مالاکنڈڈویژن آپریشن اور خواتین
(Shahid Abbasi, Islamabad)
مالاکنڈ میں جاری فوجی آپریشن بغیر کسی رکاوٹ کے ہنوز جاری ہے اس دوران متعدد
بار حکومت اور فوج کی جانب سے اس کے خاتمے کے لئے ڈیڈ لائن دی گئی لیکن وہ محض
اعلانات کی حد تک ہی ثابت ہوئی ہے۔اب تک آپریشن کے نتیجے میں رونما ہونے والی نقل
مکانی کو گزشتہ ١٥ سالوں میں دنیا کی سب سے بڑی اندرون ملک نقل مکانی قرار دیا جا
رہا ہے۔جس سے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچے بھی متاثر ہوئے ہیں گزشتہ مضمون
میں ہم نے بونیر سے کراچی آنے والے دو بھائیوں کا انٹریو قارئین ہماری ویب سے شئیر
کیا تھا ۔اپنے اسی دورہ کراچی کے دوران ہماری متعدد متاثرین سے ملاقات رہی جن میں
خواتین ،بچے،بزرگ سبھی شامل تھے آج کی تحریر میں ایسی ہی ایک ملاقات کا احوال پیش
خدمت ہے جو متاثرہ علاقوں سے کراچی پہنچنے والی ایک جواں سال خاتون سے ہوئی تھی۔نقل
مکانی کا شکار ہونے سے محض دو ماہ قبل شادی کے بندھن میں بندھنے والی شازیہ پر اس
قیامت سے کیا گزری یہ تو یقینا وہ خود یا اللہ رب العزت ہی بہتر جانتے ہوں گے۔تا ہم
اس کی گفتگو سے جو کچھ اخزکیا جا سکا وہ قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔
شازیہ ایک نوجوان خاتون ہیں جو اپنی آنےوالی زندگی کے لئے حسین سپنے سجائے مستقبل
کی خاطر طرح طرح کی منصوبہ بنیاں کئے دو ماہ قبل ہی بابل کے آنگن سے پیا دیس
سدھاریں تھیں۔یقینا انہیں دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ رخصتی کے موقع پر ہر ماں کی طرح
ان کی ماں نے بھی انہی یہی نصیحت کی تھی کہ جس گھر میں جا رہی ہو اسے اپنا سمجھنا
اور کوشش کرنا کہ تمہاری وجہ سے کہیں کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو گھر کے اتحاد اور
اس کےمکینوں کی قربت کوعلیحدگی یا فاصلوں میں نہ بدل دے۔ماں کی اس نصیحت کو پلو سے
باندھے بونیر کے ایک گھر سے دوسرے میں منتقل ہونے والی شازیہ کی شادی کو ابھی دو
ماہ ہی ہوئے تھے کہ اس کی زندگی میں ایک ایسا لمحہ آپہنچا جس سےنہ صرف اس کا گھر
تقسیم ہوا بلکہ گھر کے مکین بھی منقسم ہونے پر مجبور کر دئے گئے۔لیکن اس تقسیم اور
علیحدگی میں شازیہ کا کئی کردار نہ تھا بلکہ وہ بھی باوی ایل خانہ کی طرح اس تقسیم
کے عمل سے متاثر ہوئی بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گاکہ وہی سب سے ذیادہ متاثر ہوئی۔ایک
ایسی نئی نویلیی دلہن جس کے ہاتھوں سے شادی کا حنائی رنگ بھی ابھی مکمل طور پر ختم
نہ ہوا اپنے پیا دیس سے ہہزاروں میل دور جبری ہجرت پر مجبور کر دی گئی۔
شازیہ کی اس ہجرت کا ذمہ دار کون ہے؟وہ کون سے حالات تھے جن میں اسے یہ ناگوار قدم
اٹھانا پڑا؟
فی الوقت اس کے جذبات اور احساسات کیا ہیں؟
بھانت بھانت کی ک بولیوں اور دانشوارانہ قبض کی موجودگی میں متاثرہ خاتون ہونے کے
ناطے اس کا کیا موقف ہے؟
موجودہ صورتحال میں وہ کیا حل سوچتی ہے؟
اس کے زخموں کا مداوا کون کرے گا؟
یہ تمام یا شاید اکثر سوال ایسے ہیں کہ جن کا درست جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا
لیکن شازیہ کا کہنا ہے کہ شادی کے بعد جب وہ سسرال منتقل ہوئی تو گائوں کے بہت سارے
دیگر نوجوانوں کی طرح ان کے شوہر بھی رزق کے حصول کی خاطر کراچی چلےآئے۔ان کا خیال
تھا کہ کراچی جا کر وہ کوئی نہ کوئی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے چونکہ
