کسی دانشور کا قول ہے: ”لوگ پیدا
ہوتے ہیں، جیتے ہیں اور پھر مر جاتے ہیں۔ جن لوگوں نے کوئی کارنامہ سرانجام
نہ دیا ہو، وہ بھلا دیے جاتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو دوسروں کے لیے جیتے ہوئے
اپنے اھداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں، وہ ہمیشہ لوگوں کے خیالات
اور عمل میں زندہ رہتے ہیں۔“ دنیا میں ایسی شخصیات پیدا ہوتی رہتی ہیں جو
ہمیشہ لوگوں کے خیالات و عمل میں زندہ رہتی ہیں۔ ان شخصیات میں جنوبی
افریقہ کے سابق صدر ”نیلسن منڈیلا “ کا نام بھی شامل ہے۔ نیلسن منڈیلا کی
زندگی جہد مسلسل کی ایک ایسی کتاب کی مانند ہے جس کی ہر سطر میں لوگوں کے
لیے کئی سبق پوشیدہ ہیں۔ آج نیلسن منڈیلا دنیا بھر میں آزادی کی علامت بن
چکے ہےں۔ نیلسن منڈیلا کو ان کی تحریک و خدمات کی بنیاد پر 250 سے زائد
انعامات سے نوازا گیا جن میں 1993 کا نوبل انعام برائے امن بھی شامل ہے۔
نیلسن منڈیلا کی امن و آزادی کے پرچار کے صلے میں 2009 میں اقوام متحدہ کی
جنرل اسمبلی نے 192 اراکین کی متفقہ قرارداد کے ذریعے یہ فیصلہ کیا تھا کہ
ہر سال 18 جولائی کو منڈیلا ڈے منایا جائے گا۔
سیاسی جدوجہد، ذاتی قربانیوں، 27 برس کی طویل قید بامشقت اور نسلی امتیاز
جیسے عفریت کے خلاف جدوجہد نےنیلسن منڈیلا کو ایک عظیم افریقی رہنما کے
درجے پر فائز کیا۔ وہ آزاد جنوبی افریقا کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے۔
صدارت کی مدت پوری کرنے کے بعد قومی سیاست سے دست کش ہونے کا اعلان کیا۔
نیلسن منڈیلا اپنے بارے میں کہتے ہیں: ”میں اس لمحے کی نشاندہی نہیں کرسکتا
جب میں نے سیاست سے متاثر ہوکر یہ سوچنا شروع کیا کہ مجھے اپنی زندگی آزادی
کی جدوجہد کے لیے وقف کردینی ہے۔“ ایک بار عدالت میں تقریر کرتے ہوئے نیلسن
منڈیلا نے کہا: ”میں نے ایک خواب دیکھا ہے، جس میں ایک مثالی ریاست ہو اور
وہاں تمام لوگ مل جل کر رہ رہے ہوں، بغیر کسی امتیاز کے انہیں انصاف مل سکے
اور مساوی حقوق حاصل ہوں۔ یہ ایک آئیڈیل معاشرہ ہوگا اور میں اس کی خواہش
میں مرنے کے لیے تیار ہوں“۔ جنوبی افریقہ ایک طویل عرصہ سفید فام اقلیت کی
طویل غلامی میں رہ چکا ہے۔ اس غلامی کے دوران اقلیتی سفید فاموں نے سیاہ
فام افریقی باشندوں کو جانوروں کی طرح رکھا ہوا تھا۔ ان پر بے انتہا تشدد
کیا جاتا تھا۔ جنوبی افریقہ کے قدرتی وسائل کو نکالنے کے لیے سیاہ فاموں سے
مشقت لی جاتی لیکن حاصل ہونے والی دولت میں سے ایک پائی بھی سیاہ فاموں پر
خرچ نہ کی جاتی۔ مظالم مسلسل بڑھتے رہے، ایسے میں نیلسن منڈیلا نے ایک
پرامن سیاسی پارٹی قائم کر کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کی۔ تحریک
نے زور پکڑا تو سفید فام حکمرانوں نے نیلسن منڈیلا کو جیل میں بند کر دیا،
جس سیل میں منڈیلا کو قید کیا گیا اس میں سورج کی کرن تک داخل نہیں ہو پاتی
تھی اور نہ ہی آسمان نظر آتا تھا۔
نیلسن منڈیلا نے صدیوں پرانے بدترین اور ظالمانہ نسلی امتیاز کے خلاف جس
قدر طویل اور شاندار جدوجہد کی، اپنے لوگوں کو سفید فام اقلیت کے سیکڑوں
برس پرانے جبرو استبداد سے آزاد کرایا، اس جدوجہد نے نیلسن منڈیلا کوایک
دیو مالائی کردار بنادیا۔ لیکن دیومالائی کرداروں کی بھی ایک ذاتی زندگی
ہوتی ہے۔ نیلسن منڈیلا 18جولائی 1918 کو کیپ ٹاﺅن میں پیدا ہوئے۔ ان کے
والد تھیمبورائل فیملی کے کونسلر تھے۔ جب نیلسن منڈیلا 9 سال کے تھے تو ان
کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد منڈیلا نے تھیمبو قبیلے کے چیف جوگن
نابا کے زیر نگرانی پرورش پائی۔ 1941میں نیلسن جوہانسبرگ چلے گئے۔ دو برس
