پنجاب کو بھی اس بار مسلم لیگ ن نے فتح کرلیا ہے اور
محترم شہباز شریف پنجاب میں تیسری مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب بن چکے ہیں اور
مسلسل دوسری مرتبہ اس عہدے کے مالک بن گئے ہیں -
2008 سے لے کر 2013تک پہلے بھی اس کرسی کے مالک رہے ہیں درمیان میںصدر
زرداری نے اپنی طاقت کے زور پر کچھ عرصہ گورنر راج بھی لگا یا لیکن عدالت
نے اسے چند ہفتوں کے بعد میاں شہباز شریف کے دوبارہ اس کرسی پر براجمان
کردیا۔اس الیکشن میں قدرت مسلم لیگ ن پر بہت مہربان رہی وفاق میں میاں محمد
نواز شریف سادہ اکثریت سے حکومت بنا چکے ہیں اور پنجاب کے علاوہ بلوچستان
میں بھی میاں نواز شریف نے قوم پرستوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ہے اور
متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلیٰ بلوچستان بنا
دیا ہے آنے والا وقت بتائے گا کہ ڈاکٹر صاحب کس طرح بلوچستان کی پسماندگی
اور بدامنی دور کیسے کرتے ہیں۔
پنجاب پاکستان کاآبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے۔ یہ اٹک سے لے کر رحیم یار
خان تک پھیلا ہوا ہے۔راولپنڈی سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان سے جا کے ملتا
ہے۔لیکن لگتا ایسے ہے کہ لاہور ہی صرف صوبہ پنجاب ہے۔آخری دور حکومت میں
جتنا ترقیاتی کام لاہور میں ہوئے وہ پورے پنجاب میں نہیں ہوئے اور خصوصاً
جنوبی پنجاب کے بیشتر اضلاع ان ترقیاتی کاموں سے محروم رہے۔یہ اعتراض نہیں
ہے کہ کام ہوئے ہی نہیں ،ہوئے تو ہیں لیکن نہ ہونے کے برابر اور ان کا
تقابل ’اپر پنجاب‘سے نہیں کیا جاسکتا۔ جنوبی پنجاب پسماندگی میں اپنی مثال
آپ ہے۔آخری دور حکومت میں میاں محمد شہباز شریف نے دوران سیلاب ان علاقوں
کے دورے بھی کیے اور غریبوں کی مدد کی ۔اس بار میاں شہباز شریف ضلع راجن
پور کی صوبائی نشست سے ممبر پنجاب اسمبلی میں منتخب ہو چکے ہیں اور انہوں
نے اس احسان کا بدلہ شیر علی خان گورچانی کو ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی منتخب
کر کے چکا دیا ہے لیکن اس ضلع کی عوام میں پھر بھی احساس محرومی برقرار ہے
ہے ان کی امید یہ تھی کہ میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ منتخب ہو کے اس علاقے
کا دورہ کریں گےاور اپنے وعدوں کے مطابق ترقیاتی کاموں کا اعلان کریں گے
اور ان کی پسماندگی اور محرومی کا مداوا کریں گے لیکن اس طرح کچھ نہ ہوا
اور نہ ہونے کی امید ہے۔
جہاں میاں صاحب نے آخری دور حکومت میںاپ پنجاب اور خصوصاً لاہور کو ترقی دی
اگر ان کا نصف حصہ جنوبی پنجاب کے سرائیکی وسیب میں لگاتے تو یہاں کا احساس
محرومی ضرور کچھ کم ہوجاتا۔لاہور میں اتنا فلائی اوورز کی ضرورت نہیں تھی
جتنا جنوبی پنجاب کے دور افتادہ دیہاتوں میں چھوٹی سڑکوں کی ضرورت ہے جہاں
سے غریب کسان کو اپنا مال منڈیوں تک لے جانے میں آسانی پیدا ہوجائے۔جنوبی
پنجاب میں ملتان کے دیہاتوں سے لے کر راجن پور کے دیہاتوں تک سڑکوں کے
علاوہ پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ غربت اور پسماندگی نے یہاں پہلے ہی
ڈیرے ڈالے ہوئے تھے پھرگذشتہ سالوں کے سیلاب نے رہی سہی کثر پوری کردی۔خادم
