کیا آئینہ دکھانا گناہ ہوگیا

جس وقت یہ اخبار آ پ کے ہاتھوں میں ہوگا، آپ استقبال رمضان کی مبارک ساعتوں سے گزررہے ہونگے۔ میں ایک دعا کی درخواست اپنے معزز قارئین سے اپنے لئے اور ایک دعا اپنے دل کی گہرائیوں سے ان کے لئے کرتا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں نماز روزے، زکوٰۃ و صدقات اور نیکی کے دکھاوے سے محفوظ رکھے اور اس ماہ مبارک کی حقیقی سعادتوں سے سرفراز کرے۔آمین۔ رمضان نزول قرآن اور تلاوت قرآن سے وابستہ ہے، آیئے ہم ارادہ کریں کہ اس کو فہم قرآن سے وابستہ کریں گے اور اپنی پسند کا کوئی بھی ترجمہ قرآن اس ماہ میں پورا پڑھیں گے۔ تلاوت کا اثراسی وقت دکھائی دے گا، جب سمجھ سمجھ کر تلاوت کی جائیگی۔ قرآن کو اﷲ تعالیٰ نے متقیوں کے لئے ہدایت فرمایا ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے تلاوت و ترجمہ سے مستفید ہونے کی سعی فرمائیں۔ انشاء اﷲ وہ دل کے دروازے کھول دیگا اور ذہنوں کا زنگ اترتا چلا جائیگا اور بہشت کے خوشگوارجھونکے آتے ہوئے محسوس ہونگے۔ آمین۔اسی کے ساتھ یہ اعلان کہ آئندہ چند ہفتے میں اپنا یہ کالم لیکر آپ کی خدمت میں لیکر حاضر نہیں ہوسکوں گا۔
-------
۲۹ جون کو گجرات کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’سٹی زنز فار اکاؤنٹیبل گورننس‘ (جوابدہ حکمرانی کے لئے عوامی تنظیم)نے احمدآباد میں ایک کانفرنس کی جس کا موضوع تھا کہ ’سرکار اور تجارتی ادارے نوجوانوں کو وہ مواقع فراہم کرانے کے لئے جن کے وہ اہل ہیں، کیا تبدیلی لاسکتے ہیں۔‘ اس کانفرنس کا افتتاح ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے کیا۔ اہم شرکاء میں ایک نام ڈاکٹر سید ظفر محمود کا بھی ہے جنہوں نے مودی کی موجودگی میں ایک پاورپوائنٹ کے زریعہ بی جے پی کی اسلام مخالف اورمسلم دشمن پالیسیوں کے نشاندہی کی اور شائستہ انداز میں ان پر تنقید بھی کی۔یہ پروگرام انٹرنیٹ پر براہ راست نشر ہورہا تھا مگر ظفر محمود کی پیش کش ابھی آدھی بھی نہیں ہوئی تھی کہ نشریہ روک دیا گیا اور فرعون زماں کے موجودگی میں تلخ حقائق کی اس جرائتمندانہ پیش کش پر کانفرنس میں سناٹا چھایا رہا اور مودی بھی گم سم بیٹھے سنتے رہے۔کانفرنس میں چنندہ ڈیڑھ سو افراد موجود تھے۔

اس پر میڈیا میں دو طرح کی رپورٹیں شائع ہوئیں۔ ملکی و غیر ملکی انگریزی میڈیا نے ڈاکٹر محمود کی جرائت کے حوالے سے رپورٹیں شائع کیں۔ ٹی وی چینلز پر مباحثے بھی ہوئے، مگر اردو کے بعض اخباروں نے اور مسلم قائدین نے یہ غور فرمائے بغیر کہ پاور پوائنٹ میں کیا کہا گیا ہے، محض اس بنیاد پرمودی کے ساتھ ڈائس شیر کیا، لعنت ملامت کی ۔ دہلی کے ایک نومولود اخبار نے، صفحہ اول پر مضمون نگار کا نام ظاہر کئے بغیر ایک طویل رپورٹ شائع کی ۔ اگرچہ اخبار کے مالک اور مدیردہلی تہذیب کی گم شدہ نشانیوں میں شمار ہوتے ہیں مگر اس تحریر میں ڈاکٹر کلام، ڈاکٹر محمود، مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی اور مسلم پرسنل لاء بورڈ وغیرہ پر جس رکیک انداز میں اظہار خیال کیا گیا ہے وہ اردو تہذیب وصحافت پر بدنما داغ ہے۔ اردو ایک زبان ہی نہیں ایک تہذیب ہے اور شائستگی اس کا امتیاز ہے۔

جن صاحبان دانش و بینش نے اس کانفرنس میں شرکت کی بنیادپر نکتہ چینہ فرمائی ان کی دلیل یہ ہے کہ کسی ایسے جلسے میں شرکت جس میں مودی موجود ہوں،مسلم مفاد اور ان کے وقار کے منافی ہے اور یہ کہ اس طرح کے مواقع کو مودی کیش کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کانفرنس کو گزرے دس دن ہوگئے مگر ابھی تک کوئی ایسی رپورٹ نظر نہیں آئی جس سے اس خدشہ کی توثیق ہوتی ہو۔ یہ بھی کہا گیا کہ مودی کسی کے سننے والے نہیں، ان کے سامنے شکوہ و شکایت یا مسلمانان گجرات کی زبوں حالی کی حکایت بیان کرنا نادانی ہے۔جیسا کی ان کالموں میں پہلے بھی عرض کیا گیا، بات کو پوری طرح جانے بغیر اخبار نویس کے سوال پر رائے دے دینا مناسب نہیں ہوتا۔ اخبار نویس سوال اس طرح کرتے ہیں کہ بات کی اصل پس پشت اور اس کا سفلی عکس روبرو ہوجاتا ہے۔ ہمارے یہ قائدین اگر خبروں سے آگے بڑھ کر اس پاور پوائنٹ کو دیکھ لیتے تو ان اندیشہ ہائے دوردراز میں گرفتار نہ ہوتے جن کا اظہار انہوں نے اپنے بیانات میں کیا ہیجن سے بدگمانی پیدا ہوئی ہے۔بعد میں ایک ٹی وی چینل پر مباحثے کے دوران جب ڈاکٹر ظفر محمود نے سنت موسوی ؑکا ذکر کیا کہ انہوں نے فرعون جیسے جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہا تھا تو اس پر بھی اخبار مذکور میں طنز کیا کہ دیکھو حضرت موسیٰ سے ہمسر ی کررہا ہے۔ گویا انبیا کے سنتیں صرف خطبوں اور تقریروں میں بیان کرنے کے لئے ہیں ۔ میں حیران ہوں کہ اس ’مسلم نوازی ‘ کو کیا کہا جائے؟
بنیادی سوال یہ ہے ڈاکٹر ظفرمحمود نے اس مجلس میں کیا کہا؟ یہ پاور پوائنٹ zakatindia.org پر موجود ہے۔ اردو قارئین کی سہولت کے لئے ہم یہاں اس کی سلائڈس کا رواں ترجمہ پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین کرام خود کوئی فیصلہ کرسکیں۔ پاور پوائنٹ کوعنوان دیا ہے ٭’ایک بھارت‘٭ہمارے اپنے وطن کے مفاد میں یہ ضروری ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں تمام مذہبی فرقوں کے درمیان مساوات اور خوشگوار رشتوں کی ضرورت کو قول اور فعل سے تسلیم وتصدیق کریں٭ مجھے موجودہ یا آئندہ کسی حکومت سے اپنی ذات کے لئے کسی موافقت یا رعایت مطلوب نہیں۔ البتہ مواقع سے محروم کردئے گئے ہندستانی مسلمانوں کے آئینی حقوق کی بحالی اور انصاف کے ایک ایک ذرہ کی قدر کرتا ہوں٭
سکوت آموز طول داستانِ درد ہے ورنہ
زبان بھی ہے ہمارے منھ میں اور تاب سخن بھی ہے

٭۱۴ویں لوک سبھا میں کانگریس کے ’۲۰۶‘ کے مقابلے بھاجپا کے ’۱۱۶ ‘ممبر ہیں٭بھاجپا کو اپنا محاسبہ کرے ٭ ووٹ وہ پیمانہ ہے جس سے عوام کے نگاہ میں پارٹی کی قدر ظاہر ہوتی ہے٭ بھاجپا کی ویب سائٹ کے مطابق مسلمان ہندستان کی سب سے بڑی اقلیت ہے(۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق آبادی ۱۸ کروڑ)۔ دنیا بھر میں ۵۶ مسلم ممالک ہیں اور ان کے علاوہ ۲۰ دیگر ممالک میں وہ بڑی اقلیت ہیں٭لیکن ٭بھاجپا کی ویب سائٹ پر شائع مضامین سے بھاجپا کا کیا نظریہ ظاہرہے۔ ۱۔ ہندتوا عظیم قوم پرستانہ نظریہ ۔ انگریزی کے اس مضمون میں لکھنے والے کا نام درج نہیں ،اس لئے سمجھا جائیگا کہ یہ پارٹی کا اپنا نظریہ ہے۔ یہ مضمون مسلمانوں کے خلاف نفرت و حقارت اور اشتعال انگریزیوں کا مرقع ہے٭ دوسرا مضمون ایم وی کامتھ کا ہے جس میں مسلمانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہندو نام رکھیں اور عورتیں منگل سوتر پہنیں ٭ ایک تیسرے مضمون میں مسلمانوں کی توحید پرستی کو ایک بڑاقومی مسئلہ بتایا گیا ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو نظریہ توحید سے ہٹا کرکے ہندتووا میں مدغم کردیا جائے٭ یہ نظریات ایسی تنظیم کے لئے ناموزوں ہیں جو قومی سطح کی تنظیم ہونے کادعوا کرتی ہے،ان میں مسلمانوں کے خلاف شدید منافرت ہے۔ان کو پڑھنے کے بعد ممکن نہیں کہ کوئی مسلمان بھاجپا کی جانب رخ کرے ۔ سچائی تو یہ ہے کہ کوئی بھی ذی ہوش عام ہندستانی مسلمانوں کے خلاف بھاجپا کے اس انتہائی منافرانہ نظریہ کو قبول نہیں کریگا٭ہندستان کے آئین کے رہنما اصول اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مختلف ہدایات پر مختلف نظریات سے بچا جائے مگر٭یکساں سول کوڈ پر اتنا زیادہ زور!٭ اور دفعہ ۴۶ کا کوئی ذکر نہیں! جس میں یہ ہدایت ہے کہ کمزور طبقوں کی تعلیمی اور اقتصادی بہبود پر خصوصی توجہ دی جائے٭ ہدایت ہے کہ ریاست کو ایسی پالیسیاں بنانی چاہئیں جس سے تمام مادی وسائل کا منصفانہ استعمال ہو اور عوام کی بہبود ہو٭ پاکستان اور برما ایک زمانے میں ہندستان کا ہی حصہ تھے لیکن پاکستان سے آنے والے بظاہر خوشحال تارکین وطن اور برما سے آنے والے مفلوک الحال لوگوں کے ساتھ متضاد رویہ ۔ اس سے مسلمانوں کو کیا پیغام دیاجاتا ہے٭بی جے پی کے انتخابی منشور کے چند توجہ طلب نکات۔ کہا گیا ہے دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ۔ جو لوگ دہشت گردی میں ملوّث ہوتے ہیں وہ اپنے مذہب کی اخلاقی حدود کی پامالی کرتے ہیں، ان کا یہ عمل وحشیانہ ہے۔توپھر فرقوں کے درمیان رشتوں کو غلط فہمیوں کے دلدل سے نکالا جائے ٭ منشور میں وعدہ ہے کہ بی جے پی وقف املاک پر جے پی سی کی سفارشات پر نظر ثانی کریگی اور مسلم رہنماؤں سے مشورے سے وقف املاک کو ناجائز قبضوں سے آزاد کرائے گی٭مگر جے پی سی رپورٹ اور سچر رپورٹ میں اور بھی سفارشیں ہیں۔بھاجپا ان کو سمجھنے ، آگے بڑھانے کا کام اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی کرسکتی ہے٭مثلاًجے پی سی نے اوقاف پر اپنی نویں رپورٹ میں تسلیم کیا ہے، مسلم سینئر افسراتنی کافی تعداد میں نہیں کہ ان کو تمام اوقاف کا سربراہ مقرر کیا جاسکے٭سچر کمیٹی نے اس مسئلہ کے حل کے لئے انڈین وقف سروسز کے قیا م کی سفارش کی ہے مگر اس پر کاروائی نہیں ہوئی٭ حالانکہ تمل ناڈو، کیرالہ، کرناٹک ، اے پی اور یوپی میں ہندو وقف املاک کے نظم و نسق کے لئے مخصوص سروسز موجود ہیں اور اعلا منصب کے ہندو افسران ان میں مقرر ہوتے ہیں٭ سچررپورٹ اہم سفارش کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ یہ حکومت کی لاپروائی ہے۔ مسلمانوں کی مدد کی حقیقی خواہش نہیں ہے۔ انڈین وقف سروس قائم نہیں کیا جارہا٭ آئین کی رو سے پارلیمنٹ اوقاف کے لئے کل ہند سروس قایم کرنے کی مجاز ہے٭ بھاجپا انڈین وقف سروسز کے لئے بل پیش کرے٭
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں

٭شڈولڈ کاسٹ کی تعریف٭ ۱۹۵۰ کے صدارتی حکم نامے میں مسلم اور عیسائی مندرجہ فہرست ذاتوں کوخارج کردیا گیا ہے٭حکم نامہ کے پیرا تین میں کہا گیا ہے، کوئی بھی شخص ہندو، سکھ یا بودھ مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کا پیروکار ہوگا ،وہ مندرجہ فہرست ذات کا ممبر تصور نہیں ہوگا٭ چنانچہ یہ حکم نامہ صریحاً غیر آئینی ہے٭آئین کی دفعہ ۱۵ کہتی ہے مذہب کی بنیاد پر کسی سے کوئی بھید بھاؤ نہیں برتا جائیگا اور دفعہ ۱۶ کے مطابق سرکاری عہدوں پر تقرری کے لئے کسی شخص سے اس کے مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں برتی جائیگی٭چنانچہ یہ پیرا گراف آئین کے منافی اور اس کے حسن پر بدنما داغ ہے(سپریم کورٹ)٭ ذات برادری کا تصور کسی مذہب تک محدود نہیں(اندرا ساہنی کیس میں سپریم کورٹ)٭شڈولڈ کاسٹ کی تعریف سے مذہب کی شرط کو ہٹایا جائے، ۱۹۵۰ کے حکم نامہ میں ترمیم کی جائے٭یہی سفارش سچر کمیٹی اور مشرا کمیشن نے بھی کی ہے۔ اس کے لئے آئین میں ترمیم کی ضرورت نہیں۔ بھاجپا صدرجمہوریہ کو میمورنڈم پیش کرے٭ انتخابی حلقوں کو ریزروکرنے کی پالیسی پر نظر ثانی ہو٭ جن حلقوں میں مسلم آبادی خاصی بڑی اور ایس سی معمولی ہے ان کو ایس سی سیٹ ریزورکردیا گیا ہے٭دوسری طرف وہ حلقے ہیں جن میں ایس سی کی بڑی تعداد ہے، مگر مسلمان کم ہیں ان کو جنرل رکھا گیا ہے٭لوک سبھا میں کل ۵۴۲ سیٹیں ہیں۔ ملک بھر میں مسلم آبادی تقریبا ساڑھے تیرہ فیصد ہے۔ اس لحاظ سے ان کی نمائندگی ۷۳ ہونی چاہئے مگر ہے صرف ۲۷٭ سچر کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ اس نقص کو دورکرنے کے لئے حدبندی کمیشن موثر اقدام کرے۔لیکن ابھی تک کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ بی جے پی کو صدر جمہوریہ کومیمورنڈم پیش کرکے سچر سفارشات کو نافذ کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئے٭بھاجپاکا ۲۰۰۹کا منشور: وعدہ کیا گیا ہے کہ بھاجپا مسلمانوں میں جدید تعلیم کی توسیع کے لئے وسیع اقدامات کریگی٭مگرابھی تک گجرات میں اقلیتوں کے لئے مرکزی اسکالر شپ اسکیم کو نافذ نہیں کیا گیا۔ نفاذ کے لئے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے احکامات آچکے ہیں۔گجرات سرکار نے کیا اقدام کئے؟ ان کو اپنی ویب سائٹ پر بتائے٭احمدآباد میں دھورجی نگر اور سٹی زن نگر میں سنہ ۲۰۰۲ء فسادکے دوسو متاثرہ خاندانوں کو مسلم رضاکاروں نے بسادیاتھا۔ ان سے متصل ایک کلومیٹر لمبا اور پچاس فٹ بلند ڈلاؤ ہے جس پر شہری کوڑاکچرا ڈالا جاتا ہے۔اس سے بدبو پھوٹتی رہتی ہے۔ برسات میں گندا پانی گھروں میں آجاتا ہے ۔ نلوں کا پانی مضر صحت ہے۔ چنانچہ امراض کی کثرت ہے۔ نالیاں نہیں ہیں۔ کوئی اسکول نہیں۔ ماہانہ آمدنی دو تین ہزار سے زیادہ نہیں۔ملکیت کے کاغذ ابھی تک نہیں ملے٭کیسا اچھا ہو کہ وزیر اعلا اس علاقے کا دورہ کریں ٭دماغ ہو، دل ہو ساتھ تونتائج ہاتھ آتے ہیں٭بیشک اﷲ حکم دیتا ہے عدل کا اور احسان کا(۱۶:۹۰)٭عدل اگر معافی مانگنے کا مطالبہ نہیں کرتا تو بھی کہئے ہاں غلطی ہوئی۔ یہ احسان ہے٭وہ اسکیمیں بھی نافذ نہیں کی گئیں جن کا مقصد اونچ نہچ اور اقتصادی فرق کو کم کرنا ہے۔ بھاجپا کو مطالبہ کرنا چاہئے صدر سے کہ ان کو نافذکیا جائے٭ اقتصادی سیکٹر میں اصلاح کے لئے رگھورام رنجن کمیٹی کی سفارش ہے، غیرسودی بنکاری نافذ کی جائے٭
ممکناتِ قوت مردان کار،
گرداز مشکل پسندی آشکار
(مفہوم یہ کہ کام کا دھنی ہونے کے مدعی کے امکانات کا اظہار اس سے ہوتا ہے وہ مشکلوں کس طرح سینے سے لگاتا ہے، ان پر پارپاتا ہے)۔

اس نصف گھنٹے کی پیش کش میں نہ تو کہیں کاسہ لیسی نظرآتی ہے اور نہ لب ولہجہ خوشامدی ۔ایک معقول انداز میں مودی کے سامنے جو باتیں کہہ دی گئیں ان پر معروف تعلیم داں حلیمہ سعدیہ نے اقبال کا یہ شعر لکھ بھیجا:
آئین جواں مرداں، حق گوئی و بیباگی
اﷲ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
اورڈاکٹر سید فاروق کی رائے ہے: اس پیش کش کے بیشترمشمولات حق پر مبنی ہیں اور ایسے فورم میں ان کو پیش کرنا بڑی ہمت کا کام ہے۔‘.مودی اور بھاجپا پر اس کے کسی اثر کی تو کوئی امید نہیں ، لیکن زرا پچھلے دس بارہ سال کے اخباراٹھاکر دیکھ لیجئے کہ کیا ہم صحافیوں نے مودی کو آئینہ دکھانے میں کیا کوئی کسرچھوڑی ہے اور کیا اس لئے کہ ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا ، اپنی روش بدل دی ہے؟ اگر ہم ہرروز اخبار کے کالموں میں مودی کو آئینہ دکھاسکتے ہیں ،تو اس میں کیا غضب ہوگیا کہ ایک شخص اس کے سامنے ان تمام باتوں کو دوہرادے جو ہم کہتے آئے ہیں اور بتادیں کہ اس ذہن وفکر کے ساتھ تم مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں؟
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164851 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.