انسان کی جو سوچ ہوتی ہے وہ کبھی
نہ کبھی زبان پر آہی جاتی ہے۔ انسان لاکھ جتن کرکے بھی اسے نہیں روک سکتا۔
صرف کچھ دیر کے لئے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن ہمیشہ کے لئے نہیں۔ یہی
وجہ ہے کہ سیاسی رہنما، افسر شاہ، دانشور اور مفکرین کئی بار اپنی سوچ پر
ملمع سازی کرکے اسے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور صیقل شدہ اس سوچ سے
عوام متاثر بھی ہوتے ہیں لیکن جلد ہی ان کی اصل فکر خواہ قول کے ذریعہ ہو
یا عمل کے توسط سے باہرآجاتی ہے۔ ہندوستان میں قول و عمل کے درمیان اس قدر
گہری کھائی ہے اس کا پاٹنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ بعض لیڈر قول کے
اعتبار سے بہت اچھے ہوتے ہیں لیکن عملی طور پر اتنے ہی برے ۔ کانگریس اور
بی جے پی میں دوری صرف قول و فعل کاہے۔ بی جے پی کی سوچ ہے کہ وہ جو کہتی
ہے وہ کرتی ہے مگر کانگریس کہتی ہے کچھ اور ہے لیکن کرتی وہی ہے جو بی جے
پی کا منشا ہوتاہے۔ آر ایس ایس کے ایک لیڈرنے ببانگ دہل کہا تھا کہ ’ہمارے
آدمی کہاں نہیں ہیں، بی جے پی میں بھی ہے اور کانگریس میں بھی ۔ کسی کے
کانگریس یا بی جے پی یا سماج وادی پارٹی یا بہوجن سماج پارٹی میں چلے جانے
سے ان کا نظریہ نہیں بدلتا۔ اس کی زبان بظاہر بدل جاتی ہے لیکن عملی طور وہ
وہی رہتا ہے جہاں اس کی پرورش ہوئی ہے۔وہ اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے کے لئے
بہ وقت ضرورت اپنا چولا بدلتا رہتاہے۔ خوہ وہ چولا سیکولرزم کا ہو یا
سوشلزم کا ہو یا فاشزم کا۔ اس کی منزل اقتدار ہوتی ہے۔ ہندوستان میں اگر
اکثریت سیکولرزم کے پیروکاروں کی ہوتی تو سنگھ پریوار کا دائرہ تمام
شعبہائے زندگی میں وسیع نہیں ہوتا۔دنیا کو دکھانے کے لئے کچھ لوگ فاشزم کے
مقابلے میں کھڑے ہوجاتے ہیں تاکہ ہندوستان کی آبرو بچی رہے ورنہ عملی طور
پر فاشزم کی بدروح تمام شعبوں میں سرایت کرچکی ہے۔ یہی فاشزم اور فسطائیت
گاہے بگاہے سیاسی رہنماؤں کی زبان سے نکل کر میڈیا کے حوالے سے ہم تک
پہنچتی رہتی ہے۔ دراصل یہ ایک اشارہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اب کیا
سلوک کرنا ہے۔ اس کا مقصد یہ پیغام بھی دینا ہوتا ہے کہ وہ جس لباس میں بھی
رہیں گے لیکن ان کی سوچ مسلم مخالف ہی رہے گی ۔ میڈیا اس لیڈر کو ایک ہیرو
کے طور پر پیش کرنے کے لئے ہم خیال دلالوں (صحافیوں ، تجزیہ کاروں، سیاسی
وسماجی ماہرین)کا ایک گروپ بلاکر بحث ومباحثہ کے ذریعہ اس بات کو طول دیتا
ہے اور اس کے پیغام کو گھر گھر پہنچاتاہے۔ اس طرح کے موضوعات پرجتنے بھی
پینل مباحثے ہوتے ہیں اگر پارٹی وابستگی نہیں ہے تو ہم نوالہ ہم پیالہ
نظرآتے ہیں۔ پارٹی وابستگی مجبوری ہوتی ہے اور صرف عام لوگوں کو فریب دینے
کیلئے ہوتا ہے۔ اینکر سمیت مباحثے میں حصہ لینے والے تمام پینلسٹ کا مقصد
