شام میں لبنان کی ملیشا تنظیم
حزب اﷲ اور ایران کی مدد سے شامی عوام کے خلاف بشار الاسد کی جانب سے شامی
عوام کی آواز کو دبانے کی کوشش میں اب تک پچانوے ہزار سے زائد افراد جاں
بحق ہوچکے ہیں۔شام میں دیگر عرب ممالک کی طرح جابر حکمران تبدیلی کا عمل
شروع ہوا تو اسے بغاوت سے تعبیر کرکے بزور طاقت دبانے کی کوشش کی گئی اور
ہزاروں نہتے اور بے گناہ انسانوں کے خون سے زمین رنگین ہونے لگی۔ذرائع
ابلاغ کے توسط سے دنیا میں یہ خبر پہنچی کہ طالبان اور لشکر جھنگوی نے بھی
اس"جہاد"میں حصہ لینے کیلئے مانٹرنگ اڈا قائم کردیا ہے۔اس سے پہلے ایک اور
خبر جس نے دنیا کی توجہ شام کی جانب مبذول کروائی لیکن اس پر سنجیدگی سے
غور کرنے کے بجائے در گذر کردیا ۔ وہ خبر تھی کہ شام میں صدر بشار الاسد کے
خلاف لڑنے والی " فری سیرین آرمی"میں خواتین کی ایک اچھی خاصی تعداد نے بھی
شمولیت اختیار کی ہے جن کی شام کے شہر حلب کے ایک کیمپ میں تربیت جاری ہے،
شام میں گذشتہ دو سال سے جاری جنگ کے باعث پچانوے ہزار سے زائد افراد ہلاک
ہوچکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔دوسری جانب اُسی
اقوام متحدہ میں پاکستان کے علاقے سوات کی سولہ سالہ لڑکی ملالہ یوسف زئی
تالیوں کی گونج میں کہہ رہی تھی کہ"یوم ملالہ میرا دن نہیں ہے ۔ آج کا دن
ہر اس عورت ، لڑکی اور لڑکے کا دن ہے جو اپنے حق کیلئے آواز بلند کرتا
ہے۔دنیا میں انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے سینکڑوں ورکر ہیں جو انسانی
حقوق کے علاوہ تعلیم عام کرنے اور امن و مساوات کیلئے کام کر رہے ہیں ۔
دہشت گردوں کے ہاتھوں ہزاروں لوگ مارے جارے گئے ہیں لاکھوں لوگ زخمی ہوئے
ہیں۔ میں ان میں سے ایک ہوں۔"نہ جانے ملالہ یوسف زئی نے کیوں ذکر نہیں کیا
کہ جس اقوام متحدہ میں کھڑے ہوکر اُن کے ستائشی کلمات اور تالیوں کا شکریہ
ادا کر رہی ہیں ۔ اسی اقوام متحدہ کی جانب سے ملالہ یوسف زئی کی پختون و
مسلم قوم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور ملک بھر کی افواج نے افغانستان
کو تاراج کردیا۔اپنے مفادات کیلئے امریکہ کی قائم کردہ اس اقوام متحدہ میں
بلا امتیاز کاروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ ان کی پر اس سچائی پر پَر کیوں جلتے
ہیں کہ عرب ممالک میں عوام کو بغاوت کی جانب مائل کرکے اس نے کروڑوں بچوں
کو تعلیم کے حق سے محروم کیا ۔ افغانستان پر جارحیت کرکے لاکھوں بچے بچیوں
کو تعلیم سے دور کیا۔ پاکستان میں اپنی دوہری پالیسی کے سبب تشدد اور ڈرون
حملوں کی سبب ان لاتعداد بچوں کو جلا کر خاکستر کردیا ، ملالہ یوسف زئی
اقوام متحدہ میں ان سے نہیں پوچھتی کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں کتنی ملالہ
شہید ہوچکی ہیں۔ کیا ملالہ یوسف زئی یہ بھی نہیں جانتی کہ اسلام میں تعلیم
مر و عورت پر یکساں فرض کی گئی ہے۔کیا ملالہ یہ بھی نہیں جانتی کہ ا مت کی
مائیں ، نو مسلم ہونے والے مسلمانوں کی تربیت و انھیں تعلیم دیا کرتیں تھیں
اور کیا ملالہ یہ بھی نہیں جانتی کہ اسلام کی پہلی فقہ کی مفکر اور مفسر
قرآن وسنت ﷺ ھضرت عائشہ رضی اﷲ تعالی عنہا تھیں ۔یقینی طور پر ملالہ کو وہی
تعلیم دی گئی ہے جو اس کے اسکرپٹ لکھنے والوں کی ضرورت تھی۔ ورنہ وہ یہ بھی
جانتی کہ جس حکومت کے زیر سایہ وہ تعلیم کی باتیں کر رہی ہے اسی تاج
برطانیہ نے جب افغانستان میں بلا سبب لشکر کشی کی تو وہ بھی ایک ملالئی تھی
جس نے اپنے ڈوپٹہ کو جھنڈا بنا کر بندوقوں کے آگے سینہ سپر ہوئی اور دنیا
کی مضبوط فوج کو مار بھاگا یا۔آج پاکستان میں تعلیمی اداروں میں بچیوں کی
تعلیم کے نام پر مد پدر آزادی دینے کیلئے یو ایس ایڈ اور فری میسن گروپ کیا
کردار ادا کر رہا ہے ، ملالہ کو اس پر بھی بات کر نی چاہیے تھی۔ اس کے پاس
بڑا اچھا موقع تھا کہ وہ اقوام متحدہ میں لارڈ بدھا کے پیروکاروں سے اپیل
