کراچی کا صوفی محمد کون؟ از سید احمد علی رضا
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
معروف ویب سائٹ کراچھی اپڈیٹس میں سید احمد علی رضا صاحب کا مضمون شائع
ہوا،کراچی کے حالات پر لکھے گئے اس مضمون کی اہمیت کے پیش نظر میں نے اس کو یہاں
پوسٹ کیا ہے
عروس البلاد کراچی میں جاری خونریزی کے واقعات میںتشویشناک حد تک تیزی آگئی ہے اور
متحارب گروپوں میں ٹارگٹ کلنگ کے نتیجہ میں گزشتہ چندروز کے دوران 45 کے قریب صرف
سیاسی کارکن ہلاک ہوچکے ہیں۔ گزشتہ10روز میں مجموعی طور پر 70 سے زائد افراد کی
ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ بدقسمتی سے ان ہنگاموں میں حکومتی اتحادی جماعتوں، پیپلز پارٹی،
متحدہ اور اے این پی کے کارکن بھی لپیٹ میں آئے ہیں۔ جس سے عوام میں ان خدشات نے
جنم لینا شروع کردیا کہ اگر حکمران جماعتیں اپنے کارکنوں کی زندگیوں کا تحفظ نہیں
کرسکتیں تو عام شہریوں کا تحفظ کیسے کریں گی؟ کراچی کے شہریوں میں عام تاثر یہی ہے
کہ موجودہ خونریز واقعات حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں پیپلز پارٹی، متحدہ اور اے
این پی کی اپنی اپنی سیاسی حیثیت کو منوانے کی کش مکش کا شاخسانہ ہیں۔ خونریزی کے
ان واقعات کے نتیجہ میں کراچی میں کاروبار زندگی ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے اور ہر جانب
خوف ہی خوف طاری ہے۔
قارئین۔۔۔
ٹارگٹ کلنگ میں کون کون ملوث ہے اور یہاں سوات کے”صوفی محمد“ کا کردار کون ادا کر
رہا ہے یہ بات اہل کراچی بخوبی جانتے ہیں۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ یا مخالفین کو ہدف
بناکر قتل کرنے کا سلسلہ نیا نہیں ہے لیکن اس کے اہداف بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی تو
جماعت اسلامی کے راہ نما، کارکن اورکبھی کالجوں میں اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان
نشانہ بنتے ہیں۔ مہاجرقومی موومنٹ بھی الطاف حسین سے بغاوت کے جرم میں اب تک معتوب
ہے۔ دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان بھی قتل ہوئے ہیں۔ لیکن ان مقتولوں
میں2افراد ایسے بھی ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ قبل متحدہ قومی موومنٹ کو اپنے معافی
نامے جمع کروا دیئے تھے۔
کراچی جسے منی پاکستان اورروشنیوں کاشہر کہاجاتا تھا اس کی رونقوں اورگہماگہمی
کوضیا الحق کے دور سے نظرلگنی شروع ہوگئی تھی۔ سابقہ آمر نے پیپلزپارٹی کی قوت
کوسبوتاژ کرنے کیلئے مختلف نئی سیاسی جماعتوں کی حوصلہ افزائی کی۔ جس کے بعد سے اس
شہرمیں فرقہ واریت اورمہاجر، سندھی، پختون، پنجابی کی بنیاد پرلسانی
ہنگاموںاورفسادات کاسلسلہ وقفہ وقفہ سے بھڑک اٹھتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ
ایسی وارداتوں کے بعد قاتل پکڑے نہیں جاتے یقیناان کی عدم گرفتاری میں سیاسی دباو
بھی شامل ہوتاہے۔اب ایک بار پھر لوگ مارے جارہے ہیں اور کسی بھی وقت کوئی بڑا تصادم
ہوسکتاہے۔
سندھ میں حکومت کا حصہ ہونے اور کراچی کی شہری حکومت متحدہ کے پاس ہونے کے باوجود
جناب الطاف حسین اپنی جان کے خوف سے کراچی واپس آنے پر تیارنہیں ہیں۔ ان کے کارکن
مارے جارہے ہیں مگر ایک عام کارکن کی جان کی حیثیت ہی کیا؟ کتنا اچھا ہوتا اگرالطاف
حسین طالبانائزیشن کا واویلا لندن میں بیٹھ کر مچانے کے بجائے کراچی واپس آکر یہ
کشت وخون بندکرواتے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہرکراچی میں ٹارگٹ کلنگ ہی نہیں ہرطرح کے جرائم بلاروک ٹوک
