بی بی سی نے اپنی ایک خبر میں
اقوام متحدہ کے حوالے سے بتایا کہ شام میں جاری کشیدگی کے باعث روزانہ
6ہزار لوگ نقل مکانی کررہے ہیں جبکہ ہر ماہ تقریباً 5ہزار لوگ قتل ہورہے
ہیں، جو گزشتہ بیس برس میں مہاجرین کا بدترین بحران ہے۔ اخباری اطلاعات کے
مطابق شام میں قتل وغارت گری میں کوئی محفوظ نہیں، معصوم بچے، بوڑھے لوگ
اور عورتیں سبھی شام کے حکمران بشارالاسدکی بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔
اگرچہ عام میڈیا صحیح انداز میں شام کی صورتحال کو پیش نہیں کررہا اور فقط
مرنے والوں کی تعداد ہی شائع کرتا ہے، تاہم سوشل میڈیا پر ایسی خبریں اور
ویڈیوز موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آیا وہاں کے لوگوں کا قصور کیا
ہے؟ شام کے لوگ بھی باقی عرب حکمرانوں کی ماننداپنے حاکم بشار الاسد کے ظلم
وستم سے تنگ تھے اور شام میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں اور جب دو برس قبل
اُنہوں نے اِس ظلم وبربریت کے خلاف آواز اُٹھانا شروع کی تو ظالم بشار نے
گولہ بارودسے اُن کو خاموش کرنا چاہا تاہم شام کے لوگوں کی ہمت اور استقامت
میں دن بدن اضافہ ہی ہوااور شام کے لوگوں نے امت مسلمہ، اس کی افواج اور ان
کے حکمرانوں کو ہزاروں بار پکارا کہ ان کی مدد کی جائے یہاں تک کہ وہ ان سے
مایوس ہوگئے لیکن اپنے رب سے مایوس نہیں ہوئے۔ لہذا انھوں نے اپنے مقدس
انقلاب میں شام کے جابر کے خلاف یہ نعرہ اختیار کیا کہ ’’اے اللہ ہمارا
تیرے سوا کوئی نہیں ہے‘‘۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں
سے مدد طلب کریں تو اُن کی مدد کرنا باقی مسلمانوں پر فرض ہے،جیسا کہ ارشاد
ہے: ( وَإِنِ اسْتَنصَرُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ فَعَلَیْْکُمُ النَّصْر
)’’اگر یہ دین کے بارے میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر ان کی مدد لازم ہے‘‘
(الانفال:72)اِسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ
مسلمان مسلمان کابھائی ہے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں آباد ہو،تو
پھر آج ہم صرف اِس لیے اُن کی مدد سے گریزاں ہیں کیونکہ وہ پاکستان کی
بجائے شام کی سرزمین پر آباد ہیں؟ آج کیوں ہم نے بھائی چارے کے اِسلامی
تصور کو کفار کی بنائی ہوئی سرحدوں کے اندر مقید کردیا ہے؟اِسی طرح خلافت
اسلامیہ کے سپہ سالار محمد بن قاسم کا اپنے لشکر کے ساتھ عراق کی سرزمین سے
نکل کر سندھ کی سرزمین پر اپنے مسلمان بہن بھائیوں کی مدد کرناہمارے ذہنوں
سے محونہیں ہوتا لیکن کیوں آج یہ کہنا کہ ’شام کے مسلمانوں کی حقیقی مددکے
لیے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ پاکستان اپنی افواج کو شام بھیجے جو ایٹمی
اسلحے سے لیس ہے۔ وہ اپنے جنگی جہاز،ٹینک اور کمانڈوز بھیجے جو بشار کے
قلعے کو مسمار کردیں اوراس کے غنڈوں، اور منافق ریاستوں میں سے جو کوئی بھی
بشار کی مدد کررہے ہیں ان کو بھی برباد کردیں‘ فقط ایک خیالی فلسفہ ہے؟ حتیٰ
کہ پاکستانی اخبارات میں جب یہ خبریں آئیں کہ پاکستان سے چند لوگ شام کے
باغی مسلمانوں کی مدد کے لیے گئے ہیں تو وزارتِ خارجہ نے اِس کی پُر زور
تردید کی، گویا مسلمان کا مسلمان کی مدد کے لیے متحرک ہونا ایک گناہ کا کام
ہو۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ شام میں رہنے والے مسلمان امت مسلمہ کا حصہ ہے
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(اِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ وَّاحِدَۃً وَّ
اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ)’’یہ تمھاری امت، ایک امت ہے اور میں تمھارا
پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کرو‘‘(الانبیاء:92)اور بلاشبہ مسلمان ایک
امت ہے ، تاہم آج اِسے کفار نے 56سے زائد پنجروں میں قید کرکے ایک دوسرے کی
مدد سے محروم کررکھا ہے بلکہ کسی دوسرے ملک کے مسلمانوں کی مدد کو جرم قرار
دے دیا گیاہے۔ ہمیں ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ یہ خلافت ہی تھی جس نے ماضی
میں بھائی چارے کے اِس تصور کو سرحدوں میں مقید نہیں ہونے دیااور یقیناًآج
بھی دنیا کے مظلوم مسلمانوں کو اُسی خلافت کا انتظار ہے جس کی افواج بیرکوں
میں بیٹھنے کی بجائے اُن کی مدد کے لیے متحرک ہونگی۔ |