ایسی سوچ رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ بھیدبھاؤ ، رنگ و نسل ذات
پات اور مذہب میں امتیاز ایک قانونی جرم ہے ۔ آئین کے مطابق ایسے افراد کو
انتخابات کیلئے نااہل قرار دینے کی گنجائش موجود ہے لیکن یہاں یہ محاورہ ہر
جگہ اور ہرمقام پر صادق آتاہے کہ’’ سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کا ہے
کا‘‘۔نریندر مودی نے خبر رساں ایجنسی رائٹر کے ساتھ حالیہ انٹرویو میں جس
نظریے اور سوچ کا اظہار کیا ہے وہ نہ صرف ان کی فکر ہے بلکہ یہ ان کی پارٹی
کی بھی سوچ ہے ورنہ پارٹی ان کی سوچ کہہ کر کنارہ کشی اختیار کرلیتی لیکن
پارٹی نریندر مودی کے دفاع میں پوری طرح اتر آئی۔جس سے واضح ہوگیاہے کہ
پارٹی بھی کی یہی سوچ ہے۔پارٹی کی نظر میں مسلمانوں کی حیثیت ایک کتے کے
پلے سے بھی کمتر ہے۔ بی جے پی لیڈروں کو کتے کے پلے کے درد کا احساس ہے
لیکن مسلمانوں کے قتل عام کا کوئی احساس نہیں ۔
رائٹر کے نمائندے کے گجرات فسادات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں
انہوں نے جو کچھ کہا، اس کے بعد یہ سوال ابھرکر سامنے آیا کہ کیا مودی نے
فسادات میں مارے گئے لوگوں کا موازنہ کتے کے پلے سے کر دیا ہے؟ان کے دل میں
کتے کے پلے کے لئے درد تو ہے لیکن گجرات فسادات میں مارے گئے انسانوں
(مسلمانوں)کے لئے کوئی درد نہیں ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا جو کچھ ہوا اس
کا انہیں دکھ ہے، تو انہوں نے کہا، 'دکھ تو ہوتا ہی ہے۔ اگر کتے کا بچہ بھی
گاڑی کے نیچے آجائے تو بھی دکھ ہوتا ہے۔ مودی نے کہا کہ ’اگر میں کار چلا
رہا ہوں اور میری کار کے نیچے ایک کتے کا پلا بھی دب جائے تو مجھے تکلیف ہو
تی ہے۔ میں وزیراعلی ہوں۔اگر کہیں پر بھی کچھ برا ہوتا ہے تو تکلیف ہونا
فطری ہے،مجھے احساس جرم تب ہوگا جب میں نے کوئی غلط کام کیا ہو۔ مجھے
مایوسی تب ہوگی جب میں نے چوری کی ہو اور وہ پکڑی گئی ہو۔ میرا کیس وہ نہیں
ہے۔ ریاست گجرات میں 2002 کے فسادات میں مسلمانوں کی ہلاکت کے حوالے سے
وزیر اعلی نریندر مودی نے کہا کہ انہیں تو کتے کی موت پر بھی دکھ ہوتا ہے۔
اس انٹرویو میں مودی سے جب پوچھا گیا کہ کیا انہیں اب بھی 2002 کے فسادات
سے جوڑ دیکھے جانے پر مایوسی ہوتی ہے تو انہوں نے کہا، لوگوں کو تنقید کرنے
کا حق ہے۔ ہم ایک جمہوری ملک ہیں۔ ہر ایک کا اپنا ایک نظریہ ہوتا ہے۔ میں
غلطی کا احساس اس وقت کروں گا جب لگے گا کہ میں نے کچھ غلط کیا ہے۔مایوسی
تب ہوگی جب لگے گا کہ کہ یار میں پکڑا گیا ... میں چوری کر رہا تھا اور
پکڑا گیا لیکن یہ میرا کیس نہیں ہے۔ مودی سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں گجرات
فسادات پر افسوس ہے، تو انہوں نے کہا، "میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں ہندوستان
