کے ٹو view Point

ﷲ تعالیٰ نے اپنی حکمت بھری کتاب یعنی قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ ــ’’سیرو فی لارض‘‘۔ زمین کی سیر کرو۔ بے شک ا ﷲ تعالیٰ کی کوئی بھی بات حکمت سے خالی نہیں ہوتی۔اس آیت کریمہ میں خدا وند تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو زمین کی سیر کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ ترقی کا راز اُس چیز میں مضمر ہے جہاں حکمت سے بھری روشن ہدایات پر عمل ہوتا ہو۔ راقم کا تعلق اکثر غیر ملکیوں سے ہوتا رہتا ہے۔ اکثر گہری سوچ میں پڑتا ہوں، اتنی تعداد میں سیاحت کی غرض سے سرزمین پاکستان کا رخ کرنے والے غیر ملکی لوگ آخر کس فائدے کیلئے اپنی قیمتی وقت اور کثیر رقم خرچ کرتے ہیں۔اُنکا ہرسال قدرتی مناظرکی طرف کھینچتے چلے آنا اور اتنا سارا پیسہ خرچ کرنا ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ انکی جنونِ سیاحت بھی کسی نہ کسی خاص مقصد کے لئے ہو گا۔ اسی موضوع پر ہاورڈ یونیورسٹی کے ایک لیڈی پروفیسر سے تفصیلی بات ہوئی۔ وہ ہر سال بلتستان کی خوبصورت نظاروں کی سیر کرنے کیلئے سرزمین پاکستان کا رخ کرتی رہتی ہے۔ میری سوال کو سن کر مسکراتے ہوے ہسرت بھری نگاہوں سے میری طرف دیکھنے لگی۔ اک ٹھنڈی آہ بھرلی پھر اک نہ ختم ہونیوالی اور حیران کن معلومات کا خزانہ میری نذر کرتی گئی۔ وہ کہتی ہے کہ پاکستان کے اندر اک چھوٹا پاکستان ارض بلتستان ہے۔ گو کہ ہنزہ اور استور کی تعریفیں لوگ زیادہ کرے نہ کرے لیکن ارض بلتسان بلخصوص وادی شیگر اور وادی مچلو سیاحتی مقامات کی روح سمجھی جاتی ہے۔یہاں پہنچ کرہر کوئی دنیا و مافیا سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ یہاں تاریخی اور ثقافتی معلومات کا خزانہ موجود ہے۔ میں یہاں تیرہ سالوں سے مسلسل آ رہی ہوں۔ لوگوں میں سادگی کی انتہا دیکھتی رہی ہوں۔ علم کی جستتجو ہے ہی ساتھ میں شوقِ سیاحت کا بھی ایک جنون رہتی ہے۔ سال میں آٹھ مہینے یہاں کے لوگ اپنی زریعہ معاش کے خاطر حسن قدرت کی عظیم شاہکار وادیوں میں محنت مزدوری کرتے گزارتے ہیں۔نہ جانے یہاں کی انتظامی امور کن کاموں کی طرف راغب ہیں جو ان تمام ان گنت قدرتی انعامات سے فائیدہ لینے سے ابھی تک قاصر ہیں۔یوں تو پاکستان کی سرزمین کسی بھی قدرتی خوبصورتی سے محروم نہیں لیکن مہکتی پھولوں ، چہکتے پرندے،صاف شفاف چشمے کا پانی، سرسبز و شاداب وادیاں، ان گنت پھل و میوہ جات، قدیم تاریخی ثقافت ، لذت بھری روایتی کھانوں ، موسیقی او ر رقص کی سروں سے بھری خوبصورت اور بے حد حسین ارضِ بلتستان میں خدا کی نعمتیں بے شمار ہیں۔ انکی بات کو کاٹتے ہوئے راقم نے ایک سوال انکی بلتستان سے اتنی والہانہ محبت پر اٹھایا۔ انکا جواب انکی بلتستان سے بے پناہ محبت کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔انہوں نے کہا بلتستان کی سرزمین ان گنت سیاحتی مقامات سے بھری پڑی ہے۔ میں ان میں سے کچھ ایسی جگہوں کو منظر عام پر لانا چاہتی ہوں جو ہر خاص و عام کی سماعتوں اور بصیرت تک نہیں پہنچ پاتی۔یہاں بہت ساری ایسی مقامات موجود ہیں جو نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکیوں کے لئے بھی خاصی اہمیت رکھتی ہے۔اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے ایک ایسی مقام کا زکر کیا جسکی چرچے کچھ خاص یعنی سیاحت سے وابستہ لوگوں میں عروج پر ہیں۔ کے ٹو کے نام سے بھلا کون واقف نہیں۔سبھی لوگ جانتے ہیں کہ کے ٹو کے اور دیگر فلک بوس چوٹیوں کی دامن تک پہنچنااور دیکھنا کتنا کٹھن کام ہے۔ سکردو سے آٹھ گھنٹے کی مسافت کے بعدتقریبا ایک ہفتہ تک پیدل سفر کنا پڑتا ہے اور اتنے ہی دن واپس آنے کے لگ جاتے ہیں۔ اس وجہ سے بہت سارے اہل ذوق وہاں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔مگر قدرت نے اس کا بھی انتظام کر رکھا ہے۔ اب آٹھ سال تک کے بچے ، خواتین اور عمر رسیدہ لوگ بھی بآسانی ، انتہائی کم وقت اور کم خرچ میں کے ٹو ، نانگا پربت اور دیگر بلند و بالا اور برف پوش پہاڑیں دیکھ سکتے ہیں۔ محترمہ نے بتایا کہ ہماری یہ مشکل تب آسان ہوئی جب آٹھ سال پہلے ایک ہسپانوی تصویر نویس ( Txema Camera: photo grapher ) نے ایک مقام دریافت کیا۔جو نہ صرف بلتستان اور پاکستان بلکہ دنیا کے تمام سیاحوں کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں۔انہوں نے کم خرچ بالا نشین اور تمام عمر کے سیاحوں کے لئے ایک view point دریافت کیا جہاں سے بآسانی نہ صرف برف پوش پہاڑیاں دیکھ سکیں گے بلکہ ضلع گنگچھے کے تمام علاقے ایک منفرد انداز میں دیکھ سکیں گے۔ یہی نہیں بلکہ صاف و شفاف فضاؤں کی بدولت ہم دور دور تک احسن طریقے سے اس مقام سے پاکستان اور بھارت کی سرحدیں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ میری تجسس بڑھتی جا رہی تھی کہ وہ جگہ آخر ہے کہاں۔۔۔؟انہوں نے دو تصویریں میرے سامنے رکھے اور پہچاننے کو کہا۔ میں نے ایک ہی نظر میں کہا کہ یہ تو ضلع گنگچھے کی وادی مچلو بروق ہے۔انہوں نے کہا کہ بس یہی ہے وہ مقام جسکی تحفہ ہمیں Txema Camera نے دیا تھا۔ یہی ہے وہ مقام جہاں سے کے ٹو و دیگر مقامات بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ ہم سب کو اْس ہسپانوی اور ہاورڈ یونیورسٹی کی اس پروفیسر صاحبہ کی مشکور ہونی چاہئے ۔ جنہوں نے ہم سب کوایک نئی زریعہ معاش اور بہترین سیاحتی مقام کا اضافہ کر کے دیا۔ مچلو بروق( Machulo Laa ) سکردو سے 115 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ سکردو سے 3 گھنٹے لوکل ٹرانسپورٹ میں بآسانی مچلو پہنچا جاسکتا ہے۔ سیاحوں کی قیام و طعام کے لئے فلیکس فاونڈیشن کی زیر نگرانی ایک صاف ستھرا اور خوبصورت Guest House بنایا ہوا ہے جوآرام دہ ر ہائیشی کمروں اورماہر خانساموں کی لذت بھری کھانوں کے ساتھ دیگر بہترین انتظامات کر رکھے ہیں۔ 3 دن کی مختصر ترین دورانیے میں ہر کوئی کے ٹو کی درشن کر کے واپس اپنی قیام گاہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ مچلو کے مقامی لوگ اس مقام سے بخوبی واقف ہیں جس سے کسی بھی سیاح کے لئے رہنمائی لینے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔فلیکس فاونڈیشن وہ واحد ادارہ ہے جنکی کاوش ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ ان علاقوں میں مقیم ہر غریب و نادر لوگوں کی معاشی زندگی کوبہتر اور آسان بنایا جا سکے۔ وہ ہسپانوی فوٹو گرافر سیاح انکی ادارے سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت گلگت بلتستان machulo laa k2 view point جیسے دیگر روح افزاح اور اہم سیاحتی مقامات کے بارے میں حکومتی سطح پر آگاہی مہم چلائی جائے۔ محکمہ سیاحت کی مشیر کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہوں گا تاکہ ارض گلگت بلتستان کے سادہ لوح اور جفاکش لوگوں کی معاشی زندگی بہتر سے بہترکرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے اور سیاحوں کو ان پرسکوں فضاؤں والی وادیوں کی طرف راغب کرے۔
Kamal Anjum
About the Author: Kamal Anjum Read More Articles by Kamal Anjum: 13 Articles with 13802 views I belong to skardu Baltistan and now I am a student of Masters in Educational Planning and Management from NUML Islamabad. 2013.. View More