سزائے موت جلد بحال کی جائے

شاہ رخ جتوئی جب شاہ زیب کو قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت کا حکم سننے کے بعدعدالت سے باہر آیا تو اپنی انگلیوں سے وی کا نشان بنایا یعنی کامیابی یا جیت اُسکی ہوئی ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر میں میڈیا کے زریعے شاہ رخ جتوئی کی قانون سے اس بے خوفی کو دیکھ کر بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہےکہ پاکستان میں قانون کا خوف دوردور نہیں ہےِ۔ کیوں نہیں ہے؟ اسکا سیدھا سیدھا جواب یہ ہے جن کو قانون پر عمل کرانا ہوتا ہے وہ خود قانون شکن ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ راستے میں لوٹنے والے، ٹارگیٹ کلر، اور دہشت گرد روز لوگوں کو مار رہے ہیں، اول تو نامعلوم ہوتے ہیں اور اگر تمام ثبوتوں کے ساتھ پکڑئے بھی جایں تب بھی مجرموں کو کوئی خوف نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتے ہیں پاکستان میں مجرموں کو سزا نہیں ملتی، اسکا سب سے بڑا ثبوت وہ آٹھ ہزار موت کی سزا پانے والے قیدی ہیں جن کی سزا پر 2008 سےصدر آصف زرداری نے عمل نہیں ہونے دیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ شاہ رخ جتوئی نے عدالت سے باہر آکر اسطرح وی کا نشان بنایا جیسے وہ جج کو سزائے موت دئے کرآیا ہو۔

کیا آپ کو پاکستان کےاس بدلے ہوئے معاشرئے میں ایسا نہیں لگتا کہ ہم درندوں سے بھی زیادہ بدترکسی ایسی مخلوق کے ساتھ رہ رہے ہیں جس کے نزدیک انسانی جان کی کوئی حیثیت نہیں۔ دہشت گردی، خودکش حملے، ٹارگٹ کلنگ اورمذہبی عصبیت کے دہشت گرد ایک تسلسل کے ساتھ بے گناہ انسانوں کو خون میں نہلارہے ہیں۔ موجودہ مسلم لیگ کی حکومت آنے کے بعد جہاں سابق حکومت کے بہت سارئے نامعلوم کارناموں کا پتہ چل رہا ہے وہاں ہی اخبارات کے زریعے عام لوگوں کو یہ بھی پتہ چلا کہ مجرموں کی حکومت میں مجرموں کو سزا کا خوف بلکل نہیں تھا اور شاید آج بھی نہیں ہے، بدقسمتی سے آج اس ملک میں جو لاقانونیت ہے وہ شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں ہو۔ کیا وجہ ہے کہ جرم اسقدر بڑھ گے ہیں کہ اب پاکستان ایک غیر محفوظ ملک کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ بات سیدھی سیدھی یہ ہے کہ جرم کی سزا نہیں ملتی۔ پورا کا پورا نظام بدعنوانی کی علامت بناہوا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس لاکھ سوموٹو ایکشن لیتے رہیں، یا قاتلوں کو سزا دیتے رہیں، یہ خونی سلسلہ اُس وقت تک چلتا رہے گا جبتک مجرم اپنے انجام کو نہیں پہنچ جاتے اور جرم کرنے سے پہلے جرم کرنے والے کو اُس جرم کی سزا کا یقین نہ ہوجائے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کہتے رہیں کہ عدلیہ بہت اچھا کام کررہی ہے مگر عام آدمی حقیقت سے واقف ہے۔ اِس ملک میں مجرم توہیں ہی مجرم مگراُن سے بڑئے مجرم وہ ہیں جو ان مجرموں کی سزاوں پر عمل نہیں ہونے دیتے۔