کی سپریم کورٹ کودنیا کے سب سے اچھی: عدالتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سپریم
کورٹ نے ایس آئی ٹی بنائی اور اس میں سب سے قابل افسروں کو رکھا گیا۔ ایس
آئی ٹی کی رپورٹ میں مجھے کلین چٹ ملی۔ایک اور چیز، اگر کوئی شخص یا ہم کار
چلا رہے ہیں یا کوئی ڈرائیو کر رہا ہے اور ہم پیچھے بیٹھے ہیں، پھر بھی
چھوٹا سا کتے کا بچہ بھی اگر گاڑی کے نیچے آ جاتا ہے تو ہمیں ’پین فیل
‘ہوتا ہے کہ نہیں؟ ... ہوتا ہے۔اگر میں وزیر اعلی ہوں یا نہیں بھی ہوں۔ میں
پہلے ایک انسان ہوں اور کہیں پر بھی کچھ برا ہو گا تو دکھ ہونا بہت قدرتی
ہے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ کو لگتا ہے کہ 2002 میں آپ نے جو کچھ کیا وہ
بالکل ٹھیک تھا، تو انہوں نے کہا 'بالکل۔ جتنی عقل مجھے اوپر والے نے دی
ہے، جتنی میں نے تجربہ حاصل کیا اور ان حالات میں جتنی طاقت مجھے حاصل تھی،
اسے دیکھتے ہوئے جو کچھ میں نے کیا وہ بالکل درست تھا اور اسی بات کی تفتیش
ایس آئی ٹی نے کی تھی۔ ہاں، میں ہندو نیشنلسٹ ہوں انہیں خود کو ہندو قوم
پرست کہلانے میں کوئی جھجک نہیں ہے۔انہوں نے کہا، 'قوم پرست ہوں، میں محب
وطن ہوں،اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے، میں پیدائشی ہندو ہوں، اس میں بھی کچھ
غلط نہیں ہے۔ اس لئے ہاں، میں ہندو قوم پرست ہوں،یہ گناہ نہیں ہے۔
اس پورے انٹرویو میں نریندر مودی نے کہیں بھی گجرات میں مسلمانوں کے قتل
عام پر کوئی افسوس کا اظہار نہیں کیا اس کے برعکس انہوں نے مسلمانوں کی
تذلیل کے لئے اس کا موازانہ کتے کے پلے سے کردیا۔ اس کی سوچ واضح تھی کہ
اگر ایک کتا کا پلامر جائے تو انہیں افسوس ہوگا لیکن مسلمانوں کے قتل عام
پر انہیں کوئی افسوس نہیں ہوگا۔ معاملہ یہیں پر نہیں رکا بلکہ انہوں نے
دیدہ دلیری کی حد پار کرتے ہوئے کہہ دیا 2002 کے گجرات قتل عام کے دوران
انہوں نے جو کچھ کیا وہ درست تھا۔ یعنی مسلمانوں کاجو قتل عام ہوا ہے وہ
جائز ہے۔ گجرات کے مسلمان اسی لائق تھے کہ انہیں قتل عام کیا جائے، ان کی
خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی جائے، حاملہ خاتون کے شکم کو چیر کو بچہ کو
نکالا جائے اور تلوار کی نوک پر اس کی نمائش کی جائے۔ اس قتل کو اقوام
متحدہ نے قتل عام قرار دیا ہے۔اس قتل پر اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری
واجپئی کو شرمندی کا احساس ہورہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں باہر کون سا
منہہ لے کر جاؤں گا اور نریندر مودی کو نصیحت کرتے ہوئے انہیں ’راج دھرم‘
نبھانے کا مشورہ دیا تھااس وقت بھی نریندر مودی نے دیدہ دلیری کا ثبوت دیتے
ہوئے کہا کہ میں ’راج دھرم‘ (یعنی مسلمانوں کا قتل عام کرنا ) ہی نبھارہا
ہوں۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف نریندر مودی نے ہی اس طرح کا بیان دیا ہے۔ بی جے پی کے
