کیا کانگریس ہارنا چاہتی ہے؟

اگلے سال ہونے والے انتخابات کی آمد آمد ہے ملک کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں خود کو اس کے لئے تیار ضرور کررہی ہیں لیکن سیاسی جماعتوں میں وہ سرگرمی مفقود ہے جوکہ ہونی چاہئے تھی بلکہ بی جے پی یا کانگریس اپنے موقف کو مضبوط کرنے کی جگہ کمزور کرتی نظر آرہی ہیں۔ بی جے پی نے آر ایس ایس کے دباؤ میں مودی کو بظاہر اپنی انتخابی مہم کا سربراہ بتایا ہے لیکن یہ دراصل وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لئے مودی کی امیدواری کا باالراست اعلان ہی ہے۔ مودی اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہیں۔ ہم کانگریس کے موقف پر گفتگو کریں گے تاہم مودی کے تعلق سے یہ ضرورکہیں گے کہ مودی کا ہندوتوا اور مودی سے ہی وابستہ گجرات 2002ء کی شرم ناک یادیں مودی کو اعتدال پسندی اور سیکولر غیر مسلم ووٹرس بی جے پی سے دوری اختیار کرسکتے ہیں کیونکہ کانگریس کی نااہلی، کرپشن اور اس کے دور میں مہنگائی میں بے پنا اضافہ کے سبب لوگ بی جے پی کی طرف مائل ہوسکتے تھے لیکن بی جے پی کے کرناٹک میں کالے کرتوت، ترقی کے جھوٹے دعوے، حلیفوں کی این ڈی اے سے علاحدگی اور مودی کو آگے رکھنے کا اقدام بی جے پی کو کانگریس کا متبادل نہیں بناسکیں گے۔

دوسری طرف کانگریس اس حقیقت کے باوجود کہ فی الحال اس کا کوئی متبادل نہیں ہے اپنی کامیابی کے یقینی ہونے کی بات اعتماد سے نہیں کہہ سکتی ہے کیونکہ کانگریس یکے بعد دیگرے ایسے اقدامات کررہی ہے جس سے اس کو خاصہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایک ایسے وقت جبکہ کئی ریاستوں میں کانگریس کا کوئی متبادل نہیں ہے کانگریس کے اقدامات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے خود کانگریس کو دوبارہ برسراقتدار آنے سے دلچسپی بہت کم ہے کانگریس کے تعلق سے یہ بات عام ہے کہ 2004ء سے 2013ء کے 9سال کے عرصے میں مہنگائی میں جس قدر اضافہ ہوا، معاشی حالات جس قدر بگڑے اور کرپشن کا زور جس قدر بڑھا ہے ایسا شائد ہی کبھی ہوا ہو۔ ایسی منفی شہرت کی حامل جماعت کا دوبارہ برسراقتدار آنا بظٓہر مشکل ہے یہ ایک ایسی صورت حال ہے کہ ملک گیر سطح پر کانگریس کا مدمقابل گوکہ نہیں ہے تاہم علاقائی جماعتیں کانگریس کو لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کرسکتی ہیں اس وقت کانگریس کے لئے بی جے پی سے بڑا خطرہ علاقائی جماعتیں ہیں جن میں ٹامل ناڈو، اڑیسہ آسام، مغربی بنگال، بہار، یوپی، ہریانہ، پنجاب، جموں و کشمیر، کرناٹک، کیرالا اور آندھراپردیش میں مختلف علاقائی پارٹیاں خم ٹھونک کر کانگریس اور بی جے پی کو چیالنج دے سکتی ہیں۔ پنجاب میں اکالی دل اور مہاراشٹرا میں شیوسینا بی جے پی کے ساتھ ہیں دوسری جا کانگریس کی حلیف جماعتیں نہ صرف زیادہ ہیں بلکہ ان کا موقف بھی بہتر ہے لیکن یو پی، آندھراپردیش بہار اور مغربی بنگال میں کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی کو چیالنج دینے والی جماعتیں ہیں۔

