پاکستانی قوم کو قیام پاکستان سے
لیکر اج تک 2013 تک حکمرانوں چاہے وہ غلام محمد کی طرح بیوروکریٹ تھا یا
لیاقت علی خان کی شکل میں قائد ملت وہ ایوب ضیا مشرف اور جنرل رانیوں کا
دلدادہ فوجی امر تھا پاکستان میں جمہوری دور حکومت ہو یا محلاتی سازشوں کے
بل پر کھڑی کی جانیوالی حکومتیں ۔عوام کو ارباب اختیار نے کبھی قومی
معاملات میں نہ تو شریک سفر بنایا اور نہ ہی ریاست کو درپیش سنگین ترین
سانحات واقعات حالات و اسباب کو عوام پر منکشف کیا گیا۔ لینڈ ریفارمز کمیشن
سے لیکر اوجڑی کیمپ ایسے قومی المئیے کی تحقیق و تفتیش کرنے والے کمیشن تک
سقوط ڈھاکہ سے لیکر سانحہ ایبٹ اباد تک درجنوں کمیشن بنائے گئے مگر سچ تو
یہ ہے پاکستانی قوم سقوط ڈھاکہ تک کے سچ سے اشنا نہیں۔ میڈیا کے توسسط سے
کمیشنوں کی کارکردگی اور مبالغہ ارائی سے کچھ نہ کچھ اگاہی ملتی رہتی ہے۔
ایسے کمیشن عوام کو بیوقوف بنانے اور انکی انکھوں میں دھول ڈالنے کا مقدس
فرض انجام دیتے ہیں۔ میڈیا میں اجکل ایبٹ اباد سانحہ کمیشن رپورٹ کا چرچا
زوروں پر ہے۔ بھٹو نے سقوط ڈھاکہ کی بنیادی وجوہات اور ذمہ داران کا تعین
کرنے کے لئے حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو محض اس وجہ سے روک دیا تھا کیونکہ
1971 انڈو پاک جنگ کی شکست کے زخم ہرے تھے جبکہ افواج پاکستان کو نئی
بنیادوں پر استوار کیا جارہا تھا کمیشن کے کچھ حصے فورسز کو ڈی موریلائز
کرسکتے تھے اسی تناظر میں تو بھٹو نے میڈیا اور حاسدین کی تنقیدوں کو
برداشت کیامگر فوج کے مورال کو مستحکم کرنے کی خاطر رپورٹ سنسر کردی۔ المیہ
تو یہ ہے کہ ایبٹ اباد کمیشن رپورٹ کے لیک ہونے والے چند پیراگراف ا فواج
پاکستان کو بدنام کرنے والے میڈیا کی شعلہ نوائی کا ساما ن پیدا کررہے ہیں۔
امت مسلمہ کی نمائندگی کا دعوی کرنے والے الجزیرہ ٹی وی چینل رپورٹ کو مرچ
مصالحوں سے ریلیز کررہا ہے الجزیرہ کے تجزیہ نگار ایسی نشتر زنی کررہے ہیں
جیسے افواج پاکستان کو بدنام کرنے کی منظم سازش پر عمل پیرا۔ جنرل حمید کا
بیان ہے کہ الجزیرہ اور مغربی میڈیا جو کچھ اچھال رہا ہے اس میں فورسز کی
جگ ہنسائی اور کمزور کرنے کی منصوبہ بندی کی بو ارہی ہے ۔یہ حقیقت روز روشن
کی طرح عیاں ہے کہ کوئی اپنے پاوں کو زخمی نہیں کرتا کے مترادف افواج
پاکستان کی جانب سے رپورٹ افشا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔سابق ڈی جی
isiنے شعلہ بیانی میں وہ کیچھ کہہ دیا جو انہیں نہیں کہنا چاہیے
تھا۔بیوروکریٹ فوجی ہوں یاسویلین ایک ہی تھالی کے بینگن ہوتے ہیں کیونکہ
چور چوروں کے بھائی اور بھینس بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں۔ امرانہ مزاج کے
حامل سیکیورٹی سے منسلک حساس اداروں کے سربراہوں سے اگر کوئی چھپتا سوال
