•-قدم قدم پر تضادات کی خاردار
جھاڑیاں جن سے ہر رہروکا دامن ا’لجھ کر رہ جائے۔دائیں کچھ،بائیں کچھ ،آگے
کچھ ، پیچھے کچھ،نیچے کچھ ، اُوپر کچھ ، تضاد پہیم تضاد ، کشمکش ، مسلسل
کشکمش، تناقض، غیر منقط تناقض یہ ہیں کاروان ِ حیات ِ انسانی کے راستے کے
مناظر ۔روح اور مادہ میں تضاد، عقل اور عشق میں تضاد ، علم اور اعتقاد میں
تضاد، تحفظ ذات اور ایثار میں تضاد ، محبت خویش اور عالمگیر مودت میں تضاد،
، دنیا اور آخرت میں تضاد ، خیر و شر میں تضاد،تضاد بالائے تضاد اور انسانی
فکر کی تمام جد وجہد ، ان تضادات میں توافق کی تلاش ، کبھی متضاد عناصر کو
پانی اپنی جگہ مستقل بالذات تسلیم کرکے اپنے عجز و بے چارگی کا اعتراف اور
کبھیایک وجود سے آنکھیں بند کرکے اس فریب نفس کا نام تو افقِ تضاد ، انسان
کے سامنے درحقیقت سوال ایک ہی رہا ہے اور ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ زندگی کے
ان تضادات میں کس طرح توافق پیدا کیا جائے۔ فرینڈز آف سبریا گروپ میں شامل
ممالک کا اجلاس قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوا ۔ اس اجلاس میں ان ممالک کے
وزرائے خارجہ نے شامی صدر بشار الاسد کے خلاف بر سرپیکار شامی باغیوں کیلئے
ٹھوس فوجی امداد کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔باغیوں کی فری سبرین آرمی
FSAنے گزشتہ روز کہا تھا کہ ا کے پاس ہتھیار پہنچ گئے ہیں تاہم باغیوں کے
ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ ہتھیار امریکہ سے نہیں آئے ہیں۔فری سبرین آرمی کے
ایک ترجمان سمبر النشر نے ایک خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بیان دیتے ہوئے
کہا کہ"ہماری طرف سے فرینڈز آف سبریا کے اجلاس میں اس امر کو اجاگر کرنے کی
کوشش کی جائے گی کہ شامی حکومت اور اس کی حامی حزب اﷲ کے حملوں کا مقابلہ
کرنے کیلئے مزید ہتھیاروں اور جنگی ساز و سامان بھیجنے کا عمل کتنا ضروری
ہے۔"ان گیارہ رکنی فرینڈز آف سبریا گروپ میں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ،
جرمنی ، اٹلی ، ا‘ردن ، سعودی عرب ، ترکی ، مصر ، متحدہ امارات اور قطر
شامل ہیں۔اس اجلاس کے بارے میں امریکی ترجمان کا یہ کہنا تھا کہ قطر میں اس
ملاقات کا مقصد اس بات پر غور کرنا ہے کہ عالمی برداری کس طرح شامی باغیوں
کیصورتحال بہتر کرسکتی ہے۔اُردن اور امریکہ کی طرف سے اس بات کی تصدیق کی
جا چکی ہے کہ عمان اور واشنگٹن نے شامی باغیوں کیلئے ایک سال پرانے تربیتی
پروگرام میں توسیع کی تھی۔پہلے یہ پروگرام کیماوی ہتھیاروں کا سراغ لگانے
اور انہیں محفوظ رکھنے تک محدود تھا تاہم اب اس میں توسیع کرتے ہوئے اس میں
طیارہ اور توپ شکن میزائلوں کا ستعمال بھی شامل کردیا گیا ہے۔امریکہ اس جنگ
کا نقشہ تبدیل کرنے کیلئے نو فلائی زون اور بفر زون قائم کرنا چاہتا
ہے۔امریکی اہلکاروں کے مطابق واشنگٹن نے دو ہزار اضافی عسکری تربیت دہندگان
اور مشیر اردن بھیجے جنکاکام فری سبرین آرمی FSAکے پانچ ہزارر کمانڈرز اور
افسروں کی تر بیت کرنا تھا ۔شام میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کی مطابق ایک دو
سال میں کم ازکم 93ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔شامی جذب اختلاف کے قومی
اتحاد کے عبوری صدر جارج صبرا نے کہا ہے کہ لبنان کی مسلح جنگجو تنظیم حزب
اﷲ نے شامی عوام کے خلاف جنگ مسلط کر رکھی ہے اور اس کے جنگجو سرحد عبور
کرکے ہمارے شہروں اور قصبوں میں داخل ہو رہے ہیں۔عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے
والے جارج صبرا نظریاتی طور پر کمیونسٹ ہیں ، انھیں شامی صدر بشار الاسد کے
والد حافظ الاسد کی حکموت کی مخالفت کی پاداش میں جیل میں ڈال دیا گیا تھا
اور آٹھ سال تک جیل میں قید رہے تھے ، بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مارچ