ہورہے ہیں۔ بینک ڈکیتیاں عام ہیں۔ رہزنی معمول بن چکی ہے۔ معروف اور مصروف ترین
شاہراوں پر دن دیہاڑے بسیں لوٹ لی جاتی ہیں۔ حکام یہی دعوے کرتے رہتے ہیں کہ جرائم
پرقابو پالیاگیا ہے لیکن کراچی کا ایک عام شہری اچھی طرح جانتاہے کہ صحیح صورتحال
کیاہے۔ صبح کو گھرسے نکلنے والا شام کو خیریت سے واپس پہنچ جائے تو وہ اور اسکے
گھروالے بھی شکراداکرتے ہیں۔ اب جبکہ وفاق ہی نہیں صوبوں میں بھی وزیروں اور مشیروں
کی ایک فوج ظفر موج موجود ہے اور سندھ میں کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں شریک ِ
اقتدار ہیںتو شہر اور صوبہ میں امن و امان برقرار رکھنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی
چاہئے۔ لیکن کراچی کے بگڑے ہوئے حالات اس بات کی واضح طورپر نشاندہی کرتے ہیں کہ
منتخب جمہوری نمائندوں میں گڈگورنس مہیا کرنے کی اہلیت و صلاحیت موجود ہی نہیں ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ کاشرپسندوں کو موقع پر ہی گولی مارنے کا حکم ”روئی کا گولا“ ثابت
ہوا ہے کہ اس حکم کے بعد بھی دہشت گرد شہر میں دندناتے پھررہے ہیں اور اس کے
باوجودحملہ آور نامعلوم ہی ہیں۔
قارئین۔۔۔
سوات و مالاکنڈ آپریشن کے بعد کراچی میں بھی سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔ پولیس کے علاوہ
رینجرز کے جوان بھی شہر میں گشت کر رہے ہیں۔ ان کی موجودگی کے باوجود اس طرح کے
واقعات حکمرانوں کے لئے سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ ایسے لوگ جوملک کے سب سے بڑے شہر کا امن و امان تہہ و بالا کرنا چاہتے ہیں ان کے
خلاف آہنی ہاتھ سے کارروائی کیوں نہیں کی جارہی؟ جب مسلح دہشت گردگاڑیوں میں گشت کر
رہے تھے اس وقت ہائی الرٹ پولیس اور رینجرز کہاں تھے؟ شہر میں ناجائز اسلحہ کی
موجودگی کے خلاف آخر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟خونریز واقعات کے پس پردہ جو
بھی عوامل کارفرما ہیں، ان سے نمٹنا حکومت ہی کی ذمہ داری ہے جو اس میں قطعی ناکام
نظر آرہی ہے جبکہ انتہاءپسند عناصر کے ساتھ( چاہے وہ جس بھی جماعت سے تعلق رکھتے
ہوں) آہنی ہاتھوں سے نمٹے بغیر حالات پر قابو نہیں پایا جاسکتا ۔
اس سلسلہ میں بہتر یہی ہے کہ کراچی میں گھر گھر تلاشی لے کر وہاں موجود ہر قسم کا
اسلحہ برآمد کرکے بحق سرکار ضبط کر لیا جائے۔ پیپلزپارٹی اور اے این پی اس تجویز سے
متفق ہیں جبکہ متحدہ نے اس پر تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے متبادل تجویز دی ہے کہ
لائسنسی اسلحہ شہریوں کے پاس ہی رہنے دیا جائے اور تمام ناجائز اسلحہ حکومت اپنی
تحویل میں لے لے۔ تاہم دیگر سیاسی گروپ اس تجویز سے متفق نظر نہیں آتے جن کے بقول
متحدہ کے کارکنوں نے کثیر تعداد میں جدید اسلحہ کے لائسنس حاصل کر لئے ہیں اس لئے
اس اسلحہ کی موجودگی میں امن و امان کے قیام کی ہر گز توقع نہیں کی جاسکتی۔
یہ بات پکی ہے کہ جب تک قانون کاراستہ صاف نہ ہو اس وقت تک پائیدار امن قائم نہیں
کیا جاسکتا۔ ملک میں پہلے جب امن و امان کی صورتحال پر ضرب پڑتی تھی اور حالات خراب
ہوتے تھے تو سیاستدان سارا الزام وقت کے آمر پر عائد کر دیتے تھے اور ہرطرف سے یہ
کہا جاتا تھا کہ یہ سارا کیا دھرا آمریت اور شخصی حکومت کا ہے۔ اگر جمہوریت ہوتی تو
ایسا نہ ہوتا ہم گڈ گورنس کا مظاہرہ کرتے۔ لیکن اب جبکہ ملک میں جمہوریت اپنے پورے
جاہ و جلال سے موجود ہی نہیں قائم بھی ہے اور مرکز اورصوبوں میں بااختیار حکومتیں
