بالآخر میاں محمد نواز شریف صاحب نے وزارت
عظمیٰ حاصل کرلی جس کے لئے وہ تقریباً چودہ سال کے عرصے سے انتظار میں تھے۔
میاں صاحب کو بہت مبارک ہو کہ انہوں نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ دو تہائی
اکثریت سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں۔اس کے علاوہ
صوبائی سطح پر حکومتیں بن گئیں۔سب سے بڑے صوبے کے مالک بھی میاں برادران ہی
ٹھہرے۔بلوچستان جیسے بدامنی والے ناراض صوبے میں بھی حکومتی اونٹ نے میاں
صاحب کی طرف کروٹ لی ہے اور اب بلوچوں کی امیدیں پنجاب سے وابستہ ہوگئی
ہیں۔سرحد کا معاملہ بالکل ہی بہتر ہوگیا وہاں کے لوگوں نے اپنی قسمت کا
سکندر عمران خان کو بنا دیا یہ بھی اچھا ہوا لیکن سندھ کے ساتھ اس بار بھی
بہت برا ہوا ۔ کراچی میں بھی خود ساختہ اکثریت بازی لے گئی ابھی تک الطاف
بھائی ناراض بھی ہیں۔اس بار پالیمنٹ میں سب سے زیادہ نقصان اے این پی کا ہو
ا دوسرا مسلم لیگ ق کا ہوا جن کے پاس کچھ نہیں بچا کچھ تو الیکشن سے پہلے
ہی منہ پھیر کے چلے گئے تھے اور کسی کو عوام نے ہی دھول چٹا دی اور چودھری
شجاعت نے مٹی پاؤ کے فارمولے پہ عمل کیا۔عمران خان کو تو بد اخلاقی لے ڈوبی
کیونکہ ان کا نشانا میاں برادران ہی رہے اگر زرداری نشانے پہ زیادہ ہوتے تو
عمران خان اپنے چاہنے والوں کو ضرور خوش کرتے پھر بھی اپنی جگہ بنا گئے۔
میاں صاحب چودہ سال کی مسافت کے بعد دوبارہ وزیراعظم تو بن گئے ہیں لیکن اب
پہلے سے معاملہ بہت ہی مختلف ہے بلکہ معاملہ ٹیڑھا ہے۔ ایک تو پہلے والا
پاکستان نہیں ہے اور اب مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں۔آج کے مسائل ہیں بھی
مختلف۔ایک تو بڑی لعنت دہشت گردی ہے جو روزانہ لاکھوں جانیں کھائے جا رہی
ہے۔اس کے لئے تو سب کو اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا اور ایک
دوسرے پر تنقید کرنے کی بجائے مل کر سوچنا ہاگا۔اور کہیں ایسے گھونٹ بھی
پینے ہوگے جو نگلے نہیں جائیں گے۔کیونکہ یہ مسئلہ ایک پارٹی کا نہیں ہے
بلکہ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے اگر کہیں مذاکرات سے معاملہ حل ہوسکتا ہے تو
اس میں دیر نہیں کرنی ہوگی اور اپنے اداروں کو مطمئن کرنا ہوگا پھر جا کے
اس میں کامیابی ملنے کی امید پیدا ہوگی ۔میاں صاحب کو بہت ہی مشکلات ملی
ہیں لیکن میاں صاحب کی ایک خوبی ہے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیتے جس کی وجہ
سے وہ ہر مشکل سے نکل جاتے ہیں۔قسمت کی بات ہے کل کا آمر آج جیل میں ہے اور
ماضی کا قیدی اسی وقت بادشاہ کی کرسی پر براجمان ہوگیا ہے۔اس میں اﷲ تعالیٰ
کا فرمان ’’وتعز من تشاؤتزل من تشاٗ‘‘واضح ہوتا ہے۔ایک وقت تھا کہ میاں
صاحب کو سزائے موت ملی پھر وہ سزا ملک بدری میں تبدیل ہوگئی اور آج پھر
