لاہور کا غربت اور بے روزگاری کا ماراطاہر 3 بچوں کو نہر میں پھینک کر خود بھی مر گیا

گزشتہ دنوں ماہِ رواں (رمضان المبارک )کے پہلے عشرے رحمت میں غربت اور بے روزگاری کے ڈسے لاہور ایک تنگدست اور مفلس طاہر نامی تین بچوں کے باپ نے اپنے تین کمسن بچوں سمیت نہرمیں کودکرخودکشی کرلی،طاہر کا اپنے بچوں کے ہمراہ خودکشی کرنے کا المناک واقعہ میرے مُلک کے حکمرانوں، سیاست دانوں، مذہبی و سماجی رہنماو ¿ں کے لئے لمحہ فکریہ ہوناچاہئے تھا، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی نے بھی اِس واقعہ کو غیر معمولی نہ سمجھااور سب اِسے روزمرہ کامعمولی واقعہ سمجھ کر اندازکرگئے، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ غریب تو پیداہی مرنے کے لئے ہواہے، وہ ایک مرے یا کسی کو ساتھ لے کر مرے، اِس کی قسمت میں تو مرناہی ہے، سو اچھاہواکہ غریب مرگیا یا غریب مر گئے ، غریب طاہرہو یا اِس کے بچے، اورگلستانِ جوہر میں بیماربچے کی دوالے کر جانے والا کوئی غریب ٹیکس ڈرائیورہو جو رینجرز کے رکنے کا اشارہ کرنے پر نہ رکنے کی پاداش میںر ینجرز کی گولی کا نشانہ بنااور غریب ٹیکسی ڈرائیوراپنے بچوں کو تیم کرگیا،ہمارے حکمرانوں اور مذہبی وسماجی رہنماؤں کے نزدیک بس وہ غریب تھا، جومرگیاتو کیا ہوا...؟اِس کی حیثیت سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز پر چلنے والی خبروں اور بریکنگ نیوز اور ٹیکرز اور پرنٹ میڈیا میں چھپنے والی خبروں اور تصویروں سے زیادہ نہیں ہے۔

آج میرے مُلک میں امیروں اور طاقتوروں کا زورغریبوں پر چل رہاہے تو کہیں غربت اور غریبوں کا مقابلہ جاری ہے، اِس لڑائی میں کبھی غریب غربت کوماررہاہے،توکہیں غربت کی جیت ہوجاتی ہے ،توکہیں دونوں برابررہتے ہیں، مگرمیرے دیس میں زیادہ کریہی دیکھنے میں آیا ہے کہ غربت غریب کو مارکر فتح کا نشان بنالیتی ہے، لاہور کے طاہر کے ساتھ بھی غربت نے ایساہی کیا ہے، اِس واقعہ میں غربت کی وجہ سے ایک غریب اپنے تین کمسن بچوں کے ساتھ نہر میں کودکر مرگیااور حکمرانوں کے منہ پر ایک ایسازوردار طمانچہ مارگیاجس کی آواز تو بہت دورتک سُنائی دی ، مگر حکمرانوں پر اِس کا کوئی اثرنہیں ہوا۔کچھ بھی ہے مگرلاہور طاہر اور گلستانِ جوہر کراچی ٹیکس ڈرائیور کو انصاف ضرورملناچاہئے، کیوں کہ یہی انصاف کا تقاضہ ہے۔

کہنے کو تو میرادیس اپنے نام سے پہلے ”اسلامی “اور ”جمہوری “جیسے لفظوں کے استعمال کو اپنے لئے قابلِ فخرسمجھتاہے،مگرمعاف کیجئے گا، مجھے یہاں یہ کہنے دیجئے..!کہ اتفاق سے میرے دیس میں اِن دونوں لفظوں کا کال ہے، بہرحال...!یہ بحث اگلے کسی کالم کے لئے رکھ چھوڑتاہوں،مگر اِس حقیقت سے انکار نہیں کہ میرادیس ”اسلامی“ اور” جمہوری “ مُلک ہے،مگراِس کے باوجود بھی اِس میں کیا کچھ ہوتاہے ، اِس کے بارے میں دیکھئے کہ شاعرکیا کہتاہے:
یہ اسلامی حکومت ہے یہاں ایمان بکتے ہیں
غریبِ شہرکا کیا تذکرہ سُلطان بکتے ہیں
دلِ ناداں یہاں ایمانداری چل نہیں سکتی
یہ بازارِ سیاست ہے یہاں ایمان بکتے ہیں
اور میرے دیس میں بات یہیں ختم نہیں ہوتی ہے،
آج میرے دیس کا یہ عالم ہے کہ یہاں بقول شاعر:
اپنوں کی برچھیوں سے ہر ایک دل ہے زخم زخم
ٹپکے ہے آج خونِ جگر داغ داغ سے
اِس مُلک کو حریص لیٹروں نے کھالیا
” اِس گھرکو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“