کرتی کہ برما میں بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی مت کھیلو اور انھیں بے
دردی سے قتل عام مت کرو۔ باچا خان بابا کی تعلیمات کا ذکر کرتے ہوئے کیوں
بھول گئی کہ باچا خان بابا نے تو ساری عمر استعماری قوتوں کے خلاف تعلیمی
جہاد کیا اور اپنا حق مانگا۔لیکن اس کے نام نہاد جانشنیوں نے پختون قوم کا
سودا کبھی روس کیلئے کیا تو کبھی امریکہ کیلئے اور آج اسی اقوام متحدہ
کیلئے پاکستان کا ذرہ ذرہ دہشت گردی کی لیپٹ میں ہے ۔ جہاں بچیوں کو نہیں
بلکہ مسلمانوں کو اسلام کے نام پر ، تو کبھی فرقے کے نام پر مارا جا رہا ہے
۔آج شام میں جس طرح فرقے کے نام پر مسلمانوں کو ٹینکوں کے نیچے روندا جا
رہا ہے تو وہاں پر بھی تو کئی معصوم ملالئی ہیں جنھوں نے اپنی نسل کشی
کیخلاف بچوں کی زندگیوں کیساتھ اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کرنے کیلئے ہتھیار
ہاتھوں میں اٹھا لئے ہیں۔ بھلا اقوام متحدہ یہاں امن کیلئے قیام کیلئے پس و
پش سے کام کیوں لے رہی ہے ۔ برما میں مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش کیوں
ہے۔ فلسطین میں اسرئیلی جارحیت کیخلاف اس کے لب کیوں سل جاتے ہیں ، مقبوضہ
کشمیر میں مسلمانوں کیساتھ بھارتیوں کے ظلم و ستم پر اس کے قدم آگے بڑھنے
سے کیوں ہکچا رہے ہیں۔شائد ملالہ یوسف زئی نہیں جانتی کہ انسانی حقوق کی
شامی تنظیم آبزوریٹری کے مطابق شام کے شہر حلب کے دریا کیو وائق جوکہ جنوب
مغرب میں بہتا ہے وہاں 68لاشیں ملیں جس میں نو عمر بچوں کی تعداد زیادہ ہے
۔ ان سب کو کیپٹن ابو صدا کے مطابق بشار الاسد کی حکومت نے قتل کیا ۔ملالہ
یوسف زئی یہ کوئی پروپیگنڈا نہیں ہے بلکہ انسانی حقوق کی آبزرویٹری نے ایک
ویڈیو یو ٹیوب پر جاری کی جس میں کیمرہ مین دریا کے کنارے چلتا جا رہا ہے
اور کنکریٹ کے راستے پر پچاس لاشیں نظر آرہی ہیں۔ اکثر لاشوں کے ہاتھ کمر
کی پشت پر بندھے ہیں ، چہرے زرد اور بدن پھولے ہوئے ہیں ان میں سے اکثریت
نو عمر لڑکوں کی ہے جو جینز پہنے ہوئے ہیں۔ملالہ یوسف زئی تم نے درست کہا
کہ افغانستان اور پاکستان میں لاتعداد بچے اسکول دہشت گردی کی وجہ سے نہیں
جا سکتے ، لیکن ان پر یہ دہشت گردی مسلط کس نے کی ۔ ویتنام ، جاپان ،
ہندوستان اور افغانستان میں جارحیت کرنے والے کون ہیں ۔ کیا یہ سب طالبان
تھے ؟۔یقینی طور پر تمھارا مطالعہ ابھی کافی کم ہے ورنہ تم اقوام متحدہ کے
مندوبین کی تعریف کے ڈونگرے وصول کرنے کرنے لئے حضرت محمد ﷺ کی ذات مبارکہ
کو کبھی لارڈ بڈھا ، مہماتما گاندھی ، لوتھر کنگ ، نیلسن مینڈہلا کے ساتھ
نہیں ملاتی ، تمھارا یہی عمل دیگر مسلمان بچیوں کے دلوں کو مشکوک بنا دیتا
ہے کہ جب حضرت محمد ﷺ کی ذات مبارکہ کی توہین پر مبنی گستاخانہ فلم کیخلاف
مسلم امت سراپا احتجاج بنی ہوئی تھی تو ایسے وقت میں امریکہ اور ان کے
صلیبی اتحادیوں نے توجہ ہٹانے کیلئے تمھارے واقعے کو اس قدر بڑھایا کہ
میڈیا میں توہین رسالت ﷺ پر مبنی احتجاج پس پشت چلے گئے، کاش تم اُس گستاخ
رسول کا ذکر بھی کر پاتی۔ یو یان او کے فلور پر تمھارا اعتماد قابل دید تھا
لیکن تم افغانستان کی ملالئی اور شام میں موجود اُن ملالہ کے اعتماد کو
دیکھو جنھوں نے اسلام اور اپنی قوم کی احیا ء و بقا کیلئے اپنے نازک ہاتھوں
میں قلم کے بجائے ہتھیار اٹھا لئے ہیں۔کیا تم کبھی ان پر بھی کچھ کہہ سکو
گی ، کیا گورڈن براؤن تمھارے فنانسر کو تم قائل کر لو گی کہ ہ مسلمانوں کے
خلاف عالمی سازشوں میں ان کی حکومتیں انسانیت کی قوانین کا احترام کریں اور
امریکہ کی جانب سے نائن الیوں میں صلیبی جنگوں کے آغاز کے اعلان پر
مسلمانوں سے انتقام کی سیاست ترک کرکے قتل عام بند کریں۔ اربوں ملین ڈالر
جنگ میں جھونکنے کے بجائے تعلیم کیلئے وقف کردیں ۔ کاش ملالہ تم یہ سب کہہ
پاتی ۔۔ !!! |