نفرت سے نفرت محبت سے محبت - پارٹ ٹو

ہاں تو بھائیوں بات ہو رہی تھی ۔ ایم کیو ایم ملک کی ایک سیاسی اٹل حقیقت اور ایک انتہائی فعال تنظیم ہے جس پر بہت سے لوگوں کو غیر معمولی شک و شبہ ہے اور بہت سے لوگ اس شک و شبہ کو بغیر جانے بوجھے صرف اپنے ذاتی مقاصد کی خاطر آگے پھیلاتے ہیں مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ ایم کیو ایم جن علاقوں میں فعال و سرگرم ہے وہاں کے لوگوں کی اکثریت ایم کیو ایم پر اندھا اعتماد و یقین رکھتی ہے اور ان کے ووٹ اس بات کا ثبوت ہیں اور کچھ ہمارے دوست، بھائی اور مہربان ایم کیو ایم کو ووٹ نا دینا چاہیں تو اور بھی جماعتیں ہیں جو کراچی جیسے بین الاقوامی شہر سے انتخابات میں حصہ لیتی ہیں اور ناصرف حصہ لیتی ہیں بلکہ کامیاب بھی ہوتی ہیں یعنی ثابت یہ ہوا کہ ایم کیو ایم نے خدانخواستہ کراچی کو کوئی یرغمال نہیں بنایا ہوا کہ جہاں سے ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی نا کھڑا ہو سکتا ہو یا جیت نہیں سکتا ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بھائی آپ کچھ کر کے دکھائیے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے تو اس شہر سے آپ بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ مگر بدنصیبی سے اگر عوام پرانے آزمائے ہووں کو مسترد کردے تو وہ لوگ الزام لگاتے ہیں کہ ایم کیو ایم نے تو ایسے انتخابات جیتے اور ویسے جیتے وگرنہ جتنی انٹرنیشنل اٹینشن کراچی میں انتخابات پر ہوتی ہے شائد ہی ملک کے کسی شہر میں ہوتی ہو۔

اب دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر الطاف حسین نفرت کا درس دیتا اور ایم کیو ایم کے کارکنان کے دلوں میں دوسروں کے لیے نفرت و عناد بیٹھا دی جاتی اور غیر کراچی یا چلیے غیر مہاجر کو دشمن گردانا جاتا تو کیا کراچی میں اتنی قومیت کے لوگ موجود ہوتے اور کام کاج کر رہے ہوتے۔ (زرا یہ تو بتائے کہ غیر علاقوں میں کتنے غیر مقامی لوگ اپنے کام کاج آزادی و اطمینان کے ساتھ کر سکتے ہیں )۔ ۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ دشمنی، قتل و غارتگری اور مارا ماری نسل در نسل چلتی رہے؟ معصوموں کا خون بہتا رہے؟ غریبوں کی آپس میں لڑائیاں ہوتی رہیں اور حکمران اور سازشی ٹولے اور جماعتی عیش کرتے رہیں!۔ اگر کوئی کسی کا مارے گا تو کیا دوسرا چھوڑ دے گا کیا اس نے چوڑیاں پہن رکھی ہونگیں کہ اس کا مرجائے اور وہ مارنے والے کو چھوڑ دے مطلب کیا ہوا کہ مارے جانے والے کے لوگ مارنے والوں کو ماریں گے اور پھر بدلہ در بدلہ دشمنی در دشمنی چلتی رہے گی اور یہی ملک دشمن چاہتے ہیں۔ اب آئی بات سمجھ میں دور بیٹھ کر سیاست پر باتییں کرنے والوں۔ ڈرائنگ روم کی سیاست چھوڑو اور معروضی و مثبت سیاست کرو سیاست لوگوں پر اچھے طریقے سے حکومت کرنا اور لوگوں کے مسئلے حل کرنا ناکہ دوسروں کی ماں بہنوں اور غریبوں کی عزتوں سے کھیلنا (جس کا مظاہرہ ایک صوبے سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کرتے نظر آرہے ہیں)۔

خدارا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے ہی کچھ سبق سیکھ لو۔ ایک طرف آپ انہیں رسول خدا مانتے ہیں دوسری طرف کہتے ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کچھ تعلیمات کو تو مانیں گے اور کچھ نہیں مانیں گے۔ یہ مکمل ایمان تو نا ہوا۔ کتنے واقعات ہیں کہ آپ حضرت پر کوڑا کرکٹ پھینکا گیا، طعنے دیے گئے، صحابہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، طائف میں کفار نے بچوں کے زریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پتھراؤ کرا دیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لہولہان ہو گئے جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ اگر آپ کہیں تو ان ظالموں کو تباہ و برباد کر دیا جائے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان جائیں کہ آپ نے فرمایا کہ یہ نادان ہیں، بھولے ہیں، بھٹکے ہوئے ہیں، انہیں بتانے والا کوئی نہیں یہی کل سمجھیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی ۔ اور ہم ہیں کہ اپنوں کو نیست و نابود و تباہ برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں صرف اسلیے کہ ہمیں کسی ایک شہر میں ووٹ نہیں مل پا رہے توبہ کر بھائیوں توبہ کرو اور کرواؤ۔

جو لوگ لڑوانے کا درس دیتے ہیں وہ غلط ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کا معاملہ تو ایسا ہے کہ سوائے اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کے کوئی نہیں روک سکتا مگر اللہ کا شکر ہے کہ عوامی جھگڑے ایم کیو ایم کے ووٹ بینک رکھنے والے علاقوں سے ختم ہو گئے ہیں۔ الحمداللہ رب العالمین۔