یہ ظالم دنیا اتنی بڑی ہے کہ میں اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر بھی اِسے سمیٹاچاہوں تو بھی یہ میرے ہاتھوں کی گرفت سے باہررہتی ہے،آج ایک اندازے کے مطابق اِس کی کل آبادی ساڑھے چھ ارب سے بھی تجاوزکرچکی ہے،اوراِس میں بسنے والے ہراِنسان کی اپنی ایک فطرت ہے،جس کی وجہ سے ہر فردخود کو دوسرے سے منفرداور اعلیٰ سمجھتاہے، جبکہ اِس میں بسنے والے زیادہ ترلوگ احساس محرومی اور تنگدستی اور مفلسی کا شکار ہیں، دولت ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کے ہاتھوں میں گردش کرتی ہے، جن کے پاس دولت ہے ، وہ امیر سے امیر ترہوتے جارہے ہیں، اور جن کے ہاتھ خالی ہیں، وہ دولت سے محرومی کے باعث خطِ غربت کے نزدیک ہیں یا اِس پر اپنی زندگیوں کے دن گن رہے ہیں، وہ غریب سے غریب کر ہوتے جارہے ہیں اور جو بدقسمتی سے خطِ غربت سے بھی نیچے ہیں، آج اِن کے لئے زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوگیاہے، ایسے افرادجو خطِ غربت سے نیچے ہیں اِن بیچاروں کی سانسوں کا آناجانابھی مشکل ہوگیا ہے،اِن غریبوں کے گھروں میں آئے روز نئے نئے المناک واقعات جنم لیتے ہیں، جہاں دنیاکامیڈیاپہنچ جاتاہے یوں وہ دنیاکے سامنے آجاتے ہیں ، مگر بہت سے ایسے دردناک واقعات ہوتے ہیں، جو دنیاکی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں، وہ اِس تک نہیں پہنچ پاتے مگر پھر بھی دنیا کواِس بات کا یقین کرلیناچاہئے کہ خطِ غربت سے نیچے زندگیاں گزارنے والوں کے یہاں جتنے بھی واقعات رونماہوتے ہیں وہ سب واقعات انسان اور انسانیت کے لئے افسوسناک اور دردناک ضرور ہوتے ہیں۔

