غلاموں کے ہاتھ کھلے کب ہوتے ہےں؟

غلاموں کے ہاتھ کھلے کب ہوتے ہیں؟
امریکی خصوصی نمائندے برائے پاکستان و افغانستان اور پاکستان کے ”وائسرائے“ رچرڈ ہالبروک کی پاکستان آمد، صدر زرداری سے ملاقات اور مذاکرات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی گئی جس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ اس پریس کانفرنس میں صدر زرداری بھی موجود تھے اور اللہ ان کو نظر بد سے بچائے، وہ اپنے دونوں ہاتھ باندھے ہوئے ہالبروک کو اتنے پیارے لگ رہے تھے کہ اس نے یقیناً پریس کانفرنس کے بعد صدر زرداری کو نظر سے بچانے کے لئے 10/12 کالے بکرے تو قربان کر ہی دیئے ہوں گے۔ دنیا کی تاریخ کھنگالیں تو ایسی بہت سی مثالیں سامنے آتی ہیں کہ شاہ کے وفادار غلاموں سے شاہ کو بہت پیار ہوتا ہے اور غلام کی وفاداری، تابعداری اور احکامات کو بلا چون و چراں تسلیم کرلینے کی وجہ سے وہ شاہ کاچہیتا اور منظور نظر بن جاتا ہے، کچھ مثالیں تو خواجہ سراﺅں کی بھی ہیں کہ وہ کیسے شہزادوں کی زندگی میں اہمیت رکھتے تھے اور اپنی ”دل موہ لینے والی اداﺅں“سے کس طرح شہزادوں کو اپنا گرویدہ بنائے رکھتے تھے۔ اب بھلا صدر زرداری کی اس ”ادائے دلربانہ“ کے خلاف کوئی احتجاج کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ، طنز کے تیر چلانے والوں کو یہ تو خیال رکھنا چاہئے کہ صدر زرداری آخر ان کے ”پیارے“ بھی ہےں اور ”جیالے“ بھی، اور کوئی امریکی عہدےدار چاہے وہ کتنا بھی ادنیٰ عہدہ رکھتا ہو وہ حکومت اور بالخصوص صدر صاحب کے لئے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، جس کے کسی حکم کے سامنے چوں چراں نہیں کیا جاسکتا، سوال نہں پوچھا جا سکتا، اور تو اور صدر زرداری ان کے ممنون احسان بھی تو ہیں، امریکہ بہادر کی وجہ سے ہی انہیں ”این آر او“ کا بے مثال اور ”بے نظیر“ تحفہ ملا ہے، امریکہ کا احسان ہے ان پر اور تنقید کرنے والوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صدر زرداری کسی کا احسان نہیں رکھتے اس کو چکانا جانتے ہیں ،چاہے وہ امریکہ ہو یا پرویز مشرف!قوم سجدہ شکر بجا لائے کہ نہ تو صدر زرداری کوئی ”خواجہ سرا“ ہیں اور نہ ہی رچرڈ ہالبروک ”مغلیہ شہزادے“ ورنہ قوم کا ”درد“ رکھنے والے خواہ مخواہ ”غلام اور آقا“ کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ جاتے اور زرداری صاحب کو مزید القابات سے نوازتے.... کیونکہ احسان اتارنا تو انہیں آتا ہے....! یا اللہ تیرا شکر ہے........!