کیا جائے یا کسی سچ کی طرف انکی توجہ مبزول کروانے کی کوشش کی جائے تو وہ
نو کمنٹس کا دو حرفی گانہ گنگنانے اور سیکیورٹی رسک کا نعرہ لگا کر ہر چیز
کو پائے حقارت سے رد کرنے میں ید طولی رکھتے ہیں مگر ریٹائرمنٹ کے بعد وہ
غیر ملکی چینلز کا چائے پانی پی کر بہک جاتے ہیں اور سیکرٹ رکھی جانیوالی
دستاویزات کو اوپن کرنے یا اسکی مناسب قیمت وصول کرنے میں کوئی قباحت نہیں
سمجھتے۔ کروفر کی ان بان شان سے غیر ملکی چینلز کو قومی راز بیچنے والہ
طبقہ اشراف سول ہویا خاکی انکے کمالات پر دنیا کے معروف مصنفوں اور
دانشوروں نے جو رپورٹیں شائع کی ہیں پر دل خون کے انسو روتا ہے۔بنظیر بھٹو
سے قریبی لگاو رکھنے والی مغربی مصنفہ کرسٹینا لیمب1991 اپنی کتابwaiting
for allah نے پاکستان کے سینئیر افسران کے متعلق یہ لکھا کہ افسران کی
اکثریت نے انکی گوری چمڑی سے متاثر ہوکر جہاں خوشی خوشی انٹرویو دیا تو
وہاں انہوں نے قومی سلامتی سے متعلق کئی راز افشا کئے۔ کرسٹینا لیمب رقم
کرتی ہیں کہ پاکستان کے سرکاری زمہ داران اپنے ہم وطن صحافیوں کو انٹرویو
دینا گوارہ نہیں کرتے مگر سفید چمڑی کے لئے ہر چیز دیدہ دل فرش واہ کرنے کو
شرم نہیں سمجھتے۔اکانومسٹ کی ایڈیٹر ایماڈنکن کی کتاب بریکنگ ودھ کرفیو میں
سیکیورٹی فورسز اور کئی محکموں کے زمہ داران کے کرتوتوں کی جو سچی کہانیاں
کتاب کا حصہ بنی ہوئی ہیں کو پڑھتے ہی جسم و جاں میں شرم کی بجلیاں کوند
پڑتی ہیں۔امریکی یونیورسٹی ہاورڈ کی پروفیسر جیسکا کی ایک کتاب terrorin
name of god جو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودی انتہاپسندوں اور عیسائی شدت
پسندوں کے متعلق ہے جو بے گناہ انسانوں کا خون بہاتے ہیں۔ jiskaنے 80اور
90کی دہائی میں حساس اداروں کے سربراہوں کو پہلے اپنی سیاہ زلفوں کا اسیر
بنایا پھر الو بنا کر سیکیورٹی سے منسلک کئی راز حاصل کئے۔مغربی صحافی حساس
اداروں کے سربراہوں سے گپیں ہانک کر سکیورٹی رسک سے متعلق کئی واقعات بے
نقاب کرکے اپنی دلجوئی کا سامان پیدا کرتے ہیں مگر کیا ایسا کوئی کرشمہ
ہوسکتا ہے کہ کوئی پاکستانی صحافی اوبامہ یا بھارتی را کے چیف سے ملاقات
کرنے کا کامیاب ہوجائے؟ ہوسکتا ہے کہ الجزیرہ یا گوری چمڑی والی کوئی صحافی
ایبٹ اباد کمیشن کے کئی اہم ترین مندرجات لے اڑی ہو۔پاکستانی قوم اج تک
حمود الرحمن کمیشن کی سچائی سے اگاہ نہیں ہوسکی تاہم بھارت میں اس رپورٹ کے
کئی ابواب چھپ چکے ہیں۔ ہماری سیکیورٹی و سلامتی کی نگہبانی کا یہ عالم ہے
کہ ہماری ایجنسیاں اج تک معلوم نہ کرسکیں کہ حمود کمیشن رپورٹ کس طرح چوری
ہوکر بھارتی میڈیا میں طویل عرصہ تک موضوع بحث بنتی رہی۔ ایبٹ اباد کمیشن
رپورٹ نے سیکیورٹی ارگنائزیشن سے جڑے ہوئے قومی عسکری اداروں پر منفی اثرات
ڈالے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ حکومت حمود الرحمن کمیشن اور ایبٹ اباد
کمیشن کی ساری کاروائیاں اوپن کردی جائیں ورنہ وہ بھی کسی لیمب جیسکا کے
ہاتھ لگ کر کسی اور ملک میں چھپ جائے۔ امریکی میرین نےppp دور میں ایبٹ
اباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کردیا تھا۔جسٹس جاوید اقبال کی نگرانی میں
چار رکنی کمیشن تشکیل دیا گیاجس میں جنرل ندیم قاضی اشرف اور پولیس سے سابق
سربراہ عباس شامل تھے۔کمیشن نے ایک سال ازادانہ ماحول میں واقعے کی جانچ
پڑتال کی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ2002 میں لادن خاندان پشاور منتقل
ہوا۔2005 میں لادن خاندان القاعدہ کے اہم رہنما خالد شیخ کے ساتھ ہری پور
منتقل ہوگیا۔2 مئی2011 سے ایک سال قبل امریکی ایجنسیاں جو isi سے بدل ہوگئی
تھیں۔ دونوں issiاور cia میں روابط نہ ہونے کے برابر تھے۔امریکی cia نے
اپنا علحیدہ نیٹ ورک تشکیل دیکر دو مئی2002 میں اسامہ کو ڈھونڈھ
نکالا۔سانحہ ایبٹ اباد پر فورسز نے پارلیمان کو بریفنگ دی مگر کسی پر واقعے
کی زمہ داری عائد نہیں کی جاسکی۔امریکہ میں نائن الیون کی تفتیش کی خاطر
کمیشن بنا۔ امریکی ایوان کانگرس اور سینیٹ میں کھل کر بحث ہوئی۔نااہل
افسران کو اپنے عہدے چھوڑنے پڑے۔ بھارت میں کارگل وار کمیشن بنایا گیا جس
میں زمہ داروں کو سزائیں دی گئیں۔ ایبٹ اباد کمیشن رپورٹ کو پارلیمان میں
بحث کی خاطر لایا جائے۔ بھارت نے کارگل سمیت قومی ایشوز پر قائم ہونے والے
کمیشنوں کی سچائی عوام کے لئے اوپن کردی۔کیا پاکستان میں قائم کردہ کمیشنوں
سے اگاہی خفیہ دستاویزات کے چوری ہونے اور غیر ملکی میڈیا میں چھپنے کے بعد
ممکن ہوگی؟ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف اور ارمی چیف اور اپوزیشن لیڈر
سر جوڑ کر بیٹھیں اور تمام معروف سانحات سوط ڈھاکہ سانحہ ایبٹ اباد اور
کارگل ایشوز پر بنائے جانیوالے کمیشن انکی کارکردگی پر غور و خوض کے بعد
عوام کو سچائی سے اگاہ کریں۔ ۔سانحہ اینٹ اباد کی رپورٹ کے سربستہ رازوں کو
بے نقاب کیا جائے۔زمہ داروں کو سخت سزائیں دی جائیں۔حساس اداروں کے
سربراہوں پر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قومی امور اور دفاعی معاملات پر انٹرویو
کی ہاہاکار میں سیکیورٹی measures کی لاف زنی کرنے گوری چمڑی والی انگلش
صحافیوں کے ساتھ ملاقاتوں پر پابندی کا قانون بنانا قومی سلامتی کی خاطر
ناگزیر ہے۔ بحرف اخر اگر سینے پر ہاتھ رکھ کر سوچا جائے تو یہ فلاسفی درست
ہوگی۔ جو ادارے سویلین اور دفاعی اداروں کے سیکرٹ صفحات کی حفاظت میں ناکام
ہوجائیں تو پھر یہ ادارے کس طرح ملکی سلامتی کی سیکیورٹی کا کردار انجام دے
سکتے ہیں؟ کیا ایسے اداروں پر کھربوں روپوں کا ضیاع درست ہوگا۔ |