رہنماؤں کو مسلم مخالف مسلم دل آزاری والا بیان دینے میں مہارت حاصل ہے۔
کچھ سالوں قبل سابق وزیر اعظم اور بی جے پی کے سینئر رہنما اٹل بہاری
واجپئی وارانسی کے ایک جلسہ عام میںیہ کہہ چکے ہیں بی جے پی کو مسلمانوں کے
ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔اسی طرح بی جے پی کے دیگر رہنماؤں کے بیانات جگ
ظاہر ہیں۔گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی نے کانگریس کی صدر محترمہ سونیا
اور ان کے بیٹے اورکانگریس کے جنرل سکریٹری راہل گاندھی کے بارے میں نازیبا
زبان استعمال کرتے ہوئے2007کے گجرات اسمبلی کے انتخابی جلسے میں کہا تھا کہ
انہیں یہاں کوئی مکان کرایہ پر بھی نہیں دے گااور راہل گاندھی کے بارے میں
یہاں تک کہہ دیا تھاکہ انہیں یہاں کوئی ڈرائیور بھی رکھنا پسند نہیں کرے
گا۔ سنت کبیر نگر کے خلیل آباد کے چوراہے پر ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے
ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی ممبر پارلیمنٹ اور فائر برانڈ لیڈر یوگی آدتیہ
ناتھ واضح لفظوں میں کہا تھا کہ مسلمانوں سے ووٹ دینے کا حق چھین لینا
چاہئے۔ورون گاندھی اور بی جے پی کی زہریلی سی ڈی لوگوں کے ذہن سے محو نہیں
ہوا ہوگا۔ جس کی پاداش میں ورون گاندھی کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی
تھی۔کچھ سال قبل ہی مئی کے مہینے میں تخفیف تجاویز کے دوران پارلیمنٹ سے
غیر حاضر ہونے کی وجہ سے انہوں نے راشٹریہ جنتا دل کے قومی صدر اور سابق
وزیر ریلوے لالو پرساد یادو اور سماج وادی پارٹی کے قومی صدر ملائم سنگھ
یادو کے بارے میں غیر اخلاقی ریمارکس پاس کیا تھا۔ اس میں انہوں نے دونوں
رہنماؤں کے بارے میں چندی گڑھ کے ایک عوامی جلسے میں اخلاقی دیوالیہ پن کا
ثبوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’لالوپرساد یادو اور ملائم سنگھ یادو شیر کی
طرح غراتے ہیں مگر کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے گھرجاکر کتے کی طرح تلوے
چاٹتے ہیں‘‘۔اس بیان کی چہار جانب سے سخت مذمت کی گئی تھی۔ اس پر نتن گڈکری
نے معافی بھی مانگی تھی لیکن مسٹر لالو پرساد یادو نے معافی قبول کرنے سے
انکارکردیا تھا۔یہ ایسا بیان تھااس سے پہلے اس طرح کی غیر مہذب زبان
استعمال نہیں کی گئی تھی۔ نتن گڈکری نے پرانی روش پر قائم رہتے ہوئے
کانگریس اور اس کے لیڈروں کے خلاف دل آزار زبان کا استعمال شروع کردیا تھا۔
انہوں نے افضل گرو کے معاملے میں کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے اپنے تمام حدود
کو پار کرگئے۔ مسٹر گڈکری نے دہرہ دون میں ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے
کانگریس سے پوچھا تھا کہ وہ افضل گرو کا اس طرح دفاع کررہی ہے جیسے وہ اس
کا داماد ہو۔لیکن بدزبانی، بدتمیزی، بدخلقی، دل آزادی اور نسلی امتیاز کے