کانگریس کا یہ اطمینان اس کے لئے شدید نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے کہ بی جے پی کا کمزور موقف دیکھتے ہوئے اور کسی متبادل کے نہ ہونے کی صورت لوگ (خاص طور پر مسلمان) کانگریس کو ووٹ دینے پر مجبور ہیں اور چند ہفتے قبل کرناٹک میں بی جے پی کے خلاف اس کی کامیابی نے کانگریس کے حوصلے بڑھادئیے ہیں لیکن کانگریس نے یہ زمینی حقیقت بھلا دی ۔ بی جے پی کے کرپشن اور دیوے گوڑا کی موقع پرستی اور خود غرضی کی سیاست کی وجہ سے کانگریس کو ایک اور موقع کرناٹک کے عوام نے بہ حالت مجبوری دے دیا لیکن سارا ملک تو نہ تو کرناٹک ہے ۔اس لئے کرناٹک کے حوالے سے کانگریس کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے۔

مہنگائی، افراط زر اور چند دیگر مسائل کا سامنا دنیا بھر میں بیشتر ممالک کررہے ہیں لیکن ہندوستان میں یہ مسئلہ مختلف ہے یوں تو ہندوستان اور پاکستان میں تمام جمہوری حکومتوں نے ہندوستان کی آزادی سے قبل چرچل (سابق وزیر اعظم برطانیہ) کے کہے ہوئے ان الفاظ کو سچ کردیا ہے کہ ہندوستان (غیر منقسم)کے سیاستداں عوام کی زندگیاں تنگ کرنے کے لئے ہوا اور پانی پر تک ٹیکس لگاکر خود عیش کریں گے لیکن اس معاملے میں ہندوستان میں سونیا گاندھی کی کانگریس سے سب سے آگے ہے کیونکہ ہر ہندوستانی حکومت خواہ وہ کانگریس کی ہو یا غیر کانگریسی نام نہاد ترقی اور فلاحی کاموں کے لئے جو کثیر رقومات خرچ کرتی ہے وہ اسے طرہ امتیاز قرار دیتی ہیں اور اس میں وہ کمی کے لئے ہرگز نہیں ہوتی ہے (یہ اور بات ہے کہ کسی بھی ترقیاتی پروجیکٹ کے لئے مختص کردہ بھاری رقم کا بڑا حصہ کرپشن کی نظر ہوتا ہے یا غیرضروری اخراجات پر ضائع ہی ہوتا ہے تب ہی کوئی پروجیکٹ شائد ہی وقت پر مکمل ہوتا ہے۔ ملک میں گرانی کا بڑا سبب بھاری ٹیکس ہیں مثلاً پٹرول کی قیمت میں بین الاقوامی مارکٹ میں جو اضافہ ہوتا ہے وہ اتنا نہیں ہوتا جتنا کہ پٹرول و ڈیزل وغیرہ پر عائد کردہ ریاستی اور مرکزی حکومت کے ٹیکس اور ڈیوٹی کی وجہ سے ہوتا ہے اگر حکومت بلکہ حکومتیں اپنا ٹیکس ڈیوٹی اور سرچارج کم کریں تو پٹرول اور ڈیزل کے صارفین کو فائدہ تو خیر ہوگا ہی ساتھ ہی اس کے اثرات کی وجہ سے بڑھنے والی بالراست گرانی بھی اتنی نہ ہوگی لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی ہے اس کا یہی ادعا ہوتا کہ مہنگائی روکنے کی خاطر ترقی کے کام قربان نہیں کئے جاسکتے ہیں۔ وزیر اعظم کے معاشی امور میں مشیر اور بلکہ شہر خاص اور منصوبہ بندی کمیشن کے صدر اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے پاس ملک کی ترقی سے زیادہ اپنے دفاتر کی عمارات، اپنی کاروں کی شان شوکت میں اور ان کو دی گئیں سہولتوں میں کمی اور کفایت کا خیال نہیں آتا ہے ۔ افسر شاہی شاید اس کو بھی ملک کی ترقی کااظہار سمجھتی ہے ۔ موٹیک اہلوالیہ کے دفتر کے حمام اور بیت الخلاء کی تعمیر نو اور تزئین پر لاکھوں خرچ کئے گئے (موصوف عوام کو ہمیشہ ترقی کی خاطر حکومت کے سخت فیصلوں کو قبول کرنے کی صلاح دیتے ہیں) ملک کے صدر وزیر اعظم وزرا اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کی بھاری تنخواہیں، بھتے اور مراعات کی بات تو دور رہی ان کے بیرونی دوروں کے شاہانہ اخراجات کی مجموعی رقم سے مالیہ کی کمی کے باعث تکمیل نہ پانے والے چھوٹے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل ہوسکتی ہے ۔ کرپشن کو روکنے کی تدابیر اور بددیانت افسران کو سخت سے سخت سزائیں دینے سے زیادہ توجہ بددیانت افسران اور وزرا کو بچانے پر دی جاتی ہے۔ ایک عام ہاکر یا ٹھیلے والا سڑک اور فٹ پاتھ پر کاروبار کرنے کے لئے پولیس اور بلدیہ کے کارکنوں کو بھاری بھتہ ہر دن یا ہر ہفتے دینے کے باوجود مہینہ دو مہینے میں ایک بار قانون شکنی کے جرم میں (باقاعدہ رشوت یا نذرانہ یا ہفتہ یا بھتہ سرکاری عملے کو دینے کے باوجود بھاری نقصان اٹھاتا ہے جرمانہ بھرتا ہے اس کا سامان ضبط کرلیا جاتا ہے لیکن بہت ہی اہم شخصیات کے اقارب و احباب سرکاری طور پر کروڑوں کی بیش قیمت اراضی کوڑیوں کے مول خریدتے ہیں ان میں سونیا گاندھی (جن کو عملاً ملکہ ہند کہا جاسکتا ہے) کے داماد رابرٹ واڈرا بھی شامل ہیں ممکنہ ذرائع سے زیادہ دولت واثاثوں کا مالک ہونے کے جرم میں سابق وزیر اعلیٰ آندھراپردیش آنجہانی وائی چندر شیکھر ریڈی کے فرزند جگن ریڈی نہ صرف مقدمہ بازی جھیل رہے ہیں بلکہ ایک سال سے جیل میں ہیں۔ کانگریس کا سارا سوشلزم غالباً پنڈت جواہر لال نہرو کی حدتک محدود تھا۔ اب تو کانگریسی حلقوں میں تو اب سوشلزم کا کوئی ذکر تک نہیں آتا ہے۔ ہاں ایسا لگتا ہے کہ اب ہم نے سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ داروں کی بالادستی کو قبول کرلیا ہے۔ عام زندگی میں سرمایہ دارانہ نظام کا اثر یوں دیکھا جاسکتا ہے کہ تجارت اور صنعت کی بات تو دور ہی زندگی کے ہر شعبہ کو تجارت بنادیا گیا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ تعلیم و صحت کو بھی تجارت تجارت اور نفع خوری کا ذریعہ بنالیا گیا۔ کسی بھی چیز یا خدمت Service کے لئے جس کے جتنا بھی دل میں آئے معاوضہ طلب کرسکتا ہے۔ لگتا ہے کہ قیمتوں کے تعین پر مرکزی یا ریاستی حکومتوں کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ منافع خوروں کو آزادی ہے کہ وہ جو چاہیں کریں۔ اسی لئے بڑے شہروں میں ٹماٹر 60روپے تک فروخت ہوسکتا ہے لیکن کسان یا پھل اور سبزیاں پیدا کرنے والے کو اپنی پیداوار کی قیمت کم سے کم ملی ہے اور خریدار یا صارف کو کئی گنا زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے۔ زیادہ فائدہ درمیانی آدمی کو ہوتا ہے اور درمیانی آدمی پر نہ کوئی پابندی ہے اور نہ ہی کنٹرول!