اَب غربت سے تنگ لاہور میں پیش آئے اُس واقعہ کو ہی دیکھ لیجئے جس میں طاہر نامی 3بچوں کے باپ نے اپنے بچوں سمیت نہر میں کودکر خودکشی کرلی، تفصیلات کے مطابق تھانہ ہیئرکے علاقہ رکھ کردت سنگھ کا رہائشی 28سالہ طاہرنامی محنت کش جو مقامی فیکٹری میں کام کرتاتھااور وہ کچھ عرصہ قبل فیکٹری سے فارغ ہوگیا، جبکہ دوماہ پہلے اِس کی بیوی گھریلو ناچاقی اور غربت سے تنگ آکرتین بچوں سمیت اپنے والدین کے گھر چلی گئی تھی، طاہر کو ماہ رمضان المبارک اور عید الفطر کی آمد پر فیکٹری سے فارغ کئے جانے کابہت غم تھا، کہ اِس مبارک ماہ سے قبل اِس کی نوکری چھن جانے سے غربت اور بے روزگاری کے اژدھے نے اِس کے گھرکے چولھے ٹھنڈاکردیئے ہیں، جس کااِسے شدت سے احساس ہو ا، اور اِس نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا گوارہ نہ کیا اور غربت سے مقابلہ کرتے ہوئے، اِس میں اتنی سکت بھی باقی نہ رہی کہ یہ غربت اور بے روزگاری سے مزید لڑتا، اِس نے اِسی میں بہتری جانی کہ”اپنے تین کمسن بچوں سمیت نہرمیں کود کرخودکشی کرلی جائے“ سو طاہر نے اپنی اِسی سوچ کو عملی جامہ پہنایااور یہ سمجھ کر تین بچوں سمیت نہر میں کود کرخودکشی کرلی کہ اِس سے غربت کو تو فتح نصیب ہوجائے گی ، مگر یوں میں بھی خاموشی سے ہار مان کر دنیا سے منہ موڑلوں گا،لاہورکے طاہر نے جو کیا وہ خلافِ شریعت تو ہے ہی مگر خلافِ ضابطہ بھی ہے، مگر میرے دیس سمیت دنیامیںبسنے والے ایک مجبور اور بے کس شخص کے نزدیک اِس سے بہترراہِ فرار کا اور کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے، اَب یہ ذمہ داری تو ہمارے حکمرانوں اور ہمارے معاشرے میں چپے چپے پر پھیلے ہوئے ، اُن مذہبی و سماجی رہنماو ¿ں کی بھی ہے توجو مُلک سے غربت ختم کرنے کے دعویدار ہیں ، آج طاہر کے واقعہ پر اِنہیں کیوں چپ لگ گئی ہے، طاہر کی خودکشی کرنے کی وجہ اِس کی گھریلوناچاقی ہویا کوئی اور...مگریہ حقیقت ہے کہ اِس میں سب سے زیادہ عمل دخل اِس کی بے روزگاری اور غربت کا ہے، آج اگر اِسے فیکٹری سے فارغ نہ کیاجاتاتو اِس کے گھر میں ناچاقی بھی نہ ہوتی ، اور غربت کی وجہ سے اِس کی بیوی بھی ناراض ہوکر اپنے میکے نہ جابیٹھتی اور طاہر اپنے بچوں سمیت یوں خودکشی بھی نہ کرتا، وہ محرکات تلاش کئے جائیں اور اِن کا دیرپاحل تلاش کیاجائے کہ آئندہ میرے دیس کا کوئی بھی طاہر غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے اپنے بچوں کے ہمراہ خودکشی نہ کرے،کہاجاتاہے کہ دنیا اور بالخصوص مسلم ممالک اگر اپنے وسیع دسترخواں کو ذراساسمیٹ لیں تو دنیا کے بیشترغریب ممالک کے لوگوں کو بھی خوراک میسرآجائے،یعنی صرف اُمت مسلمہ اگرماہِ رمضان المبارک میں ہی اپنی افطاری پر کئے جانے والے اخراجات اور لوازمات پر(جو روزانہ منوں ٹنوںکے حساب سے ضائع کردی جاتی ہیں) ذراسی توجہ دے دیںتو صومالیہ کے عوام کو ایک وقت کا کھانامل جائے، اور اگر ہمارے مڈل ایسٹ کے ممالک جن میں سعودی عرب اور ابوظہبی سمیت دیگرشامل ہیں اِن ممالک میں سحر و افطاری کے اوقاتِ کارمیں کھانوں کا جتناضائع کیا جاتاہے ، یہ اِس اسراف کو کنٹرول کرلیں ، توبہت سے غریب ممالک کے اُن غریبوں کو خوراک میسر آجائے گی ، جوخطِ غربت سے نیچے زندگیاں گزارنے پر مجبورہیں، کھاتے پیتے سعودی عرب جیسے اُمتِ مسلمہ کے ممالک کے حکمرانوں کے لئے میرامشورہ یہ ہے کہ سحروافطار کے اوقاتِ میں اپنے یہاں غریبوں (جن کا تناسب دیگرمسلم ممالک کی نسبت بہت کم ہے اُن )کے لئے جتنی نوازشیں کرتے ہیں اگراِن ممالک کے حکمران ذراسی حکمت سے کام لیں اوراُمتِ مسلمہ کے اُن غریب ممالک کے لوگوں پر بھی توجہ دیں، جو بہت غریب بلکہ خطِ غربت سے بھی نیچے زندگیاں گزاررہے ہیں ،رمضان اور عیدین کے مواقعوں پر اُن ہی کے ممالک میں ایسے فلاحی ادارے قائم کردیں ، جو کچھ نہیں تو صرف اِنہی ( ماہِ رمضان المبارک اور عیدین کے) ایام میں اِن غریبوں کے لئے خوراک اور نئے کپڑوں کا بندوبست کریں تو بہت سے غریبوں کے گھروں میں بھی رمضان اور عیدین کی خوشیا ں رقص کرنے لگیں گی اور غریب بھی اللہ کی نعمتوں کا شکراداکرتے ہوئے ،آپ اور آپ کے ممالک کی خیر وبرکت کے لئے دعائیں کریں گے، یوں اِن ممالک کے بہت سے طاہر اور اِس جیسے کروڑوں غریب اور بے روزگار افراد خودکشیاں کرنے سے بچ جائیں گے۔
مُحمدسمعیداعظم،
About the Author: مُحمدسمعیداعظم، Read More Articles by مُحمدسمعیداعظم،: 20 Articles with 14224 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.