پاکستان کو کمزوراور غیرمستحکم کرنے کا کوئی موقع بھارت
نے کبھی ضائع نہیں کیا مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے بعد اس نے اپنی
توجہ جنگ کی بجائے دریاوں کے پانی پر ڈاکہ ڈال کرڈیم بنانے اور پاکستان کو
ریگستان بنانے کی طرف کرلی ہمارے حکمرانوں کی نا اہلی کی وجہ سے کافی حد تک
کامیاب بھی رہا ۔پاکستان کے قیام کے فوری بعد قائد اعظم کو جو سفارشات پیش
کی گئیں ان میں بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو سر فہرست رکھا گیا تھا لیکن
ان کی وفات سے کئی منصوبوں کے ہمراہ اسے بھی فراموش کردیا گیا۔ایوب خان کے
دور1960 میں ورلڈ بینک کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدہ کروایا گیا
جس کے تحت دریائے راوی،بیاس اور ستلج بھارت کو دے دئیے گئے اور منصوبے کے
مطابق دریائے سندھ پر کالا باغ ڈیم بنانا تھا جسے موخر کرکے تربیلا ڈیم کی
تعمیر شروع کردی گئی جو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں مکمل ہوا تب ہی
کالا باغ ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کے احکامات جاری کر دئیے گئے جس پر تیزی
سے کام شروع ہوا لیکن ضیاالحق نے مارشل لا نافذ کردیا جس نے اس طرف دھیان
نہیں دیا حالانکہ سب سے بہتر پوزیشن میں وہ تھے اگر وہ چاہتے تو با آسانی
اس عظیم منصوبے کو مکمل کرسکتے تھے لیکن انہوں نے سوائے اس کے باقی سب کام
کئے جنہیں آج بھی ساری قو م بھگت رہی ہے ان کے بعد سابق وزیراعظم محمد خان
جونیجو نے چاروں صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جس
نے اس سلسلہ میں اپنی سفارشات میں ڈیم کے بنائے جانے کے حق میں فیصلہ دیا
تھا ان کے بعد شہیدبے نظیر بھٹو کی حکومت میں سندھ اور بلوچستان کی طرف سے
اعتراض آیا کہ پہلے پانی کی تقسیم کا فارمولا طے کیا جائے اسی دوران نواز
شریف کی حکومت بن گئی اور1991میں چاروں صوبائی وزرا ئے اعلیٰ ایک فارمولے
پر متفق ہوگئے جس کی مشترکہ مفادات کونسل نے منظوری دے دی جس سے چاروں
صوبوں کے درمیان اعتماد کی بہترین فضا بن گئی اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے
لئے گرین سگنل مل گیا لیکن پھر بنادیدہ قوتوں نے اس منصوبے کو شروع نہ ہونے
دیا بھارت نے اربوں روپے ہمارے ملک کے کئی سیاسی لیڈروں اورماہرین میں
تقسیم کئے تاکہ یہ عظیم الشان منصوبہ مکمل نہ ہوسکے اسی دوران مشرف حکومت
آگئی جنہوں نے بھی دسمبر 2005 میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو سنجیدگی سے لیا
لیکن سیاسی مصلحتیں آڑے آئیں۔صوبائی اعتراضات کو ملکی مفادات سے بالاتر
سمجھتے ہوئے اس منصوبے کی تکمیل میں روڑے اٹکائے۔صوبہ خیبر پختونخواہ کا
اعتراض ہے کہ صوبے کا بیشتر حصہ پانی کی جھیل کے لئے استعمال ہوگا جبکہ ڈیم
کی انکم دوسرے صوبے کو ملے گی۔ڈیم میں 22 ہزار ایکڑزمین پنجاب،5 سو ایکڑ
خیبر پختونخواہ کی استعمال میں آئے گی جبکہ اعتراض ہے کہ صوابی،نوشہرہ اور
مردان کے علاقے ڈوب جائیں گے لیکن حقیقت میں ڈیم کی اونچائی 915فٹ اور
قریبی شہر نوشہرہ کی اونچائی 1000 فٹ ہے تو اس کے ڈوبنے کا سوال ہی پیدا
نہیں ہوتا۔صوبہ سندھ کا اعتراض ہے کہ دریائے سندھ کا سارا پانی کالا باغ
ڈیم میں روک کر سندھ کو بنجر کردیا جائے گا جبکہ دریا کا پانی مسلسل بہہنے
سے سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے ڈیم بننے سے دس روز میں ڈیم میں پانی کی
مطلوبہ مقدار پوری ہو جائے گی اور پانی اسی طرح سمندر میں جائے گااس کے
علاوہ صوبہ بلوچستان کو بھی کئی اعتراضات ہیں جبکہ ادھر سے نہ تو کوئی دریا
آتا ہے اور نہ کوئی جاتاہے اس طرح کے اعتراضات اٹھا کر اس مسئلے کو متنازعہ
بنادیا گیا۔گزشتہ سال ایک پٹیشن ہائی کورٹ لاہور میں پیش کی گئی جس میں
موقف اختیار کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 9 اور14کے تحت بنیادی حقوق کا تحفظ
بہت ضروری ہے اگر کالا باغ ڈیم نہ بنا تو ملک بنجر ہوجائیگا جس پر عدالت نے
مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی روشنی میں حکومت کو ڈیم بنانے کا حکم صادر
کردیا۔فیصلے کے بعد سیاسی شعبدہ بازی دوبارہ شروع ہوگئی۔اگر بغور جائزہ لیا
جائے تو ڈیم بننے سے سب سے زیادہ فائدہ صوبہ سندھ کو ہوگا جس کی 8 لاکھ
ایکڑ بنجراراضی کاشت کے قابل ہوجائے گی۔پنجاب کی6لاکھ اور پختونخواہ کی
5لاکھ ایکڑ اراضی قابل کاشت ہوگی پورے ملک میں پیداوار دوگنا ہوجائے گی
جبکہ ہر سال سیلاب سے لاکھوں ایکڑ اراضی اور لاکھوں لوگ متاثر ہوتے ہیں
پانی کنٹرولڈ ہونے سے ان تباہ کاریوں سے بھی بچ جائیں گے بجلی کی پیداوار
میں4 ہزار میگا واٹ کا اضافہ ہوگا جس سے بجلی کی قیمت بھی دو تین روپے فی
یونٹ ہوجائے گی ۔ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوگا ،بندانڈسٹری چالو ہوجائے
گی جس سے بیروزگاری پر بھی قابو پایا جاسکے گا غرضیکہ ہم ترقی کی راہ پر چل
سکیں گے۔گزشتہ روز سوشل میڈیا پر عبدالحکیم کے رہائشی لیاقت صاحب نے کالا
باغ ڈیم کے بنانے یا نہ بنائے جانے کے حوالے سے رائے مانگی تو سینکڑوں
لوگوں نے کالا باغ بنائے جانے کی رائے دی جبکہ مخالفت میں صرف 26 نے رائے
دی۔ میں تمام پاکستانیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس منصوبے کی مخالفت چھوڑ کر
اس کی تعمیر کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں یہ منصوبہ ہماری آئندہ نسلوں
کی بقا ،ملکی معیشت کی بحالی اور قوم کی خود مختاری کے لئے سنگ میل کی
حیثیت رکھتا ہے یہ منصوبہ کسی صوبے کیلئے نقصان اور فائدے کا منصوبہ نہیں
بلکہ پاکستان کی بقا کا منصوبہ ہے۔ حکومت کو بھی عدالت کے حکم پر عملدرآمد
کرتے ہوئے اس کی تعمیر فوری شروع کروادینی چاہیے ۔ |