شازیہ کے سسر پہلے سے کراچی میں رہائش پزیر تھے اس لئے ان کے شوہر نے بھی وہیں کا
قصد کیا۔شوہر کے انتقا کے بعد اگر چہ وہ رہ تو سسرال میں ہی رہی تھیں لیکن ان کا
ذیادہ وقت اپنے گائوں اور اردگرد موجود دیگر دیہاتوں میں موجود خؤاتین اور بچوں کی
خدمت کرتے ہی گزرتا تھا کیونکہ ایک لیڈی ہیلتھ ورکر ہونے کے ناطے وہ محکمہ صحت سرحد
سے وابستہ تھیں اور یہ معمول جو شادی سے قبل جاری تھا شادی کے بعد بھی باہمی
رضامندی کے ساتھ جاری رکھنا مناسب سمجھا گیا تھا۔اس کے اس معمول کو دیکھ کر گائوں
کی بزرگ خؤاتین کہتیں بیٹی کچھ وقت اپنے لئے بھی چھوڑ اکرو۔تم ہر وقت دوسروں کی
خدمت میں ہی مصروف رہتی ہو لیکن یہ سن کر وہ دھیرے سے مسکرا دیتی اوراور اپنا کام
جاری رکھتی۔شازیہ نے بتایئا کہ زندگی یونہی لگے بندھے انداز میںجاری تھی کہ اچانک
کچھ مسلح افرد کے بونیر آنے کی اطلاع ملی۔جنہوں نے اپنی +،د کا مقص دیہ بتایا کہ وہ
یہاں اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں تا کہ معاشرے سے ظلم اور ناانصافی کا خآتمہ کیا جا
سکے۔یہ سن کر بہت سارے مقاقی افراد نے بھی ان کا ساتھ دینے کی کوشش کی۔مگر گزرتے
وقت کے ساتھ سامنےآنے والی چیزوں نے ان کے عزائم واضح کر دئے جو اسلام کے نفاذ کے
سوا کچھ اور ہی تھے۔ان کی حرکتوں سے یہ بات واضھ ہو گئی کہ طالبان کے بھیس میں یہاں
آنے والوں کا مقصد کوئی اور ہے۔اور افغانستان میں امریکی و دیگر صلیبی افواج سے
مقابلہ کرنے ولاے جن طالبان کی رودادیں انہوں نے سن رکھی تھیں انہیں ان سے دور کا
بھی کوئی تعلق نہیں۔ان کی آمد کی وجہ سے فضائ میں ایک تنائو اور خؤف کی کیفیت موجود
تو تھی ہی لیکن جب فوج کی آمد کا پتہ چلا تو ہر ایک مزید پریشان ہوگیا کہ اب دیکھیں
کیا ہوتا ہے۔وہ معمول کے مطابق پڑوس کے ایک گائوں کے دورے پر تھیں جہاں چند روز قبل
پیدا ہونے والے ایک بچے اور اس کی ماں کا چیک اپ کرناتھا وہاں سے گائوں واپسی پر
اسے لگا کہ آج شاید کوئی انہونی ہو گئی ہے اسی لئے ہر چہرہ خوفزدہ ہے جب وہ گھر
پہنچی تو اسے بتایا گیا کہ اب فوج یہاں آرہی ہے کل سے تم اپنے وزٹ ختم کر دو یہ سن
کر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ مجبور ہو گئی کہ گھر والوں کی بات مان لے۔ماضی قریب میں
سوتا آپریشن کے دوران سنائی دینے ولاے واقعات ایک بار پھر کانوں میں گونجنے لگے،بچے
پریشان ہو گئے،خواتین بھی سہم گئیں اور مردوں کے چہروں پر پھیلے تفکرات کے سائے بھی
معاملے کی گمبھیرتا کو واضح کرنے لگے۔اور پھر اچانک ہی وہ سب کچھ بونیر میں دہرا
دیا گیا جو سوات میں ہو چک اتھا۔یہاں کے آسمان پر بھی یکا یک جنگی جہاز اور ہیلی
کاپٹر امنڈ کر آتے اور خؤفناک آوزوں کے ساتھ فائرنگ کرتے اور بم گراتے چشم زدن میں
اسھر سے ادھر چلے جاتے۔
گولیوں اور بموں کی ان آوزاوں اور ان کے ممکنہ نقصان کا سن کر ہر ایک پریشان ہوتا
ہی لیکن ہمارے لئے اور بچؤں کے لئے یہ ذیادہ مشکل اس لئے تھا کہ ہم ان سے بھاگ کر
کہاں جائیں۔خوفناک آوازوں سے لگتا کہ ابھی کانوں کے پردے پھڑ جائیں گے۔بچے بھاگ کو
کونوں کھدروں میں یا مائوںکی گودوں میں گھس جاتے اور جو بہت ذیادہ چھوٹے ہوتے انہیں
خؤاتین خود چھپانے کی کوشش کریں مبدا کہیں وہ ڈر نہ جائیں۔یہ کیفیت گزرتے وقت کے
ساتھ مستقل ہوتی چلی گئی باہر آنا جانا بند ہو گیا بازارسامان نہ ہونے کی وجہ سے