بجلی اور پانی کی قیمتوں میں مسلسل اندھا دھند اضافہ ہورہا ہے لیکن خدمت کا معیار بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے بجلی کی فراہمی پابندی سے نہیں ہوتی ہے۔ پانی ضرورت کے مطابق فراہم نہیں کیا جاتا ہے اور جو پانی فراہم کیا جاتا ہے وہ بعض جگہ صاف و ستھرا نہیں ہوتا ہے۔ حکومت کی نااہلی کے باعث عوام بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔ خطرناک یا جان لیوا بیماریوں کا علاج بڑے سے بڑے شہر کے سرکاری دواخانوں میں نہیں ہوسکتا ہے کارپوریٹ دواخانے کا خرچ عام آدمی اٹھا نہیں سکتا ہے۔ یہی حال تعلیم کا ہے سرکاری اسکولوں کی تعلیم وماحول غیر معیاری اور خانگی اسکولوں کی فیس غریب برداشت نہیں کرسکتا ہے۔

یہ نہیں ہے کہ یہ ساری خرابیاں یو پی اے دور کی پیداوار ہیں جو خرابیاں پہلے سے چلی آرہی ہیں ان کو روکنے یا کم کرنے کی یو پی اے حکومت نے کوئی کوشش نہیں کی بلکہ یو پی اے دور میں نت نئی خرابیاں وجود میں آئیں۔ جن کرپشن میں بے پنا اضافہ اور مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ یو پی اے دور کی خصوصیات ہیں۔

ہندوستانی روپیہ کی قیمت وقدر میں کمی نے ملک کی معیشت کی جڑوں پر کاری ضرب لگاتی ہے۔ اس کی وجہ برامدات اور درآمدات میں کوئی توازن ہی نہیں ہے۔ ایشیاء ہی نہیں بلکہ دنیا میں مضبوط معاشی طاقت یا دیوEconomical Giant بن کر ابھرنے کا دعویٰ کرنے والے ملک کے سکہ کی قدر کو برقرار رکھنے میں ہی ناکام رہے اور اپنی مارکٹ چین کے حوالے کردی ۔آج ملک میں چین کی بنی ہوئی عام اشیاء (بال پین ، بیٹریاں کھلونے اور الکٹرانک اشیاء )ملک میں بنی ہوئی اشیاء سے سستی ہیں! امریکہ کے حکم پر ایران سے گیس خریدنے اور پائپ لائن کا معاہدہ منسوخ کردیا گیا۔ ملک کو درکار توانائی کی ضرورت کا مسئلہ جوں کا توں رہا اور ہم آئے دن بڑھتی ہوئی قیمتوں پر پٹرول خریدنے پر مجبور ہیں۔ تجارت کا توازن اس وجہ سے بھی بگڑا ہواہے۔

بی جے پی کی حالت جیسی بھی ہو وہ حکومت کو اس کی ناہلی، ناکامی اور بداعمالی کی وجہ سے چیالنج کرسکتی ہے گوکہ مودی کو آگے بڑھانے کی وجہ سے وہ کانگریس کا متبادل نہ بن سکے تو علاقائی جماعتیں کانگریس کا متبادل کئی ریاستوں میں بن سکتی ہیں۔ خاص طور پر ملک کی بڑی ریاستوں (یو پی ، بہار، آندھراپردیش، مغربی بنگال ) اور دیگر ریاستوں میں کانگریس اور بی جے پی دونوں کو شدید مایوسیوں سے دوچار کرسکتی ہیں۔ بی جے پی کو توہارنا ہی ہے لیکن کیا کانگریس بھی ہارنا چاہتی ہے؟

Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 185024 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.