اسوقت پاکستان میں آٹھ ہزارسے زیادہ قیدیوں کو پھانسی کی سزا ہوچکی ہے اور جن میں اکثریت کی اپیل کے حق کی مدت بھی ختم ہو چکی ہے۔ یہ سزائیں ایک دن، ایک ماہ یا ایک سال میں نہیں ہوئی ہیں بلکہ گذشتہ پندرہ سال میں ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک ہزار سے زائد ایسے قیدی بھی ہیں جنہیں مختلف عدالتوں سے موت کی سزا سنائے ہوئے بھی پندرہ سال سے زیادہ ہوگئے ہیں۔یعنی ان آٹھ ہزار میں ایک ہزار سے زائد مجرم ایسے بھی ہیں جنکو نواز شریف کے گذشتہ دور میں موت کی سزا ہوئی ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں بھی مجرموں کو کو پھانسی دی جاتی رہیں مگر 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے ابتک سوائے ایک فوجی کو اپنے ساتھی فوجی کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے جرم میں پھانسی دی گئی ہےاور یہ فیصلہ فوجی عدالت تھا کسی سول عدالت کا نہیں۔ پاکستان کے صدر آصف زرداری نے 2008 میں سزائے موت پر عملدرآمد پر عارضی تعطل کا حکم جاری کیا تھا جس کی میعاد اس سال 30 جون کوختم ہوگئی ہے۔اخبارات اور میڈیا میں آنے والی خبروں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ موجودہ نواز شریف حکومت ملک میں امن وامان کی صورت حال کو ٹھیک کرنے کےلیےموت کی سزا کوبحال کرئے گی۔ اس خبر کے سامنے آتے ہی انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کردیا کہ وہ جیلوں میں سزائے موت کے منتظر قیدیوں کو پھانسی دینے کا سلسلہ بحال کرنے کے بجائے اس پر عارضی طور پر عملدرآمد معطل کرنے کا حکم جاری کرے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق "پاکستان کی جیلوں میں موت کی سزا پانے والے 8,000 قیدی موجود ہیں اور اتنی بڑی تعداد کے لیے سزائے موت پر عملدرآمد بحال کرنا بہت خوفناک ہوگا"۔ انصار برنی ٹرسٹ کے چیرمین انصار بر نی اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری آئی اے رحمان بھی سزائے موت کے خلاف ہیں، کہتے ہیں کہ سزا ئےموت یعنی قصا ص کو عمر قید میں تبدیل کی جانی چاہئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کو تو کیا کہاجائے مگر انصار برنی اور آئی اے رحمان تو پاکستانی ہیں اور اُن کی این جی او بھی پاکستان میں ہی کام کررہی ہیں ، ہاں یہ بات اور ہے کہ این جی او کے اخراجات تو باہر والے پورئے کررہے لہذا اُن کے مفادات کا سب سے پہلے خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ جہاں سے ان کو پیسہ مل رہا ہے وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں امن و امان ہو، اسلیے وہ پاکستان میں موت کی سزا کے خلاف ہیں۔

اس وقت ملک کے قانون کے مطابق اٹھائیس جرائم ایسے ہیں جن میں جُرم ثابت ہونے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ ان میں قتل کے علاوہ دہشت گردی، زنابالجبر اور اغوا برائے تاوان سمیت دیگر جرائم شامل ہیں۔ مگر ہمارئے ملک میں قاتلوں اوردہشت گردوں کو سزا دینے کے بجائے انکو سرکاری مہمانوں کا درجہ دیا جاتا ہے ، پولیس کی غفلت، مجرموں کا اثر و رسوخ اور پیچیدہ عدالتی طریقہ کار اور گواہوں کی عدم دستیابی کے باعث سزاؤں کی شرح انتہائی کم ہے، اس لیے وہ درندہ بنکر جیل سے باہرآتے ہیں اور بلا خوف و خطر پہلے سے زیادہ جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ سزاوُں پرعمل نہ ہونے کی وجہ سے ان مقدمات کے گواہوں کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ پنجاب میں 6082 موت کی سزا کے قیدی ہیں جن میں 27 عورتیں بھی شامل ہیں، ان موت کے سزا یافتہ قیدیوںمیں سے 4500 نےہائی کورٹ میں، 1300 نے سپریم کورٹ میں جبکہ 40 نے وفاقی شریعت کورٹ میں سزا کے خلاف اپیلیں داخل کی ہوئی ہیں۔ ان ہی میں سے 242 نے صدرکو رحم کی اپیل کی ہوئی ہیں۔ملک بھر میں526 قیدی ایسے ہیں جنھیں پھانسی دینے کا تمام قانونی عمل مکمل ہوچکا ہے۔ ان قیدیوں میں143قیدی سندھ کی جیلوں کے پھانسی گھاٹ میں ہیں، جوقتل، دہشت گردی اور دیگرجرائم میں ملوث تھے۔ بدقسمتی سے ان افراد میں سیاسی جماعتوں اور کالعدم مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے مجرم بھی شامل ہیں۔ ان مجرموں کو ماتحت عدالتوں سے سزا سنائے جانے کے بعد اعلیٰ عدالتوں نے بھی ان فیصلوں کی توثیق کردی ہے اور صدر نے بھی انکی رحم کی اپیلیں مستردکردی ہیں مگر جیل حکام کے مطابق صدر آصف زرداری کی جانب سے غیر سرکاری ہدایات ہیں کہ اُن کے دور حکومت میں کسی شخص کو پھانسی کی سزا نہیں دی جائیگی۔ حال ہی میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس مشیر عالم کے اس سوال پر کہ پھانسی کے منتظر افراد کی سزاپر عملدرآمدکیوں نہیں ہورہا؟ صوبہ سندھ کے چیف سیکریٹری چوہدری اعجاز نے جواب میں کہا کہ صوبے میں پھانسی کے منتظر مجرموں کی سزا پر عملدرآمد نہ ہونے کے پیچھے سیاسی عوامل ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں موت کی سزا برقرار ہے جن میں امریکہ، بھارت، جاپان، گیمبیا، چین، ایران، عراق اورسعودی عرب شامل ہیں۔ گذشتہ سالوں میں چین میں سب سے زیادہ سزائے موت دی گئیں جبکہ ایران، عراق، سعودی عرب اور امریکہ اس فہرست میں بالترتیب دوسرے، تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔

ایک طرف ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس سال جون 2013کے اختتام تک کراچی میں تشدد کے واقعات میں ایک ہزار سات سو چھبیس لوگ ہلاک ہوئے جبکہ اسی عرصے کے دوران پچھلے سال یعنی 2012 میں ایک ہزار دو سو پندرہ لوگ مارے گئے تھے اور دوسری طرف اس کےجنرل سیکرٹری آئی اے رحمان ان مجرموں کی سزائے موت کے خلاف ہیں جو 1726 افراد کی موت کے ذمیدار ہیں۔ ان اعداد و شمار کو اگر دیکھا جائے تو دونوں سالوں کے پہلے 6 ماہ کا فرق پانچ سو گیارہ افراد کا ہے اور اگر ملک کے باقی حصوں سے اعدادو شمار اکھٹے کیے جایں تو یہ فرق ہزاروں کی تعداد میں ہوجائے گا۔ اس سے پہلے کہ مزید بے گناہ مرنے والوں کا فرق بڑھے حکومت کو چاہیے کہ وہ مجرموں کو سزائے موت دینا شروع کردئے تاکہ جرائم کی تعدادمیں کمی اور عام شہریوں کو تحفظ کاا حساس ہونے لگے۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر لوگ اپنے فیصلے خود کرنے لگیں گے اور کرنا شروع کردیئے ہیں۔ ویسے تو بے شمار واقعات بیان کیے جاسکتے ہیں مگر قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی ایک خبر کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن کی ہے ، اس علاقے کے عوام نے ایک فلیٹ میں ڈکیتی کے بعد فرار ہوتے ہوئے تین ڈاکو کو پکڑکر انہیں زبردست تشدد کا نشانہ بنایا اور جب پولیس اہلکاروہاں پہنچے تو اُن سے مطالبہ کیا کہ وہ ان تینوں کو گولی مار دے لیکن پولیس کے انکا رکے بعدعوام نے نہ صرف پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنا کر بھگا دیا بلکہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے تینوں ڈاکوؤں پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی اور زندہ جلادیا۔ یہ اوراس سے ملتے جلتے واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ جب ایک معاشرئے میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے تو اس میں موجود مایوس، بھوکے اور بے روزگار افراد کو اپنی محرومیاں دور کرنے کے مواقع نظر آنے لگتے ہیں اور یہی سلسلہ جو ابتدا میں جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف ہجوم کی سزاؤں سے شروع ہوتا ہے، طبقاتی جنگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ تہی دست، خوشحال لوگوں پر حملے کرنے لگتے ہیں۔ لوٹ مار شروع ہو جاتی ہے اور لوٹ مار میں دوسروں کو سبقت حاصل کرتے دیکھ کر باقی لوگ بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ اِس طرح انارکی جنم لیتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ریاستی ڈھانچہ زمین بوس ہو جاتا ہے۔ پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ پہلے ہی بے حد کھوکھلا اور فرسودہ ہو چکا ہے۔ انارکی اور بدامنی کے سامنے ہمارا ملک چار دن بھی نہیں ٹھہر پائے گا۔ اگر موجودہ حکومت اس ملک کو انارکی سے بچانا چاہتی ہے ہیں تو بلا تاخیر مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائے اور سابقہ حکومت کے برخلاف فوری طور پر موت کی سزا کو بحال کرئے۔ شاہ رخ جتوئی نے جب وی کا نشان بنایا ہوگا تب شاہ زیب کے والدین پر کیا گزری ہوگی اس کا اندازہ وہ ہی کرسکتے ہیں جن کے گھروں کے بے گناہ لوگ قتل ہوئے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ کوئی بھی حکومت کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتی ہے لیکن ظلم اور نا انصافی کے ساتھ اس کا باقی رہنا ناممکن ہے، اور اس سے بڑا ظلم اور ناانصافی کیا ہوگی کہ قاتلوں کو سزا نہ ملے، اس لیے ہم سب کو مطالبہ کرنا چاہیے کہ سزائے موت جلد بحال کی جائے۔
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 485392 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More