کہا جاتا ہے کہ ناول زندگی کا
آئینہ ہوتا ہے۔ ہمعصر زندگی کے نشیب وفراز کو جس عمدگی سے ناول میں سمیٹا
جاسکتا ہے دوسری کسی صنف میں نہیں ۔اس بات کی صداقت یوں بھی مستند ہے کہ ہر
زبان میں اس کی مثالیں موجود ہیں اور اردو ادب میں تو تاریخ نویسی کی ایک
کامیاب کوشش بہ اسلوب فکشن عینی آپا کرچکی ہیں اور اس کوشش میں اس قدر
کامیاب ثابت ہوئیں کہ انہیں اردو فکشن کا سیارۂ زحل قرار دیا گیا ۔بہر حال
اس وقت میرے پیش نظر ایک ایک ایسا مختصر ناول ہے جس کی مصنفہ کا تعلق اس
نئی نسل سے ہے جس پر یہ الزام عاید ہوتا ہے کہ وہ تخلیقی جودت سے بیگانہ
ہوچکی ہے ۔132صفحات پر مشتمل اس ناول کا عنوان ’’آؤ ٹرم لین‘‘ ہے جو دہلی
یونیورسٹی نارتھ کیمپس کے قریب واقع مکھرجی نگر کا وہ محلّہ ہے جہاں
مسابقاتی امتحان بطور خاص آئی اے ایس اور آئی پی ایس کی کوچنگ کے لئے سارے
ہندوستان میں مشہور ہے ناول نگار چونکہ اس محلہ میں خودر ہی ہیں اس لئے
وہاں کے ماحول کا نہایت باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے ۔خودکوچنگ اور
امتحانات کی تیاری کی ہے لہٰذا نوجوانوں کے شب وروز سے واقف رہی ہیں ۔ ایک
گاؤں سے تعلق ہونے کی وجہ سے زیادہ تر طلبہ جن کا تعلق دیہی معاشرے سے ہوتا
ہے کہ معاشی صورتحال کا اندازہ لگانے میں بھی مصنفہ کو دشواری نہیں ہوئی
ہوگی لیکن پورے ناول کی کہانی کو نیلوفر نے جس خوبصورتی سے مربوط کیا ہے وہ
اپنے آپ میں قابل ستائش ہے ۔ناول نگار کی اس جرأت کو بھی داد دینی ہوگی کہ
انہوں نے اس سے قبل تخلیقی ادب کے طور پر ایک کہانی بھی نہیں رقم کی اور
سیدھے سیدھے ناول لکھنے پر آگئیں اور جو تحریر پکی روشنائی میں شائع ہوکر
منظر عام پرآئی اسے پڑھکر یہ قطعی اندازہ نہیں ہوتا کہ محترمہ نووارد
ہیں۔موضوع کے اعتبار سے بھی یہ ناول منفرد ہے اور نہایت کا میاب کو شش بھی
جس کے ذریعہ آزادی کے بعد قائم ہونے والے ہمارے معاشرے میں رائج سسٹم پر
زبردست تنقید کی گئی ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ جمہوری طرز حکومت کے نام پر
ہمارے ملک میں نوکرشاہی رائج ہے لیکن انتظامیہ کو کنٹرول کرنے والے یہ
آفیسران جس ٹکسال سے نکل کر آتے ہیں اس ٹکسال کی حقیقت اس ناول کے ذریعہ
کھولی گئی ہے ۔ ایک اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’ویسے تم کیا سوچتے ہو کہ جولڑکے دس بیس نمبروں سے رہ جاتے ہیں وہ بالکل
اتنے گدھے ہوتے ہیں کہ ان کو ٹیچر کی نوکری بھی آفر نہ کی جائے بکواس ہے یہ
سارا سسٹم -ایک ہی لڑکا کبھی P.Tتک میں نہیں آتا اور کبھی فائنل میں ٹاپ
کرجاتا ہے ․․․․․․․․․سرکار لاٹری چلاتی ہے لاٹری ۔ایک ہزار کو چننے کے لئے
چار لاکھ نوجوانوں کو ریگستان میں لاکر چھوڑ دیتی ہے جہاں نہ پینے کا پانی
ہوتا ہے نہ ہی سرپر کسی پیڑ کا سایہ ۔ ہم جیسے لوگ دماغ رکھنے کے باوجود
چوہے کی طرح گرم ریت میں بل کھودنے پر مجبور ہوجاتے ہیں‘‘۔
ناول نگار نے معاشرے کی بے حسی کو پوری طرح بے پردہ کردیا ہے اور نہایت
سفّا کی سے وہ تمام حقائق اجاگر کردیئے ہیں جو اس صارفیت زدہ سماج کا
زائیدہ ہے اور جس پر اس عہد کو فخر ہے نوجوان نسل کو گمراہ کرنا اسی طرح کا
سنگین جرم ہے جیسا جرم دہشت گرد انجام دے رہے ہیں لیکن ملک کے دل میں کھلے
عام نوجوانوں کو منزل سے دور لے جاکر زندہ درگور کردینے کا کام نہایت
باوقار انداز سے ہورہا ہے اور پورا معاشرہ نیز حکومت خاموشی سے سب کچھ دیکھ
رہی ہے۔
ڈاکٹر نیلوفر نے ’’آؤ ٹرم لین‘‘ میں حقائق کو کہانی بنا کر پیش کیا ہے۔ یہ
ایک انقلاب کی چنگاری بھی ہوسکتی ہے لیکن اس معاشرے میں اس کی امید قطعی
نہیں کی جاسکتی جس معاشرے میں پیشمانی وگناہوں کے احساس سے ترجبینوں کو
محنت کش قرار دیا جائے ۔ لیکن ایک تخلیق کا ر نے اپنا کام بھی کردیا ہے اور
اپنے فرض کی ادائیگی بھی نہ صرف یہ بلکہ بلند وبانگ دعوے کرنے والی ایک نسل
کو یہ آئینہ بھی دکھادیا ہے کہ۔
پیروں تلے گر زمین ہوتی
پھر ہم بھی کوئی کمال کرتے |