ویران ہو گئے مسلسل کرفیو کی وجہ سے اشیائے ضروریہ کی قلت نے بھی تنگ کر دیا تھا۔ان
حالات میں مجبورا گھر والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہاں سے نکلا جائے۔اس دوران میرے
میکے سے امی ابو اورباقی گھر والے مردان منتقل ہو گئے جہاں ہمارے کچھ عزیز رہتے
تھے۔پہلے ہمارا پروگرام بھی وہیں جانے کا تھا لیکن پھر کیمپوں کی کہانیاں سن کر اور
وہاں کے مسائل سے واقفیت ہونے کے بعد گھر کے مردوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بچوں اور
خواتین کو بیماریوں کا شکار کرنے سے بہتر ہے کہکراچی جایا جائے جہاںمیرے شوہر اور
سسرپہے سے موجود تھے اب مسئلہ یہ تھا کہ ان بچؤں اور دیگر خؤاتین کے ساتھ کون
جائے۔میڈیکل سے واقفیت اور پڑھا لکھا ہونے کی وجہ سے یہ قرعہ بھی میرے نام ہی
نکلا۔اور یوں ہم کرایچ کی جانب روانہ ہوئے۔ہمارے ساتھ گھر کی چار خؤاتین اور سات
بچے تھے ۔گائوں سے نکلنے کے بعد ایک طویل سفر جو پہاڑی راستے پر مشتمل تھا اس لئے
پیدل کرنا پڑا کہ کرفیو کی وجہ سے سڑک پر ٹریفک بند ہو چکی تھی۔تقریبا ٤٠ کلومیٹر
سے زائد چلنے کے بعد ایک جگہ گاڑی دستیاب ہوئی جو پہلے تو ہمیں لے جانے پر تیار ہی
نہ ہو بہر حال معمول کے کرائے سے ٥گنا زئد کلے کر وہ اس بات پر تیار ہوا کہ ہمیں
مردان تک چھور دے گا۔جہاں سے کرایچ کے لئے بذریعہ بس سفر کا آگاز کیاگیا۔راستے میں
حلات اتنی بری تھی کہ گاڑی میں خؤاتین کے حمل تک ضائع ہوئے۔صفائی یننہ ہونے اور
دیگر سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے بچوں اور خؤاتین کی اکثریت ہیضہ اور دیگر
وبائی امراض سے متاثر ہو رہی تھی۔ان حالات میں بڑی مشکل سے کراچی پہنچے ۔یہاں ہنچتے
ہیں دونوں چچیاں ماحول اور موسم کی تبدیلی کے ساتھ ستاھ راستے کی خرابیوں کی وجہ سے
ہیضے میں مبتلا ہو کر ہسپتال میں داخل کروا دی گئیں۔جب کہ بچؤں کی حالت بھی بہت بری
ہو گئی ہے۔ان حالات میں یوں لگت اہے کہ اب زندگی کا شاید یہی مصرف رہ گیا ہے کہ کسی
بھی قیمت پر زندہ رہنے کی کوشش کی جائے۔
کراچی آنے کے بعد سے ہی جگہ کی قلت کے باعث ایک ایک کمرے کے مکان میں ١٥ اور٢٠لوگ
رہائش پزیر ہیں بعض جگہوں پر تو ابتدا میں تین ،تین خاندان ایک ساتھ رہے۔اب بس یہی
خیال آتا ہے کہ اللہ کرے جلد حآلات بہتر ہوں اور ہم واپس اپنے گائوں لوٹ سکیں جہاں
شہروں جیسی سہولیات تو نہیں لیکن لوگوں کے دلوں میں کم از کم ایک دوسرے کے لئے اتنی
نفرتیں نہیں جو انہیں مقام انسانیت سے ہی گرا دیں۔کراچی آنے کے بعد اخباارات دیکھ
کر پتہ چلا کہ کچھ لسانی اور قوم پرست جماعتیں ہمارے یہاں آنے سے خؤش نہیں بس ان سے
صرف اتنا ہی کہنا چاہوں گی کہ ڈرو اس وقت سے جب یہ حالات اللہ نہ کرے تمہارے اوپر
بھی آئیں اور پھر تم تو چاہو لیکن یہ زمین تمہیں پناہ دینے پر تیار نہ ہو۔تا ہم عام
افراد کا جذبہ اخوت دیکھ رک ایک ڈھارس بندھتی ہے کہ چلو کہیں سہی لیکن انسانیت اب
بھی موجود ہے۔
شازیہ نے بتایا کہ وہ پہلی فرصت میں حالات صحیح ہوتے ہیں گائوں واپس جانا چاہتی ہیں
جہاں ان کا بچپن گزرا جس زمین کے ایک ایک ذرے سے ان کی انتہائی خوبصورت یادیں
وابستہ ہیں۔لیکن نہ جانے کب ہماری قسمت سے کھیلنے والوں کو ہمارے حال پر رحم
آئے۔شازیہ کی یہ بات بالکل بجا ہے اور ہمیں یہ دعوت فکر دیتی ہے کہ کیا سوات ،بونیر
اور دیر میں جاری آپریشن مسئلے کا حل ہے یا آگے چل کر اس سے ایک نیا مسئلہ پیدا
ہونے کو ہے؟ |