2011ء سے جاری احتجاجی تحریک میں قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔اسی طرح
لبنانی صدر مشعل سلیمان نے شیعہ ملیشیا حزب اﷲ پر زور دیا کہ وہ شام میں
جاری جنگ میں حصہ لینا بند کردے اور لبان لوٹ آئے کیونکہ اس کے شام میں
کردار کی و جہ سے اندرون ِ ملک کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔لبنانی صدر نے یہ
بیان حزب اﷲ کے سربراہ حسن نصر اﷲ کے اس اعلان کے بعددیا کہ جس میں انھوں
نے کہا تھا کہ ان کی تنظیم شامی تنازعے میں شریک رہے گی حزب اﷲ نے شام کے
وسطی صوبے حمص کے قصبے القصیر پر قبضے کی جنگ میں صدر بشار الاسد کی فوج کا
ساتھ دیا ہے اور اب وہ شمالی شہر حلب میں بھی شمای باغیوں کے خلاف ایک نئے
محاذ کی تیاریو ں میں ہے۔لبنان نے سرکاری طور پر تو شامی تنازعے کے حوالے
سے غیر جانبدارانہ موقف اختیار کئے رکھا ہے لیکن حزب اﷲ کے جنگجو اس وقت
شام میں باغیوں کے مقابلے میں صدر بشار الاسد کی کھلم کھلا جنگی ، سفارتی ،
سیاسی اور اخلاقی حمایت کر رہے ہیں۔حزب اﷲ کے جنگو علوی فرقے سے تعلق رکھنے
والے شامی صدر بشار الاسد کی وفادار فوج کے شانہ بہ شانہ خانہ جنگی کا شکار
ملک میں سُنی جنگجوؤں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔شام کے صدر بشار الاسد کا کہنا ہے
کہ شامی حکومت یہ جنگ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر لڑ رہی ہے۔ایران کی
جانب سے شامی حکومت کی بھرپور حمایت جاری ہے اور عراق کی جانب سے معذوری
ظاہر کی گئی کہ وہ ایران کو عراق کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے سے نہیں
روک سکتا۔انہی اطلاعات کے تناظر میں پاکستانی طالبان کی جانب یہ خبر آئی کہ
شام میں جاری جہاد پر نظر رکھنے کے لئے وہاں اڈا قائم کرلیا ہے۔ شام کی
خانہ جنگی اب مکمل طور پر فرقہ ورانہ جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے اور اس فرقہ
وارانہ خانہ جنگی کے نتائج خطے میں انتہائی نقصان دہ ثابت ہونگے۔شام کا
اپنی عوام کے خلاف جبری طاقت کا استعمال اور لبنان سے حزب اﷲ اور ایران کی
جانب سے تعاون حاصل ہونا جہاں شام کی عوام کیلئے مصائب کا سبب بن رہا ہے تو
دوسری جانب اب طالبان کی جانب سے شام کی خانہ جنگی میں حصہ لینے کے ساتھ
ساتھ عرب ممالک کی جانب سے شام کی حکمران جماعت کے خلاف باغیوں کو ہتھیاروں
کی فراہمی اور امریکہ کی جانب سے ایران کو اپنی حدود تک محدود رکھنے کی
خواہش نے ہزاروں بے گناہ شامی مسلمانوں کا خون بہا دیا ہے۔شام کی عوام کی
جانب سے تبدیلی حکومت کی مطالبات کے جواب میں حزب اﷲ شیعہ ملیشیا کی طرح
لبنان کے جنوبی حصے کے سُنی مسلمان عملی طور پر شامل نہیں ہوئے ہیں یہی وجہ
ہے کہ لبنان کے صدر کو پریس کانفرنس میں حزب اﷲ سے اور اقوام متحدہ میں
یادداشت پیش کئے جانے کی صورت میں حزب اﷲ پر زور دیا کہ وہ شام میں جاری
جنگ میں حصہ لینا بند کردے اور لبان لوٹ آئے کیونکہ اس کے شام میں کردار کی
و جہ سے اندرون ِ ملک کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔شام کی صورت حال میں طالبان کی
جانب سے" جہاد"کی صورت میں نگرانی کی ساتھ ساتھ عملی طور پر باقاعدہ
اعلانیہ آغاز ہوگیا تو پھر اس کے مضمرات سے پاکستان کے ساتھ پورے خطے میں
ایک نئی جنگ کا آغاز ہوجائے گا ۔دیکھنا یہی ہے کہ اقوام متحدہ کب تک خاموشی
سے یہ نظارہ دیکھتی رہی گی اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاوف ورزیوں پر
اپنے تضاد بھرے ایجنڈے پر کاربند رہے گی ۔یقینی طور پر یہ بھی عالمی اسکرپٹ
کا وہ حصہ ہے جس میں مسلمانوں کے درمیاں فقہی اختلافات کا فائدہ براہ راست
بین الاقوامی قوتیں اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتی ہیں اور تضادات کے اس
چومکھی کی لڑائیوں میں مسلمانان عالم اسی طرح کٹتے مرتے رہیں گے۔ |