ہم باتیں زیادہ کرتے ہیں لیکن عمل کم کرتے ہیں

 تحریر : محمد اسلم لودھی

وزیر اعظم پاکستان نے اپنے دورہ چین کے دوران جن آٹھ معاہدوں پر دستخط کیے ان کی اہمیت اور افادیت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں بلٹ ٹرین ٬ موٹرویز ٬ دبئی جیسا شہر گوادر میں آباد کرنا ٬ کراچی سمیت بڑے شہروں میں میٹرو ٹرین اور میٹرو بس جیسے منصوبے اگر پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں تو پاکستان واقعی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوسکتا ہے لیکن پاکستان کی تاریخ پر اگر غور کیاجائے تو معاہدوں کی ایسی فہرست بہت طویل دکھائی دیتی ہے جن پر دستخط ہوئے بلند بانگ دعوے بھی کیے گئے لیکن عمل نہ ہونے کی بنا پر وہ آج بھی فائلوں میں دبے نظر آتے ہیں مجھے یاد ہے 1993 میں جب نواز شریف نے وزیر اعظم کی حیثیت سے سوئزرلینڈ کا دورہ کیا اور وہاں کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں بلٹ ٹرین ٬ ڈبل ریلوے ٹریک٬موٹرویز ٬ صنعتی زون جیسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی تو سرمایہ کاروں کا جواب بہت حوصلہ افزا تھاتاریخ شاہد ہے 20 سال گزرنے کے باوجود نہ تو بلٹ ٹرین چلی اور نہ ہی آج تک ڈبل ریلوے ٹریک ہی تعمیر ہوسکا ۔پاکستان کے سیاسی حالات میں اتار چڑھاﺅ کا پتہ نہیں چلتا کبھی فوجی آمر سول حکومتوںکو چلتا کردیتا ہے تو کبھی سیاسی رسہ کشی حکومتوں کے خاتمے کا باعث بنتی ہے نوازشریف پہلے بھی دو مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں اس دوران جن حالات سے انہیں واسطہ پڑا وہ بخوبی جانتے ہیںشاید اسی لیے کہاجاتا ہے کہ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں ۔ سابقہ تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہوسکے ان کثیر المقاصد منصوبوں کا آغاز کردیاجائے ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اب تک بلٹ ٹرین اتھارٹی ٬ گوادر اتھارٹی ٬ موٹرویز اتھارٹی ٬ ایرانی گیس پائپ لائن اتھارٹی ٬ میٹروٹرین اور میٹرو بس اتھارٹی کا قیام میں عمل لایا جاچکا ہوتا اور عملی طور پر فزیبلٹی اور سروے کا کا م شروع ہوجاتا افسوس کہ ابھی تک ایسا نہیں ہوسکا۔مشرف کیس ٬ حد سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بجلی گیس بحران کسی بھی وقت حکومتی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔اس لمحے میں یہ بھی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں ایسے میگا پراجیکٹس کو شروع کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیئے وہاں چند احتیاطیں بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ چینی سرمایہ کار کمپنیاں پاکستان کے ساتھ ضرورت سے زیادہ تعاون کااظہار کررہی ہیں لیکن معاہدے اس قدر شفاف اور کمیشن کے بغیر ہونا چاہیئے جس پر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل اور عدلیہ سمیت کسی کو بھی اعتراض کا موقع نہ ملے ۔ جو چینی کمپنی بلٹ ٹرین کا منصوبہ شروع کرنا چاہتی ہے اس کی دی گئی سہولتوں ٬ مراعات اور تفصیلات کو مدنظر رکھ کر بذریعہ اشتہار جاپانی ٬جرمن ٬ کورین اور امریکن کمپنیوں سے بھی پیشکشیں حاصل کی جائیں پھر جو کمپنی بھی کم لاگت بہترین معیار اور آسان شرائط پر یہ منصوبہ کم ترین مدت میں مکمل کرنے کا پروگرام رکھتی ہو اسے یہ منصوبہ سپرد کرد یاجائے۔ یاد رہے کہ اس وقت پاکستان کو فنڈ ز کی شدید قلت کا سامنا ہے اس لیے ٹرن کی Turn Key کی بنیاد پر معاہدہ کرتے وقت یہ بات بھی ملحوظ رکھی جائے کہ متعلقہ کمپنی اپنے اخراجات پورے کرنے اور مقررہ مدت کے بعد یہ منصوبہ حکومت پاکستان کے سپرد کرنے کی بھی پابند ہو ۔ایسی ہی شرائط موٹرویز ٬ ایرانی گیس پائپ لائن ٬ گوادر سٹی ¾ گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ ٬ میٹرو ٹرین اور میٹرو بس کے منصوبوں کے بارے میں مقرر کی جائیں ۔اس طرح ہمیں پتہ ہو گا کہ چینی کمپنیاں دوسروں ملکوں کی نسبت ہم سے کس قدر بہتر سلوک کرنے کاارادہ رکھتی ہیں پھر یہ بھی قابل غور بات ہے کہ اگر چینی ریلوے انجن معیار کے مطابق نہیں نکلے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ چینی بلٹ ٹرین اور دیگر میگا پراجیکٹس کوالٹی اور معیار کے مطابق دیرپا ثابت ہوں گے ۔یہ میگا پراجیکٹس دو چار سالوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان کی اہمیت صدیوں پر محیط ہے ایسا نہ ہو کہ چینی مال کی طرح یہ تمام پراجیکٹس بھی چند سالوں بعد ہی ملبے کا ڈھیر ثابت ہوں اور ان پراجیکٹسوں کے ذمے کھربوں روپے کی ادائیگی پاکستان کو کرنی پڑ جائے ۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ موجودہ حکومت کو جتنے بڑے بحرانوں کا سامنا ہے وہ اتنی ہی ریلیکس نظر آتی ہے ۔سپریم کورٹ کے کتنے ہی فیصلے عملدرآمد کے منتظر ہیں اس حوالے این آر او کیس ¾ غیر ملکی بنکوں میں جمع پاکستانیوں کی کرپشن کمائی سب سے نمایاں ہے اگر حکومت مکمل یکسوئی سے ان دو کیسوں پر ہی توجہ مرکوز کردے تو 400 سو ارب ڈالر حاصل ہوسکتے ہیں لیکن واضح حکمت عملی نہ ہونے کی بنا پر عوام پر تو مہنگائی کا بوجھ ڈال دیاگیا ہے لیکن چیرمین نیب کی تقرری کے ساتھ ساتھ دیگر اہم ترین سرکاری اداروں میں میرٹ پر اور باصلاحیت تقرریاں ابھی تک عمل میں نہیں لائی جاسکیں اور نہ ہی دہشت گردی کے بارے میں واضح پالیسی طے کی گئی ہے ڈرون حملے مسلسل جاری ہیں اور سابقہ حکمرانوں کی طرح موجود ہ حکمران بھی صرف لفظی احتجاج پر ہی اکتفا کیے بیٹھے ہیں ۔سپریم کورٹ نے بجلی کی لوڈشیڈنگ یکساں کرنے کا حکم دے رکھا ہے لیکن حکومتی ایوانوں اور سفارت خانوں میں بجلی کی سپلائی 24 گھنٹے جاری ہے جبکہ ماہ رمضان میں بھی روزہ داروں کو ہر گھنٹے بعد کئی کئی گھنٹے بجلی بند کرکے نہ ختم ہونے والی اذیت کا شکار کیاجارہاہے ۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ 326 ار ب روپے ادا کرنے کے باوجود پاور پراجیکٹس پوری استعداد کے مطابق بجلی پیدا کیوں نہیں کررہے ۔میں سمجھتا ہوں یہ سراسر حکومت کی نااہلی ہے اور اسی نااہلی کی بدولت پورے ملک میں کہرام مچا ہوا ہے حیران کن بات تو یہ ہے کہ بھارت سے بجلی خریدنے کی باتیں ہورہی ہیں جبکہ ایران دس ہزار میگا واٹ بجلی انتہائی سستے داموں فراہم کرنے کو تیار ہے اس کی طرف توجہ ہی نہیں دی جارہی ہے ۔باتیں تو ہر روز بہت کی جاتی ہیںلیکن عملی طور پر کام سرے سے ہی ناپید ہے ۔

Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 115138 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.