بلدیاتی انتخابات،عدالت کا دباﺅ بڑھ گیا

سپریم کورٹ نے ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کے لیے حلقہ بندیاں کرنے کے لیے پنجاب اور سندھ حکومت کی جانب سے 90 روز کی مہلت کی استدعا مسترد کر دی ہے۔ وفاق اور خیبر پی کے نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ عدالت نے پنجاب، سندھ اور بلوچستان حکومتوں کو حکم دیا ہے کہ آئندہ سماعت تک تحریری جواب جمع کرائیں جس میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی تاریخ بھی بتائی جائے۔عدالت نے واضح کیا کہ ہم ستمبر سے زیادہ کا وقت نہیں دیں گے کیونکہ عدالت پہلے بھی واضح کر چکی ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ میں بلدیاتی انتخابات کے لیے 15 ستمبر کی تاریخ دے دی گئی ہے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو بھی اس حوالے سے تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے سامنے کمیشن نے موقف اختیار کیا کہ بلدیاتی انتخابات عام انتخابات سے زیادہ مشکل کام ہے، اس لیے بہت وقت درکار ہو گا جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ پانچ سال اسی طرح گزار دیے گئے اور بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے۔ خصوصا پنجاب اور سندھ میں تو انتخابات کرائے جانے چاہئیں تھے کیونکہ پنجاب میں پہلے بھی مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور اس وقت پنجاب حکومت نے حلقہ بندیوں کا کام کیوں نہیں کیا جس کے لیے اب پنجاب حکومت کی جانب سے 90 روز کا وقت مانگا جا رہا ہے اور سندھ میں بھی وہ لوگ مسلسل پانچ سال حکومت میں رہے جو آج ہیں اس وقت حلقہ بندیاں کیوں نہ کرائی گئیں؟ بلدیاتی انتخابات کے لیے تیاری، ووٹر لسٹوں اور حدبندیوں کا کام پہلے مکمل ہونا چاہیے تھا، اگر اسے ستمبر سے آگے لے جایا جائے گا تو یہ آئین سے روگردانی کے مترادف ہو گا۔ تمام صوبوں کو ستمبر میں بلدیاتی انتخابات کرانا پڑیں گے۔ ایک دن کی مہلت بھی نہیں دیں گے۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن اور چاروں صوبائی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنا تحریری بیان جمع کرائیں، ہم کسی طور بھی بلدیاتی انتخابات کو ستمبر سے آگے نہیں جانے دیں گے اس سلسلہ میں اگر کوئی حکم نامہ بھی جاری کرنا پڑا تو کریں گے۔جب ایڈووکیٹ جنرل پنجاب مصطفی رمدے نے عدالت سے استدعا کی کہ حلقہ بندیوں کے کام کو مکمل کرنے کے لیے 90 روز درکار ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ بتائیں کس قانون کے تحت 90 روز درکار ہیں۔ الیکشن کمیشن حکام کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات عام انتخابات سے مشکل کام ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تحریری طور پر لکھ کر دیں کہ مزید وقت چاہیے، اس کے بعد ہم حکم جاری کر دیں گے پھر جو نتائج نکلیں گے دیکھیں گے۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کے مسودہ کی تجاویز کی منظوری دی۔ محمد شہباز شریف نے کہا پنجاب حکومت صوبے میں بلدیاتی انتخابات جلد سے جلد کرانا چاہتی ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں علیحدہ اتھارٹیز قائم کی جائیں گی جبکہ نچلی سطح پر تنازعات کے حل کیلئے شہروں میں مصالحتی کونسلز اور دیہات میں پنچائیت کا نظام رائج کرنے کی تجویز ہے۔ اسی طرح شہروں میں میونسپل پولیس کے نظام کو متعارف کرانے کی بھی تجویز زیرغور ہے۔ وزیراعلیٰ نے ہدایت کی نئے بلدیاتی نظام کے مسودہ کی تجاویز پر پنجاب اسمبلی میں سیر حاصل بحث کرائی جائے۔ وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ خان نے کہا کہ ستمبر میں بلدیاتی انتخابات کرانا ممکن نہیں۔ تیس روز میں پنجاب اسمبلی سے بلدیاتی قانون منظور کرا لیا جائے گا۔ قانون سازی کے بعد بلدیاتی انتخابات کے لیے درخواست دیں گے۔ سپریم کورٹ نے ستمبر، اکتوبر کی ڈیڈ لائن نہیں دی۔ بلدیاتی حلقہ بندیوں کے لیے 3سے 4ماہ درکار ہیں۔ دسمبر میں بلدیاتی الیکشن کرانے کے قابل ہوں گے۔ الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں کر کے الیکشن کا اعلان کرے تو اعتراض نہیں۔ گزشتہ دور میں ساڑھے 3کروڑ ووٹ جعلی تھے۔ الیکشن کیسے کراتے۔ پنجاب حکومت سپریم کورٹ کے احکامات پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائے گی، حکومت جلد از جلد صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کرانا چاہتی ہے۔ پنجاب حکومت نے بلدیاتی نظام کے حوالے سے تقریباً کام مکمل کر لیا ہے اور ہم پنجاب اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان سمیت جس سے ضروری ہوا مشاورت کرکے ایسا بلدیاتی نظام لائیں گے جو قومی امنگوں کے مطابق اور اس سے عوام کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل ہو سکیں گے۔ محکمہ قانون نے اسمبلی اجلاس کے حوالے سے وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کو سمری بھی ارسال کر دی گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن پنجاب اسمبلی رانا محمد ارشد کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت عدالت کے حکم پرعملدرآمد کی پوری کوشش کرے گی لیکن اگر ضرورت ہوئی تو مزید وقت مانگا جاسکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے پہلے ہی اعلان کر رکھا تھا کہ وہ چھ ماہ کے دوران یہ انتخابات کروا دیں گے اور اب جس طرح سے عدالت کا حکم آیا ہے انشااللہ ہم پوری کوشش کریں گے۔ بلدیاتی قانون میں کچھ ترامیم کرنا تھیں اس کے لیے جلد ہی پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلایا جارہا ہے اور اگر ہمیں لگا کہ وقت کم ہے ستمبر تک تو ہم عدالت سے مزید وقت کے لیے درخواست کریں گے۔

وزیراعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ نے کہاکہ سپریم کورٹ کے حکم سے کوئی انکارنہیں ہے لیکن ہم سپریم کورٹ سے درخواست کریںگے کہ وہ ہمیں6ماہ کی مہلت دے، سپریم کورٹ نے صوبوں سے پوچھا ہے کہ وہ کب تک انتخابات کراسکتے ہیں، پنجاب نے4ماہ کی مہلت مانگی ہے جبکہ ہمیں6 ماہ درکار ہوںگے۔صوبائی وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا ہے کہ مارچ سے پہلے بلدیاتی انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتے۔ بلدیاتی انتخابات صوبائی معاملہ ہے مداخلت نہ کی جائے۔ جے یو آئی کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ملک میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا ماحول نہیں۔ بلدیاتی انتخابات کرانے میں کئی چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس اب تک کوئی پالیسی نہیں۔ عوام مقامات، مساجد اور جنازے تک محفوظ نہیں۔ ایسے حالات میں بلدیاتی انتخابات کیوں کر ممکن ہوں گے۔ عام انتخابات پر بھی تمام جماعتوں نے دھاندلی کی شکایت کی تھی۔ وزیر بلدیات خیبر پی کے عنایت اللہ نے کہا ہے کہ بلدیاتی نظام کے اکثر نکات پر اتفاق رائے ہے ،نئے بلدیاتی نظام کے مجوزہ ڈھانچے پر مشاورت کر رہے ہیں۔ خیبر پی کے میں بلدیاتی انتخابات اکتوبر یا نومبر میں کرائے جائیں گے۔ خیبر پی کے حکومت نچلی سطح پر ولیج کونسلوں کا قیام عمل میں لائے گا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 641664 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.