اعلیٰ صاحب آپ دوران سیلاب تو یہاں بہت بڑے اعلانات کرتے رہے لیکن بعد میں
یہاں کی ترقی یہاں کے مخصوص لوگوں کے حوالے کر کے عوام کے ساتھ وہی مذاق
کیا جو پہلے سے ہوتا آیا تھا۔گزشتہ سیلاب میں سروے کرنے والے ُتواری یا
متعلقہ ملازمیں زمیندار اور وڈیرے کے پاس بیٹھ کر سروے مکمل کر کے چلے جاتے
جس سے جب کوئی حکومتی امداد آئی تو وہ غریب کو نہ ملنے کے برابر مل باقی
زمینداروں کے نرغے میں آئی ۔آپ نے پولیس اور پٹوری سسٹم کو بہتر کرنے کا
عندیہ دیا ہے لیکن یہاں کے پہٹواری اور ٹھانیدار صرف جاگیردار،زمیندار اور
وڈیرے کے ملازم ہیں۔غریبوں کو انصاف کی فراہمی بہت کم میسر ہوتی ہے ۔اگر
تعلیمی نظام کے لئے جنوبی پنجاب کی حالت دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے یہاں
تعلیم صرف امیر کے بچوں کے لئے ہے۔دانش سکول تو قائم کیے لیکن غریب بچے آج
بھی ان سکولز کے باہر کا نظارہ کر کے ٹھنڈی آہوں کے ساتھ چلے جاتے
ہیں۔گورنمنٹ کے جتنے سکولز ہیں سوائے چند ایک کے ان میں کوئی سہولت میسر
نہیں ہے نہ پینے کا پانی ہے نہ بیٹھنے کی جگہ ہے۔ایسے سکولز بھی جنوبی
پنجاب میں موجود ہیں جہاں صرف جانور اور گھوڑے باندھنے کی جگہ بنایا ہوا ہے
کیا کبھی ان گھوسٹ سکولز کی کے بارے بھیکوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
حالیہ دور حکومت میں جہاں یوتھ کی ترقی کے لئے ایک نیا نعرہ عمران خان نے
تخلیق کیا تو وہیں میاں شہباز شریف صاحب بھی جوش مین آگئے اوریوتھ کے لیے
پیلی ٹیکسی،لیپ تاپ،سولر سسٹم اور یوت انٹرنشپ جیسی سکیمیں متعارف کرائیں
لیکن اس میں بھی جنوبی پنجاب کے ساتھ میرٹ نہین کیا گیا لاہور اور اپ پنجاب
مین ان سکیموں کا کوٹہ جنوبی پنجاب کے اضلاع کے نصف سے بھی زیادہ تھا ۔ڈیرہ
ڈویژن میں یوتھ انٹرن شپ پروگرام کے تو صرف بیج اور کارڈ دیے گئے لیکن ابھی
تک وہ بیچارے ا س تین ماہ کی عارضی نوکری کا انتظار کر رہے ہیں ۔اب الیکشن
کے بعد کا معاملہ دیکھ لیں خواتین کی مخصوص نشستوںکی بندر بانٹ کس طرح ہوئی
ہے جنوبی پنجاب میں صرف چند نشستیں ملی ہیں بزیادہ نشستیں لاہور اور گردو
نواح میں بانٹی گئی ہیں۔وفاقی اور صوبائی وزارتوں میں ڈیرہ غازی خان ڈویژن
میں کوئی وزارت نہیں دی گئی ملتان ڈویژن سے بھی صرف چند وزراءشامل کیے گئے
ہیں باقی اکثریت’ اوپر‘ والوں کی ہے۔میاں صاحب اس کے نتیجہ آپ کیا دیکھ رہے
ہیں اس طرح تو نفرتوں میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔بالکل ہمارا ملک صوبے بنانے
کا متحمل نہیں ہے لیکن اس رویہ اور ان پالیسیوں سے جو نتائج برآمد ہون گے
جب آپ کچھ نہیں کر پائیں گے۔ان قوتوں کے ہاتھ مت مضبوط کریں جو ملک کو
لسانیت اور صوبائی فرقہ پرستی کی جانب دھکیل رہی ہیں۔جنوبی پنجاب میں غربت
کی شرح زیادہ ہے دولت اور حقوق کی مساوی تقسیم کو یقینی بنائیں تاکہ مزید
بدامنی اور نفرت کے بیج نہ بوئے جائیں اور ان قوتوں کو موقع نہ ملے جو ملک
کو تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔جنوبی پنجاب کی ترقی سے پنجاب مضبوط ہوگا اور
پاکستان بھی مضبوط ہوگا۔ |