سوچیں تو کہ گلگت میں کتنے لوگ مارے گئےِ ہمیں تو پنجاب اور صوبہ سرحد میں تبلغ کرنی چاہیے کہ لکم دینکم ولی الدین “کہ تم اپنے دین پر میں اپنے دین پر“ اور یہ کہ “دین میں کوئی جبر نہیں“۔ مگر کرنے والے اسلام کے نام پر کیا کر رہے ہیں کہ مسجدوں میں خودکش حملے کرو اور حملے کرنے والا جنت میں اور نمازی جہنم میں جائیں گے ! تف ہے ایسی تعلیم اور تربیت دینے والوں پر جو اپنے بچوں کو سینت سینت کر رکھتے ہیں اور کسی جہاد اور خودکش حملوں کے زریعے جنت نہیں بھیجتے بلکہ امریکہ کے اعلیٰ اداروں میں تعلیم کے لیے بھجواتے ہیں (ایک جماعت کے گزشتہ امیر کا انکے بیٹے کے ساتھ ایک انٹرویو دیکھا جس میں صاحبزادے اپنے والد محترم جو سڑکوں پر امریکی جھنڈے جلانے میں ماہر تنظیم کے امیر ہیں ان کے بیٹے صاحب امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے لوٹے ہیں دیکھیں کب کسی خودکش حملے کے زریعے انہیں جنت میں بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہیں والد محترم)۔

ہمارا مذہب اسلام کہتا ہے کہ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے اور یہ ظالم اور ان کی قماش کے لوگ اسکولوں کو جلاتے اور لڑکیوں کی تعلیم کے کٹر مخالف ہیں اور انکے حمایتی بھی اپنے گھروں کی عورتوں کو تو اسمبلیوں کے ٹکٹ دیتے ہیں اور دوسرے کی لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ دیکھنے تک کے روادار نہیں ہیں اسی لیے تو انہیں منافقین کی جماعت کہا جاتا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد چالیس سال تک خلافت رہی۔ خلافت کے دور میں بھی سازشیں رہیں۔ چار خلفائے راشدین میں سے تین کو شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد خلافت ملوکیت میں داخل ہو گئی اور اس وقت سے لیکر آج تک ملوکیت ہی ملوکیت ہے۔۔ اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھ لیجیے کیا ایک مخدوم کا بیٹا مخدوم ایک مجاور کا بیٹا باپ کی جگہ نہیں لیتا ایک حکمران کی اولاد اسکی جگہ نہیں لیتی ایک ہی خاندان کے لوگ اپنی اپنی پارٹیوں کے سربراہ نہیں بنتے۔ بدنصیبی تو دیکھیے اس ملک کی کہ ایک بھائی ملک کا وزیراعظم تھا ایک بھائی سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ اور اپنی ذاتی فیکٹری کے ایک مینجر کی پوسٹ والے شخص کو ملک کا صدر مملکت چن لیا گیا تھا اور امیر المومنین بننے ہی والے تھے کہ اللہ نے اپنا ڈنڈہ چلایا اور لوگوں نے دیکھ لیا کہ کرسی مضبوط ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا حشر کیا ہوتا ہے اور کیا ہوگا انشااللہ

علامہ اقبال عالم گیر مفکر تھے۔۔۔ عالمگیر فلسفی تھے۔۔۔ غریبوں کے دوست تھے۔۔۔۔ جاگیرداروں کے دشمن تھے۔۔۔۔ وڈیروں کے دشمن تھے۔۔۔۔۔ دشمن سے مراد ان سے نفرت و ناگواری کرتے تھے۔
علامہ اقبال نے فرمایا ۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

علامہ اقبال ملاؤں کے لیے فرماتے ہیں “ دین ملا فی سبیل اللہ فساد “
اور علامہ فرماتے ہیں۔
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراہ کے در و دیوار ہلا دو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آتا ہے مٹا دو۔۔

لوگ کہتے ہی علامہ اقبال پنجابیوں کا شاعر تھا نہیں میرے بھائی وہ تو کہتا ہے پوری دنیا کے غریبوں کو جگا دو یا کہہ رہا ہے “پوری دنیا کے پنجابیوں کو جگا دو “ ۔۔۔۔۔ جسے ہمارے تعصب رکھنے والے سیاستدان کہتے ہیں “جگ پنجابی جگ“۔ ۔۔۔۔۔

بھائی لوگوں علامہ اقبال کوئی پنجابی کے شاعر تھے بے شک پنجابی میں بھی شعر کہے ہیں مگر کوئی مشہور زمانہ شعر یاد ہے پنجابی زبان بولنے والوں کو بھی کسی کسی کو یاد ہو تو ہو مگر ان کو جو رتبہ اردو اور فارسی کی شاعری سے ملا ہے وہ کہیں زیادہ اور دیرپا ہے۔ زرا تصور کی آنکھ سے علامہ اقبال کی اردو یا فارسی شاعری کا پنجابی میں ترجمہ کر دیکھو، ہنسی نا چھوٹ جائے تو کہنا۔ (بھیا برا مت ماننا)۔

شائد ہمارے دوستوں کو عجیب لگے مگر ہندوستان کی مشہور نظم
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
محترم جناب علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے ہی لکھی تھی۔

علامہ فرماتے تھے۔
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

اور

مزید فرمایا
گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھا کر مداری گیا

انہیں کیا پتہ تھا کہ مداری تماشہ دکھا کر دس سال کے معاہدے کے بعد کچھ سالوں پہلے ہی آجائے گا۔

بھائی ہمارا کام ملاپ کا ہے بگاڑ کا نہیں، ہمارا پیغام امن ہے، محبت ہے، احترام انسانیت ہے۔ غور کیجیے عملیت پسندی و حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیجیے اللہ تعالی آپ سب کو اور ہم سب کو ثابت قدم رکے اور ہمارا حامی و ناصر ہو۔ اللہ حافظ۔ پاکستان زندہ باد
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 498972 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.