں شامل نہیں جن کی تفصیل
تنظیم کے بقول خفیہ رکھی جاتی ہے۔ابھی گزشتہ روز ہی چین میں سابق وزیر
ریلوے کورشوت لینے اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کے الزام میں
10 سال قید اور موت کی سزا سنا دی گئی ہے، جس کے بعد انہیں جیل منتقل کردیا
گیا۔ 2012 میں چین میں سب سے زیادہ سزائے موت دی گئیں جبکہ ایران، عراق،
سعودی عرب اور امریکا سمیت کئی ممالک اس فہرست میں شامل ہیں۔ جن طریقوں سے
یہ سزا دی گئی ان میں پھانسی، سر قلم کیا جانا، فائرنگ سکواڈ کا نشانہ
بنایا جانا اور مہلک انجکشن کے ذریعے موت شامل ہیں۔
واضح رہے کہ سزا کا بنیادی مقصد مجرم کی اصلاح، عبرت عامہ اور متاثرہ شخص
کے جذبہ انتقام کی تسکین ہوتا ہے۔ تاکہ قانون کو ہاتھ میں لینے، اپنا بدلہ
اور انتقام خود لینے کا رجحان پروان نہ چڑھے۔ اگر ہم سزائے موت کے خاتمے کا
معاشرتی نقطہ نظر سے جائزہ لیتے ہوئے ان ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ کریں
جہاں اس کا اطلاق نہیں ہے تو زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ ان ممالک میں
قانون موثر، پولیس مستعد و تربیت یافتہ، جیلیں اصلاح خانہ اور آسائشات سے
مزین ہیں۔ عوام کو سستا، فوری انصاف، معاشی مساوات، احتساب کا بلا تفریق
نظام اور گڈ گورننس موجود ہے جس کی بنا پر وہ جرائم کو کنٹرول کرنے میں بڑی
حد تک کامیاب رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ایسے ایسے جرائم ہوتے ہیں جن
پر عقل حیران ہوجاتی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا
ہے کہ ”قصاص تمہارے لیے زندگی ہے“۔ دنیا میں سزائے موت ختم کرانے اور
پاکستان سے اس پر عمل کرنے کا مطالبہ کرنے والے ممالک اپنے مقاصد کی خاطر
تو دنیا بھر میں قتل عام کرتے ہیں، مگر عدالتوں سے سزائے موت پانے والے
مجرموں کے لیے انسانی وقار کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ |