مصر میں اسلام دشمنی۔ منظر و پس ِمنظر

محمد مرسی سابق صدر مصر کے خلاف فوجی بغاوت پر مغربی ممالک کی خاموشی نے ان کے ’’دوہرے معیار‘‘ کو ہی نہیں بلکہ ان کی ’’مسلم دشمنی‘‘ کو بھی پوری طرح بے نقاب کردیا ہے۔ اگر مرسی کا تعلق اسلام پسند اخوانیوں سے نہ ہوتا وہ ناصر سے حسنی مبارک کے زمانے کی مخالف اسلام حکمت عملی اور اقدامات کے خاتمے کے لئے سرگرداں نہ ہوتے تو بلاشبہ ان کی مخالفت نہ ہوتی۔ ان کی حکومت جو منتخبہ تھی، وہ خود بھی آئینی صدر تھے اور ان کی حکومت جس دستور پر کاربند تھی وہ بھی عوام کا منظور شدہ تھا لیکن ان سب کو نظر انداز کرکے فوج کی غاصبانہ حکومت کی تائید و حمایت مجرمانہ فعل ہے۔ اس کے برعکس اگر مرسی حکومت کی جگہ کوئی اسلام دشمن سیکولر حکومت ہوتی اور مصری فوج مرسی کی طرح اسلام پسند ہوتی تو اسلام پسندوں کے ہاتھوں سیکولر حکومت کا خاتمہ ناقابل معافی جرم قرار پاتا۔ اس معاملے میں سب سے بڑا حزنیہ یہ ہے کہ اسلام پسند ان کے ہاتھوں مار کھارہے ، قتل ہورہے ہیں اور حکومت کھورہے ہیں جو بدقسمتی سے خود کو مسلمان ہی کہتے ہیں۔

اسلام دشمن میڈیا کی پالیسی کیسی ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اسے انقلاب کہہ رہا ہے جو دراصل بغاوت ہے۔ انقلاب غاصیوں کے خلاف برپا کیا جاتا ہے۔ کیا صدر مرسی اور ان کی حکومت غاصب تھی؟ امریکہ، برطانیہ و دیگر مغربی ممالک اور اسرائیل اگر جنرل عبدالفتاح اور مصر کے صدر عدلی منصور کو فوراً مبارکباد دیں تو کوئی بات ہے لیکن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو مبارکبادیاں پیش کرنے کی کیا جلدی تھی ؟بلکہ کیا ضرورت تھی؟لیکن امریکہ کی خوشنودی کی خاطر عالم عرب کچھ بھی کرسکتا ہے اور کسی بھی حدتک جاسکتا ہے ۔ امریکہ کی مرضی کے مطابق کوئی عرب ملک عربوں سے تعلق رکھنے والے کسی تنازعہ میں شریک نہیں ہوتے ہیں کسی تنازع کا حل نکالنے کی کوشش اس لئے نہیں کرتے ہیں کہ پتہ نہیں کہ امریکی حکومت کی کس معاملے میں کیا مرضی ہے؟ جس طرح شام کے مسئلہ پر عالم عرب خاموش رہا ہے اسی طرح صدر مرسی کے خلاف امریکہ و اسرائیل کے حامیوں، مذہب بیزاروں اور اسلام دشمنوں، قطبی عیسائیوں اور حسنی مبارک کی فوج اور انتظامیہ کے وفاداروں نے سازش رچائی اور مرسی کو ہٹاکر و دم لیا اور اس پر بھی عالم عرب خاموش ہے اگر عرب ممالک علی الاعلان نہ سہی خاموشی سے یہ پیام دیتے کہ اگر بغاوت ختم نہیں کی گئی تو مصریوں کو عرب ممالک سے واپس مصر بجھوادیا جائے گا لیکن عالم عرب کے نزدیک مرسی کی حکومت کے خاتمے کے مقابلے میں اسلام دشمنوں کے ہاتھوں اخوان اور اسلام پسندوں کی شکست کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ امریکہ اور اسرائیل کی ریشہ دوانیوں کے آگے تمام عرب ممالک کی حیثیت صرف خاموش تماشائی رہی ہے کیونکہ اخوان المسلمین شاہی حکومتوں اور امریکہ نوازی کے خلاف ہے۔ مرسی کا سب سے بڑا دشمن اسرائیل ہے کیونکہ غزہ میں اسرائیلی ناکہ بندی کے شکار فلسطینیوں کے مرسی مدد گار اور مسیحا تھے ۔ ترکی اور مصر ہی دو ایسے ملک ہیں جنہوں نے محصورین غزہ کی مدد کرکے اسرائیل کے منصوبوں کو ناکام بنایا تھا۔ اسی لئے دونوں کی حکومتوں (مرسی واردوغان) کے خلاف بغاوت برپا کی گئی (دعا فرمائے کہ ترکی کی اسلام پسند حکومت محفوظ رہے (آمین)

جمال عبدالناصر کے دور سے لے کر حسنی مبارک کا تقریباً 60سالہ دور (جس کو ایک طویل مدتی سازش بھی کہا جاسکتا ہے)میں بے شک انوارالسعادت کا دور مختلف تھا۔ سعادات عربوں اور مصر کے وقار کو بحال کرنے جنگ کی تھی لیکن جلد ہی انہیں اسرائیل سے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کیلئے مجبور کردیا گیا تھا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فروری 2012ء کے بعد سے ہی فوج اور انتظامیہ میں حسنی مبارک کی باقیات نے اسلام پسندوں اخوان اور صدر مرسی اور ان کے ساتھیو ں کو اقتدار سے دور رکھنے کی بڑی زبردست مساعی کی اور جب صدر مرسی نے عہدہ صدارت کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے کی کوششیں شروع کردی گئی تھیں صدر مرسی کے تمام مخالفین نے اصولوں، نظریات اور طرز حکومت کی وجہ سے صدر مرسی کی مخالفت کی بلکہ یہ مخالفت اسلام، اخوان اور دین کے سبب بھی تھی اور اسلام دشمن بیرونی طاقتوں کی ترغیب، تحریک اور تعاون اسلام پسندی کے مخالفین کو حاصل تھی۔ 12؍اگست 2012ء کو صدر مرسی نے اختیارات میں خاصہ اضافہ کرلیا۔ 22نومبر کو صدر نے مزید اختیارات حاصل کرلئے یہ اضافہ اپنی ذات کو طاقتور سے طاقتور ترین بننے یا آمریت اختیار کرنے کے لئے نہیں تھے بلکہ مخالفین کو غیر ضروری رکاوٹیں ڈالنے سے روکنے یہ اقدامات کئے گئے تھے۔

4 دسمبر2012سے صدر مرسی کے خلاف احتجاج نے شدت اور تشدد کی راہ اختیار کی یہ احتجاج آئینی اور قانونی طریقوں کے مطابق کئے گئے اقدامات کے خلاف تھا۔ مثلاً استصواب عامہ کے ذریعہ منظور شدہ دستور کو منسوخ کرنے نئے آئین کی تیاری کے غیر قانونی (غیر دستوری مطالبات پر زور دیا جارہا تھا۔ مظاہروں اور احتجاج کا زور بڑھتا رہا بلکہ بیرونی عناصر احتجاج کو شدید بنانے اور میڈیا نے اسے بڑھ چڑھاکر پیش کرنے میں آگے رہا۔ ہمارے ملک کے بعض اردو اخبارات بھی اس پروپگنڈہ کا شکار ہوگئے۔