حق میں بیان دینے کی سزا ن لیڈران کونہیں ملتی اور کبھی یہ اپنی سزا کے
منطقی انجام تک نہیں پہنچتے۔یہی وجہ ہے کہ یہ رہنما خود کو قانون سے بالاتر
گردانتے ہیں۔جو دل میںآتا ہے بولتے ہیں جو من کرتا ہو کرتے ہیں کیوں کہ
انہیں یہ معلوم ہے کہ ان کا کچھ نہیں بگڑے بلکہ سیاست میں ان کا قد اونچا
ہی ہوگا۔جس دن ایسے لیڈروں کو سزاملنی شروع ہوجائے گی اسی دن سیاست میں غیر
شائشتہ بیان بازی کا دروازہ اپنے آپ بند ہوجائے گا۔
کتے کی مثال کے ان کے اس بیان پر کئی حلقوں کی طرف سے شدید رد عمل ہوا
ہے۔اس کے لئے علاوہ انہوں نے پونے کے ایک کالج میں سیکولرزم کی مثال برقعہ
سے دیتے ہوئے اسلامی شناخت کا مضحکہ اڑانے کی کوشش کی ہے ۔وہ سیکولر زم کا
چولا بھی کہہ سکتے تھے۔ اس کا واضح مقصد ہندو انتہاپسندی کو فروغ دینا ہے
اور مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کا صف تیار کرنا ہے۔یہ بیان بھی حسب سابق دیگر
بیانوں کی طرح میڈیا میں چھایارہا۔ ہندوستان میں اگر مسلمانوں کی دل آزاری
کی کوئی بھی بات کی جائے اس سے کرنے والا کو ہی فائدہ ہوتا ہے کیوں کہ
ہندوستانی آئین ایسے لوگوں کو سزا دینے میں لاچار محسوس کرتا ہے۔ہندوستان
میں ایسے شخص کو ایک بڑا ہیرو تصور کیا جاتا ہے اور اس کی حمایت میں زمین و
آسمان ایک کردیا جاتا ہے۔مسلمان اگر اس پر کوئی ردعمل ظاہر کرتے ہیں تو
انہیں نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جانی و مالی نقصان کے علاوہ
انہیں لامتناہی نفرت کے سلسلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مسلمانوں نے جب بھی
کوئی ردعمل ظاہر کیا اسے ہندوستان مخالف قرار دیا گیا۔ اس بیان کے ذریعہ
مودی نے ایک کمیونٹی کی توہین کی ہے۔یہ سب کچھ طے شدہ پالیسی کے تحت کیا
جارہاہے۔ دراصل یہ سب کچھ 2014کے لوک سبھا کے عام انتخابات کی تیاری کا پیش
خیمہ ہے۔ نریندر مودی کی کوشش ہے کہ مسلمان اس طرح کے بیانات پر کسی ردعمل
کا اظہار کریں اور ان کے خلاف فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے ۔
اترپردیش میں امت شاہ کو یوپی کا انچارج بنانااسی سلسلے کی کڑی ہے۔ بہت
ممکن ہے کہ پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگریز مہم شروع کی جائے۔
مسلمانوں کو نہایت تحمل سے کام لیتے ہوئے اس طرح کے حالات سے نمٹنے کا
طریقہ کار وضع کرلینی چاہئے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کی کوشش ہے کہ
نریندر مودی کو سامنے رکھ کر کسی بھی حالت میں 2014کے لوک سبھا انتخابات
میں فتح حاصل کی جائے خواہ وہ فتح خون بہاکر ہی کیوں نہ ملے۔اس کے دماغ میں
یہ بات گھر کرگئی ہے کہ بی جے پی اشتعال اور فسادات کے ذریعہ ہی اقتدار پر
قابض ہوسکتی ہے۔ گزشتہ سال سے جاری اترپردیش میں فسادات کی لہر کو اسی
آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ |