شامی باغیوں کی شکست کے اسباب

انقلاب اور اس کی کامیابی کے لیے اٹھنے والی مسلح یا غیر مسلح تحریکیں اس وقت کامیاب ہوتی ہیں جب تحریک میں شامل کارکن اپنے مشن کی حقانیت پر یقین رکھنے کے علاوہ مشن کے ساتھ مخلص بھی ہوں۔ گذشتہ چند سالوں میں عرب دنیا میں آمریت اور استبداد کے خلاف بہت ہی کامیاب تحریکوں نے جنم لیا اور کئی عشروں سے عوام پر حکومت کرنے والے حکمرانوں کو شکست و ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔

عرب ممالک میں شام کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا اور امید کی جارہی تھی کہ بہت جلد بشارالاسد حکومت سے علیحدہ ہوجائیں گے اور ملک میں جمہوریت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ لیکن اگر دقت نظر سے معاملے کا جائزہ لیا جائے تو شام کا مسئلہ دیگر عرب ممالک سے کافی مختلف ہے۔ سب سے پہلی مشکل شام میں یہ پیش آئی کہ یہاں بشارالاسد کے خلاف تحریک کا آغاز جمہوری طریقے کے بجائے انتہائی غیرجمہوری اور مسلح انداز میں کیا گیا۔ موجودہ دنیا میں اپنے حقوق کے لیے مسلح جدجہد کو اگر ناپسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا جاتا تو پسندیدہ نظروں سے بھی نہیں دیکھا جاتا۔ اس لیے باغی شام میں عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ دوسری اہم مشکل یہ پیش آئی کہ باغی ہر قسم کی مرکزیت سے عاری ہیں جس کا دل چاہا اس نے مسلح جدوجہد کا آغاز کردیا۔ بعض مبصرین باغیوں میں مرکزیت کے فقدان کی وجہ یہ قرار دیتے ہیں کہ شام کے مخالف ممالک کو یہ یقین ہوچلا تھا کہ بشارالاسد کی حکومت گرنے والی ہے اس لیے انہوں نے نئے شام میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کے لیے مختلف باغی گروہ تشکیل دینے شروع کردیئے یہاں تک کہ بعض ممالک نے تو دنیا بھر سے باغی اکٹھے کرکے شام روانہ کرنے شروع کردیئے۔ پاکستانی طالبان اور لشکر جھنگوی کے باغیوں کی شام روانگی کو اسی تناظر میں دیکھا جارہاہے۔

باغیوں کی ناکامی کی تیسری اہم وجہ کی طرف اشارہ کرنے سے پہلے ایک تحقیقاتی رپورٹ کی طرف اشارہ کردیں جو حال ہی میں امریکہ کے انٹرنیشنل سیکیورٹی انسٹی ٹیوٹ "RAND" کی طرف سے شائع ہوئی ہے اور جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ سالانہ کروڑوں ڈالر فوج میں بڑھتے ہوئے جنسی تجاوزات اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے نفسیاتی نقصانات کی روک تھام کے لیے خرچ کررہا ہے اور اس کی وجہ سے فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر بھی کافی برا اثر پڑ رہا ہے۔

ممکن ہے آپ سوچ رہے ہوں کہ اس رپورٹ کا شامی باغیوں کی ناکامی سے کیا واسطہ؟ مسئلہ کچھ یوں ہے کہ بعض مجاہد علماء نے ایک ایسا فتوی دیا جس کے بارے میں ہم نے مختلف علماء سے سوال کیا لیکن سب نے اس کی نفی کی وہ فتوی "جہاد النکاح" کے نام سے معروف ہے۔ اس فتوی کی روشنی میں مسلمان خواتین کو ترغیب دلائی گئی ہے کہ وہ شام میں جاری جہاد میں شرکت کریں اور جہاد میں مصروف باغیوں کو جنسی تسکین پہنچائیں۔ اس فتوی کی روشنی میں سوشل میڈیا پر دسیوں ایسی تصاویر دیکھی جاسکتی ہیں جس میں خواتین اور مرد باغی کسی محاذ پر اکٹھے موجود ہیں۔ مجھے اس فتوی کی شرعی یا غیر شرعی حیثیت سے کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ اس فتوے کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرنا علماء کا کام ہے لیکن اس فتوے اور اس کے نتیجہ میں جہاد میں شریک ہونے والی خواتین کی وجہ سے جہاد میں شریک باغیوں کی توپوں کا رخ کسی اور طرف ہوگیا ہے اور شام میں جاری بغاوت کا شاید وہ نتیجہ کبھی نہیں نکلے گا جو باقی عرب ممالک میں برآمد ہوا ہے۔
Dr Azim Haroon
About the Author: Dr Azim Haroon Read More Articles by Dr Azim Haroon: 10 Articles with 7655 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.