بات بنتے نہ دیکھ مخالف مرسی عناصر نے فوج سے کام لیا یوں بھی فوج کے سربراہ (جن کا تقریر مرسی نے ہی کیا تھا) عبدالفناح السیسی نے اپنے تئیں حالات کو دھماکو قرار دیا یہ سب منصوبہ بند سازش کے مطابق تھا۔ فوج نے غیر ضروری مداخلت کرتے ہوئے امن و قانون کی بحالی اور جمہوریت کے لئے عظیم خطرہ لاحق ہونے کے سبب صدر مرسی سے مطالبہ کیا بلکہ ان کو الٹی میٹم دیا کہ وہ 48 گھنٹوں کے اندر اپنا عہدہ چھوڑ دیں! مصری فوج نے آئینی طور پر منتخب صدر کو صدارتی انتخابات میں شکست خوردہ امیدوار احمد بن صباحی کے مطالبہ پر ان کے عہدے سے ہٹاکر ان کو نظر بند کردیا۔ یہ ساری کہانی کچھ یوں ہے کہ حسنی مبارک کو ان کے مغربی و اسرائیلی آقا معذول ہوتے ہوئے دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ لیکن وہ جب مجبور ہوگئے تو طوحاً و کرہاً محمد مرسی کو برداشت کرلیا لیکن روزاول سے کوشش یہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح مرسی کو ہٹاکر مصر کو مغرب اور اسرائیل کے غلاموں کی تحویل میں لالیا جائے اس کے لئے زائد از 60سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ۔ اسلام دشمن عناصر انتظامیہ، عدلیہ پولیس، میڈیا اور فوج میں تھے چنانچہ انہوں نے غداری کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس بغاوت کو کامیاب بنایا ۔ اسی لئے محمد مرسی کی کوئی بات نہیں سنی گئی حد تو یہ ہے کہ مخلوط حکومت اور اصلاحات کے نفاذ کی بات پر توجہ نہیں کی گئی۔ فوج کی جانبداری کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے صرف محمد مرسی کے تمام ہمدردوں، اخوان کے کارکنوں اور قائدین کے خلاف کارروائیاں کیں۔ کثیر تعداد میں اخوانی گرفتار کئے گئے جبکہ وہ فوج جو ملک کے نراج بدامنی اور شورش سے بچانے کے لئے سامنے آئی جس کا مقصد ملک کو غداروں سے بچانا اس کو تو دونوں فریقوں کے خلاف کارروائی کرنا تھی۔ البرادعی کو وزیر اعظم بناکر فوج نے ثابت کردیا کہ اس نے اپنے بیرونی آقاؤں کے حکم پر یہ سب کچھ کیا۔ مصری فوج کے سربراہ کا امریکی آقاؤں سے ہر مرحلہ پر ٹیلیفونی رابطہ رہا ہے ۔ اوبامہ اور جان کیری ہی اس سازش سے نہ صرف واقف بلکہ نگران رہے ہیں۔

عرب ممالک خاص طور پر عرب لیگ کو باغیوں کے اس ٹولے کی سخت سرزنش کرنی چاہئے تھی اور اس حکومت کو تسلیم ہی نہیں کرنا چاہئے تھی لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ خود کو خادم الحرمین و شریفین کہنے والے حکمراں نے سب سے پہلے صدر مصر کو مبارکباد دی! گویا محمد مرسی اور ان کی اسلام پسندی امریکہ کی مرضی کے آگے ہیچ ہے۔ دوسرے اسلامی ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ رہ گیا ہندوستان تو موجودہ ہندوستانی حکومت کی کیا مجا ل ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ایک لفظ بھی کہ سکے! افریقی ممالک کی یونین نے بے شک مصر کی رکنیت معطل کردی ہے۔ عرب لیگ سے وہی بہتر رہی ہے۔

محمد مرسی نے ایک سال کی مدت میں کچھ غلطیاں ضروری کی ہیں لیکن ان پر یہ الزام کہ انہوں نے مصر کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے کچھ نہیں کیا ایک انتہائی لغواور مہمل ہے کیونکہ معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے ایک سال کی مدت کوئی معنی نہیں رکھتی ہے ۔ اوباما اور منموہن سنگھ طویل عرصے میں کچھ نہ کرسکے۔ ان پر جو دوسرے الزامات لگائے جاتے ہیں وہ بھی کسی خاص اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ محمد مرسی اگر اخوان کے نہ ہوتے تو باوجود ان کی اسلام پسندی کے ان کو برداشت کرلیا جاتا لیکن اصل قصور یہ ہے کہ وہ اخوان کے تربیت یافہ ہیں اور اخوان المسلمین سالہا سال سے اسلام دشمنوں کو پسند نہیں ہے۔

آخر میں یہ حیرت انگیز انکشاف سن لیں کہ ’’الجزیرہ‘‘ کے معروف صحافی احمد منصور کے مطابق مصر کے نئے صدر عدلی منصور یہودی ہیں گوکہ وہ خود کو عیسائی کہتے ہیں اس سے مزید ثابت ہوتا ہے کہ مخالف مرسی بغاوت کا پس منظر کیا ہے؟
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 167693 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.