ویسے ہماری دوسری بڑی سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین بھی تو امریکہ کی غلامی میں کسی سے پیچھے نہیں، اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ رچرڈ ہالبروک ہی ایسی خبروں کو ”لیک“ کرتے نظر آتے ہیں جن کا علم بڑے بڑے سیاسی رہنماﺅں کو بھی نہیں ہوتا، رچرڈ ہالبروک ہی ”فرماتے“ ہیں کہ ”17ویں ترمیم کے خاتمے پر مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی میں اتفاق ہوچکا ہے“ اب تنقید کرنے والے تو یہ بھی کہیں گے کہ یہ پاکستان کا ”اندرونی“ معاملہ ہے لیکن دونوں جماعتیں جانتی ہیں کہ پاکستان کے ”اندرونی“ معاملات کی حدیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور کہاں ختم۔ لیکن امریکہ کی غلامی کی کوئی حد نہیں۔ ہمارے سیاسی قائدین حکومت میں ہوں، حکومت کا اندرخانے حصہ ہوں یا اپوزیشن میں ، امریکی غلامی ان کے لئے کوئی طعنہ نہیں بلکہ ایمان کا حصہ اور قابل تحسین ہوتی ہے۔ یہ ہمیشہ ان کے علم میں ہوتا ہے کہ امریکہ کے اختیارات کی حدیں کہاں تک ہیں وہ کبھی بھی امریکہ کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتے، وہ اجازت کے بغیر کوئی اختیار استعمال کرلے تو ”بےچارے غلام“کیا کرسکتے ہیں؟ ایک آدمی سے کسی نے پوچھا کہ بھائی صاحب آپ کی شادی کو چالیس برس ہونے کو آئے ہیں لیکن ہم نے آپ دونوں میاں بیوی میں کبھی کوئی لڑائی نہیں دیکھی، اس کی کیا وجہ ہے؟ اس بھلے مانس نے جواب دیا ”ہم نے اختیارات کو آپس میں تقسیم کرلیا ہے، جو بڑے بڑے معاملات ہیں ان میں میری بیوی کو بولنے کا کوئی حق نہیں اور وہ ان معاملات میں دخل اندازی کا سوچ بھی نہیں سکتی، جبکہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں میرا کوئی کردار نہیں ہوتا“ پوچھنے والے نے ایک اور سوال داغ دیا کہ جناب آپ بڑے معاملات اور چھوٹے معاملات کے بارے میں بھی تو بتائیں، جواب ملا ”بڑے معاملات میں مسئلہ کشمیر، افغانستان اور عراق میں امریکی فوجوں کی موجودگی، فلسطین اسرائیل جنگ اور ایسے ہی تمام معاملات شامل ہیں“ اور چھوٹے معاملات کیا ہیں؟ سوال پوچھا گیا، دوبارہ جواب آیا ”میرے کسی بہن بھائی کو گھر میں گھسنے دےنا ہے یا نہیں، بچوں کی شادیاں کہاں کرنی ہیں، میرے ماں باپ کی عزت کتنی اچھالنی ہے وغیرہ وغیرہ چھوٹے معاملات ہیں“....!
اب جبکہ ہمارے حکمران امریکہ کے پکے اور سچے غلام ہیںاور معاملات بھی چھوٹے چھوٹے ہیں تو اس میں امریکہ کی کیوں نہ مانیں اور کیوں غلامانہ انداز اختیار نہ کریں؟ صدر زرداری کوئی منافق تو نہیں ہیں کہ وہ درون خانہ کچھ اسلوب اختیار کریں اور بر سر عام کچھ اور، وہ تو وہی کریں گے جس کا حکم انہیں ”اوپر“ سے ملے گا، ویسا ہی انداز اختیار کریں گے جس سے ”آقا“ خوش ہوگا، ان کے ایسا کرنے سے کسی کو کیا تکلیف ہے؟ اگر انہوں نے ہاتھ باندھ ہی لئے تھے تو جانیں دیں، کوئی اور کام کریں، کوئی اور معاملہ دیکھیں، خواہ مخواہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اچھالنے سے کیا فائدہ ہوگا؟ اور کیا تنقید کرنے والے جانتے نہیں کہ غلاموں کے ہاتھ ہمیشہ بندھے ہوتے ہیں، اگر بظاہر کھلے بھی ہوں تو بھی کھلے نہیں ہوتے، ذہنی اور فکری طور پر ان کے ہاتھ ہمیشہ بندھے ہوتے ہیں، اگر ہاتھ کھولنے ہیں تو پہلے ذہنوں کی پسماندگی دور کرنی پڑے گی، اپنے آپ کو غلامی سے آزادی دلانی ہوگی، ہاتھ بھی تبھی کھلیں گے....!ویسے بھی صدر صاحب کی اپنی سوچ ہے اور پختہ سوچ ہے،وہ کسی اور کے مطالبے پر کچھ نہیں کرتے بلکہ جو بہتر سمجھتے ہیں وہی کرتے ہیں، قوم نے دیکھا نہیں کہ انہوں نے جب ججز کو بحال کرنا چاہا، تب ہی بحال کیا،کسی کے کہنے میں آکر کرنا ہوتا تو بہت پہلے ایسا نہ کرلیتے؟ اسی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ شعر صدر صاحب کے لئے ہی وارد ہوا تھا
”لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم“
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 218128 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.