بھی ہیں اس کے باوجود ابھی تک گڈ گورنس کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
کراچی میں امن و امان کا سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ اس پر اس سنجیدگی سے توجہ نہیں دی
گئی جس کی ضرورت تھی۔ گذشتہ ماہ لوئر دیر میں فوجی اپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی
میں امن و امان کی صورت حال خراب ہونا شروع ہوگئی تھی اور یہ صورت حال متاثرین
آپریشن کی نقل مکانی کے بعد انہیں کراچی میں پناہ دینے کے حوالے سے ایم کیو ایم
متحدہ کی جانب سے تحفظات کے اظہار کے نتیجہ میںشروع ہوئی جس پرچیف سیکرٹری سندھ کی
سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا مگر اس کمیشن کی کارروائی کے آغاز سے
پہلے ہی کراچی خونریز ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا جو پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کا
حصہ نظرآتی ہے۔
سوات،مالاکنڈڈویژن اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی کیخلاف حکومت کی توجہ مرکوز ہے
لیکن کراچی کے معاملہ میں حکومت ِپاکستان کے علاوہ بیرونی ممالک اور غیر ملکی
آقاوںکے اشاروں پر ناچ کر”نظام عدل“ کی مخالفت کرکے سوات کا امن تباہ کرنے والی”این
جی اوز“کی پرسرار خاموشی بڑی معنی خیز ہے۔کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ کچھ اندرونی
اور بیرونی طاقتیں مل کر پاکستان کواپنے مذموم مقاصد کے حصول تک مشرق سے مغرب اور
شمال سے جنوب تک دہشت گردی کی آگ میںڈبوئے رکھنا چاہتی ہیں؟
کبھی کراچی میںصرف2 نسلی گروپ ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب حکومت کی نااہلی کی وجہ سے کم
از کم5نسلی و لسانی گروپ اور کئی مافیا گروپ سرگرم ہیں۔ ایسے خون ریز واقعات کو
دیکھ کر بھی حکومتی مشینری گو مگوکا شکار رہے گی اور حکومتی اتحاد کو قائم و برقرار
رکھنے کی خاطر جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی سے گریز کیا جائے گا تو ان عناصر کی مزید
حوصلہ افزائی ہوگی اور اگر امن و امان کنٹرول میں نہیں ہوگا اور خونریزی بڑھے گی تو
ہماری سالمیت پر کاری ضرب لگانے کیلئے موقع کی تاک میں بیٹھے ہمارے شاطر دشمن بھارت
کو ضرور موقع مل جائے گا۔
حکومت کا فرض ہے کہ وہ سیاسی وابستگیوں سے بالاترہوکرمیرٹ پر تحقیقات کرکے عوام کی
جان ومال کے تحفظ کویقینی بنائے۔کراچی کے وہ گروپ جوہنگاموں اورقتل وغارت میںملوث
ہے کاہنگامی بنیادوں پرقلع قمع کرے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی (جسے منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے) کو دانستہ طور پر
بدامنی کی آگ کی جانب دھکیلنا اس شہر کیلئے ہی نہیں پورے ملک کیلئے انتہائی نقصان
دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ملک کی بندرگاہ اور کمرشل و صنعتی مرکز ہونے کے ناطے یہ شہر ملک
کے ریونیو کا بھی سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اگر یہ مستقل طور پر بدامنی اور لاقانونیت کی
لپیٹ میں رہا تو اس کے مکینوں میں عدم تحفظ کی فضا ءتو ایک جانب ملکی اور غیر ملکی
سرمایہ کار بھی عاجز آ جائیں گے۔ ملک میں امن وامان کی مجموعی صورت حال پہلے ہی
بدتر ہو چکی ہے جس کے باعث اقتصادی ترقی کا پہیہ جام ہوگیا ہے۔ اگر کراچی میں بھی
بدامنی کے نتیجہ میں صنعتی اور تجارتی مراکز بند ہوگئے تو قومی معیشت کی ترقی ایک
خواب بن کر رہ جائے گی۔
|