”وٹس واٹر یونیورسٹی“ میں لاءکی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لے لیا۔ اسی
سال سیاسی جماعت افریقن نیشنل کانگریس (ANC) میں شمولیت اختیار کرلی اور
بعد میں وہ جماعت کی ذیلی تنظیم یوتھ ونگ کے بانی صدر بنے۔ 1952 میں نیلسن
منڈیلا نے پیشہ ور وکیل کے طور پر امتحان پاس کیا اور اولیونامبو نامی وکیل
کے ساتھ جوہانسبرگ میں وکالت کی پریکٹس شروع کردی۔ اولیورنامبو کے ساتھ مل
کر نسلی امتیاز کے خلاف مہم شروع کی اور اس سسٹم کو چیلنج کیا جس میں گورے
لوگ مظلوم کالوں کو اپنا غلام بنائے ہوئے تھے۔ 1956 میں نیلسن منڈیلا کو
بغاوت اور سازش کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا لیکن چار برس تک
عدالتوں میں مقدمات چلنے کے بعد ان کی بے گناہی ثابت ہوگئی۔ 1960 میں
افریقن نیشنل کانگریس پر پابندی لگادی گئی۔ مجبوراً نیلسن منڈیلا کو انڈر
گراﺅنڈ جان پڑا۔ گوروں کے خلاف مہم نے اس وقت زور پکڑا جب 1960 میں 69 سیاہ
فام افراد کو ایک ریلی کے دوران گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اس کے بعد منڈیلا
نے پرامن جدوجہد ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس وقت منڈیلا افریقن نیشنل
کانگریس کے نائب صدر تھے۔ منڈیلا نے سفید فام معیشت کو عملی طور پر سبوتاژ
کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں ایک بار پھر تخریب کاری، بغاوت اور فسادات کرانے
کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔
1964میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ 1968اور 1969 کے ایک سال کے عرصہ
میں نیلسن منڈیلا کی والدہ اور بیٹا فوت ہوگئے۔ انہیں اپنے بیٹے اور والدہ
کی آخری رسومات میں شرکت کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ 18سال انہیں ”رابن آئی
لینڈ“ کی جیل میں قید رکھنے کے بعد 1982 میں ”پولزمور“ کی جیل بھیج دیا گیا
جہاں وہ اپنی رہائی تک مقید رہے۔ نیلسن منڈیلا اور افریقن نیشنل کانگریس کے
دیگر رہنماﺅں کی قید کے دوران سیاہ فام نوجوان نسل نے ان کی تحریک کو زندہ
رکھا۔ اس دوران سیکڑوں اسکول اور کالج کے طلبہ ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔
1993میں منڈیلا کو امن کے لیے نوبل انعام ملا اور اس کے پانچ ماہ بعد نیلسن
منڈیلا بھاری اکثریت سے جنوبی افریقہ کے صدر منتخب ہوگئے۔ صدر بننے کے بعد
ان کے پاس دو آپشن تھے یہ کہ گوروں سے اپنے اور قوم کے ساتھ زیادتیوں کا
بدلہ لیں یا انہیں معاف کردیں۔ نیلسن منڈیلا نے دوسرا آپشن قبول کیا اور
یوں جنوبی افریقہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کردیا۔ صدارت سے فارغ ہونے کے
بعد بھی انہوں نے دنیا بھر کے دورے جاری رکھے اور مختلف عالمی رنماﺅں سے
ملاقاتوں کے علاوہ کانفرنسز میں شرکت کی۔ صدارت کے عہدے سے فارغ ہونے کے
بعد ان کی زیادہ ترپبلک میٹنگز کا محور منڈیلا فاﺅنڈیشن تھی جو کہ فلاحی
ادارہ ہے اور اس کے لیے فنڈ اکھٹا کرنے پر ان کی توجہ مرکوز رہی۔ اپنی 89
ویں سالگرہ کے موقع پر نیلسن منڈیلا نے دنیا کے بزرگوں کی تنظیم قائم کی جس
کا مقصد دنیا کو درپیش مشکلات اور مسائل کے حل کے لیے ان کی رہنمائی کرنا
تھا۔
نیلسن منڈیلا کی زندگی ہمارے لیے یہ واضح کرتی ہے کہ محنت اور مسلسل جدوجہد
سے ہر نا ممکن کام کو ممکن بنایا جاسکتاہے۔ کارہائے نمایاں سرانجام دینے کے
لیے ضروری ہے کہ آدمی سچی لگن کا مالک ہو۔جب سر میں کسی کام کا سوادا سما
جائے تو وہ ضرور انجام پذیر ہوتا ہے۔اس کی راہ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں
بنتی۔کامیابی اس کے قدم ضرور چومتی ہے۔ |