میاں صاحب قسمت کے دھنی بن کر تمام مشکلات کو عبور کر کے پھر اسی کرسی پر
ایک مضبوط وزیراعظم بنے ہیں جسے نہ تو اب اٹھاون ٹو بی کا ڈر ہے اور نہ فوج
کے آمروں کا۔ کیونکہ اگر آخری حکومت کے دور پر نظر دوڑائی جائے تو حالات اس
وقت سے بہت ہی بدتر ہوگئے تھے جب فوج اقتدار پر قابض ہوجاتی تھی اور ملکی
سلامتی کا نعرہ لگاتے ہوئے سب کچھ کر دوڑتی تھی لیکن اشفاق پرویز کیانی نے
وہ سب کرنے کی جسارت نہ کی۔
اس وقت دوسرا سب سے اہم مسئلہ لوڈشیڈنگ کا ہے جسے نو منتخب وزیراعظم صاحب
ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کا اعلان کیا ہے اور امید ہے کہ یہ مسئلہ اگر حل
ہوجتا ہے تو باقی مسائل اتنے بڑے نہیں ہیں ۔بجلی پیدا کرنے سے جہاں ہماری
صنعت کا پہیہ روان ہوتا ہے تو روزگار کے دروازے بھی کھلتے ہیں۔پھر مہنگائی
میں بھی خاطر خواہ کمی ہونے کی امید ہے۔اس کے بعد زرعی اصلاحات کی جائیں
اور کسان کو اسکے جائز حقوق کا حصول یقینی بنایا جائے۔ہمارے ملک کی معیشت
کا ۰۷ فیصد حصہ زراعت پر منحصر ہے لیکن بدقسمتی سے کسان اور کاشتکار کو اس
کا حق نہیں مل رہا جس کی وجہ سے ہر سال ہمیں دوسروں کا محتاج ہونا پڑتا
ہے۔ہم اپنے ملک کے صوبوں کی مدد نہیں کر سکتے ۔ غریب لوگ ہر سال ذخیرہ
اندوزوں کی وجہ سے مہنگے داموں آٹا خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔زرعی اصلاحات
کے لئے محمدابراہیم مغل چئیرمین ایگری فورم پاکستان کی خدمات لینی
چاہیئں۔وہ کسانوں کے بارے بہتر سوچ رکھنے والے انسان ہیں۔
جس طرح آخری دور حکومت میں ملکی وسائل کو بیدردی سے لوٹا گیا اور کرپشن اور
اقربا پروری کی ساری حدیں پار ہوئی ہیں جس سے پیپلز پارٹی ،اے این پی اور ق
لیگ کو شکست کی صورت میں ازالہ دینا پڑا ۔زرداری صاحب نے اپنے حالیہ
انٹرویو میں شکست کی وجہ ستمبر کے بعد بتانے کا عندیہ دیا ہے لیکن صدر
زرداری صاحب سے زیادہ وہ لوگ جانتے ہیں جنہوں نے شکست دی ہے۔۲۸ ارب روپے کو
چونا لگانے والا توقیر صادق عدالتی احکامات کو پس پشت ڈالا ہو اہے اس طرح
کے اور غائبانہ نام بھی ہیں جنہیں حکومت کی مکمل سپورٹ رہی۔صدر صاحب فرماتے
ہیں کہ سویٹزر لینڈ والے مسئلے میں وہ پہلے سزا بھگت چکے ہیں اب اس معاملے
کو ہی بند کیا جائے۔ جناب صدر سویٹزر لینڈ سے آپ اور آپ کے کافی رفقا نے جو
جائدادیں جمع کی ہیں وہ اس غریب قوم کی ہیں جسے آپ نے بے نظیر انکم سپورٹ
پہ ہی خواش کئے رکھا۔ایک نااہل وزیراعظم کو ناہل بھی ہونا پڑا اور دوسرے
نااہل وزیراعظم نے آپ کے ذریعے اپنا بچاؤ کر لیاجو گیلانی صاحب بھی کر سکتے
تھے۔ اب عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے اورنئی حکومت کو عدلیہ کے فیصلوں پرمن
وعن عمل کرنا ہوگا۔اگرعدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی گئی تو آکری حکومت
جیسا حال ہوگا پہلے سزائیں بھی ہونگی رہی سہی کثرت عوام پوری کردے گی۔اس
بار کچھ نئے کرپٹ چہرے سامنے آئیں گے اور کچھ تو اس ملک سے بھی بھاگ چکے
ہوں گے اور ان چوروں کو نئی حکومت نے پکڑنا بھی ہوگا جس کے لئے میاں نواز
شریف صاحب پہلے تیاری کرلیں۔ عدلیہ کی طرح میڈیا بھی آزاد ادارہ بن چکا ہے
۔میڈیا کی آزادی سے ہی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی کامیابی ہوئی ہے
کیونکہ میڈیا آخری حکومت کیکالے کارناموں پر نظرثانی کرتی رہی ہے۔میڈیا کو
دبانے کی کوشش بھی کی گئی لیکن کامیاب نہ ہوئے ۔اب میڈیا ہی کی بدولت عوامی
شعور میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اس الیکشن میں ٹرن آؤٹ بھی اضافی رہااس
لئے محتاط رہنا ہوگا۔کرپشن جیسی لعنت کا خاتمہ کرنا ہوگا جس کے لئے میاں
شہباز شریف صاحب سے اچھی امیدکی جاسکتی ہے کہ وہ ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر کی
طرح اس لعنت کا خاتمہ کرسکتے ہیں جس کا عندیہ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ
جناب پرویز خٹک بھی کر چکے ہیں۔یہ بھی دیکھنا ہے یہ پرویز کس طرح کے ہیں ؟
کیونکہ دو چار پرویز پہلے بھی عوام دیکھ چکی ہے۔
اس وقت سب سے بہتر فیصلہ بلوچستان کے لئے کیا گیا ہے۔ایک قوم پرست اور مڈل
کلاس فیمل سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ منتخب کر
کے۔کیونکہ اکثر بلوچ قوم پرست رہنما پنجاب کو اپنا مجرم بتاتے تھے۔آخری دور
حکومت میں بلوچوں کے لئے کاغذی کاروائی کے کچھ نہیں کیا گیا۔ اسلم رئیسانی
جیسے ’ناایہل‘ لوگ وزارتوں پر براجمان رہے۔جنہوں نے بیشتر وقتب اسلامآباد
اور دوسرے ملکوں میں گزارا۔بلوچستان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ لاپتہ لوگوں کا
کچھ اپنے سیکورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں جن کا کیس ابھی تک سپریم کورٹ
میں زیرسماعت ہے اور کئی لاپتہ لوگ غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں کھلونا بنے
ہوئے ہیں۔ ان سب کے لئے فیصلے سوچ سمجھ کر کرنے ہونگے۔اگر طالبان سے
مذاکرات ہوسکتے ہیں تو ان بلوچوں سے بھی مذاکرات کئے جائیں۔بلوچستان کی
مخلوط حکومت میں محمود خان اچکزئی جیسے زیرک سیاستدان موجود ہیں جو معاملات
کو خوش اسلوبی سے حل کرنا جانتے ہیں۔وفاق کو بلوچستان کا مکمل تعاون کرنا
چاہیے اور میاں صاحب کو چاہیے کہاس پنجابی بیوروکریسی کو کنٹرول میں رکھا
جائے جس کا الزام بلوچ پہلے لگاتے رہے ہیں۔ان سب مسائل کے حل کے لئے سب
سیاسی رہنماؤں کو مل کر چلنا ہوگا تنقید برائے اصلاح کرنی ہوگی۔مخالفت
برائے مخالفت کی گنجائش موجود نہیں ہے اب۔اور عوام کو چاہئے کہ گالیان دینے
کی بجائے دعا کرنی ہوگی اپنے حکمرانوں کے لئے اس سے اﷲ کی مدد بھی میسر
ہوگی اور انشائاﷲ ایک نیا روشن پاکستان بن جائے گا۔ |