قوم کی بیٹی

قوموں کی پہچان ان کی ملی غیرت اور حمیت سے ہوتی ہے ۔ کوئی قوم کتنی غیور اور خود دار ہے اس کا اندازہ اس کے طرز عمل سے ہوتا ہے۔ پاکستان صرف ایک آزاد مملکت ہی نہیں بلکہ یہ اس اسلامی اساس کا نام ہے جو محمد بن قاسم اور احمد شاہ ابدالی جیسے جری مجاہدوں نے بر صغیر میں اپنی فتوحات کے ذریعے قائم کی۔ سترہ سالہ محمد بن قاسم کی لشکر کشی تو ایک مسلمان بہن کے خط کے جواب میں عمل میں آئی کہ جن کے قافلے کو راجا داہر کی حکومت میں دیبل کے مقام پر نہ صرف لوٹ لیا گیا بلکہ مسلمان خواتین اور بچیوں کی تذلیل بھی کی گئی۔ محمد بن قاسم نے اپنے لشکر کے ہمراہ راجا داہر کی حکومت کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور اس کے تخت کو پاش پاش کردیا۔ محمد بن قاسم اکیس سال کی عمر میں اس دار فانی سے رخصت بھی ہوگئے لیکن آج بھی تاریخ اسلامی اور خصوصاً برصغیر کے مسلمان ان کا نام انتہائی عقیدت سے لیتے ہیں۔
آج پھر تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایاہے اور ایک مسلمان بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اس کی اپنی ہی سر زمین کہ جہاں وہ پیدا ہوئی، اس کا بچپن گذرا اور اس کے آباﺅ اجداد کی نشانیاں ہیں، سے اٹھا لیا گیا۔ اس کے تین معصوم بچے بھی اس کے ہمراہ تھے جو نجانے اب کہاں ہیں۔ جس ماں کے بچے اس سے چھن جائیںتو وہ زندہ لاش بن جاتی ہے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے ماں باپ ہی کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی بیٹی ہے وہ اس قوم کی بیٹی ہے جو جو بلا شبہ ایک غیور قوم ہے ۔ تو پھر اس بیٹی کی حفاظت کس کے ذمے تھی ۔ غریب سے غریب اور کمزور سے کمزور تر آدمی بھی اپنی ماﺅں، بہنوں اور بیٹیوں کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرتا ہے تو پھر یہ ہماری بیٹی غیروں کے نرغے میں کیونکر چلی گئی۔ دشمن کی جیل میں تشدد سہنے والی بے سہارا خاتون کیونکر اتنی طاقتور ہوگئی کہ وہ ایک پیشہ ور فوجی سے اس کی بھاری بھر کم رائفل چھین کر اس پر حملہ آور ہوگئی۔ یہ ” بڑی قوتیں “ ذرائع ابلاغ کے زور پر کب تک دیگر اقوام کا استحصال کرتی رہیں گی۔ وہ طاقتیں بھی شائد جانتی ہیں کہ ڈری اور سہمی ہوئی قومیں غیور نہیں ہوا کر تیں۔ مصلحت انگیز ی کسی شخص یا قوم سے صرف اسکی غیرت چھین لیتی ہے بلکہ اسے جرات اظہار سے بھی محروم کردیتی ہے۔ اس کے پاس نہ بصیرت رہتی ہے نہ سیرت۔ دشمن کا نام سن کر کپکپاہٹ کا شکار ہونے والے لوگ کب تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ انہیں زندہ انسان تو بہر کیف نہیں کہا جاسکتا وہ گوشت پوست کی زندہ لاشیں بن کر رہ جاتی ہیں۔
جب انسان کے ذاتی مفادات اس کے قومی اور مذہبی وقار اور نظریات سے فوقیت اختیار کر جائیں تو وہ معاشرے میں ایک عضو معطل بن کر رہ جاتا ہے۔ دراصل ہم لوگ من حیث القوم آسائشوں اور مصلحتوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ ہمارے نفس ہماری تخلیق کے مقاصد پر حاوی ہوگئے ہیں۔ جب اسلام کے نام پر شر پسندی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کو جائز قرار دیا جانے لگے اور انسانی خون جانوروں کے خون سے بھی ارزاں ہوجائے تو کوئی سرزمین محبتوں کی سر زمین کیونکر کہلائی جاسکتی ہے۔ فرقہ واریت کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ہے۔ عام شاہراہیں بند کرکے اپنے ہم وطن اور ہم مذہب لوگوں کو محصور کر کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو ایسے میں اگر ہماری کوئی ماں، بہن غیروں کے نرغے میں چلی جاتی ہے تو کوئی اچھنبھے کی بات نہیں ہے۔ جب معاشرہ ہی غفلت کے اندھیروں میں دھنس چکا ہو تو اس کے پاس اتنا وقت کب ہوتا ہے کہ وہ اپنی ماﺅں بہنوں کی عزتوں کی حفاظت کرسکے؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے تو کوئی کفارہ بھی ادا نہیں کیا جاسکتا۔ کیا ہم چند روز نعرے بازی کرکے اور چند کالم لکھ کر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والے ظلم و تشدد کی تشفی کرسکتے ہیں۔ کیا ہم اس کی بہن فوزیہ صدیقی کے ان آنسووئں کا مداوا کرسکتے ہیں جو تسلسل سے اس کی آنکھوں سے رواں ہیں۔ کیا ہم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بوڑھی ماںکے غم کو سمجھ سکتے ہیں۔ کیا ہم اس کے ماموں ایس ایچ فاروقی کے اس دکھ کو جان سکیں گے کہ جب وہ اپنی ہی بہن کے گھر کے باہر دستک دیتے رہے اور وہ لوگ اندر ہونے کے باوجود خوف کے مارے باہر نہیں نکل پائے اور جناب ایس ایچ فاروقی خون کے آنسو روتے ہوئے اسلام آباد واپس آگئے۔ یہ سب کیا ہے ؟ ہم میں سے ہر کسی کو اپنا احتساب خود کرنا ہوگا کہ ہم کتنے سچے مسلمان اور کتنے کھرے پاکستانی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر ہم کتنے بڑے انسان ہیں۔ ہم تو شائد آدمی سے انسان ہونے کے سفر پر ابھی رواں بھی نہیں ہوپائے۔ ملی غیرت اور حمیت کی پاسداری کرنے والی قوموں کی بیٹیاں یوںنہیں اٹھائی جاتیں۔ ایک بات طے ہے کہ اس بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھنے کے لیے اب کوئی محمد بن قاسم نہیں آئے گا۔ اللہ اور اس کے رسول کا نام لینے والا ہر شخص اب محمد بن قاسم ہے۔ جسے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔آج امریکہ اور مغرب کی این جی اوز(غیر سرکاری تنظیمیں) کہاں ہیں۔ وہ تو چائلڈ لیبر جیسے معاملے پر بھی چیخ اٹھتیں ہیں۔ وہ ترقی پذیر ممالک خصوصاً پاکستان جیسے ملک میں چھوٹے چھوٹے مسائل کو اجاگر کرکے اس کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ آج ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ ہے تو وہ سب خاموش تماشائی کیوں بنے ہوئے ہیں۔انسانی حقوق کے بڑے بڑے علمبردار تو اسی سرزمین پر ہیں کہ جہاں ایک بیٹی کی ” تذلیل“ کی جارہی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ انہوں نے امریکہ کی میسا شوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے جینٹیکس میں پی ایچ ڈی کررکھی ہے کو نجانے کس ناکردہ گناہ کی سزا ملی ہے کہ اس کی زندگی کو خوشیوں سے یکسر محروم کردیا گیا ۔ ممتاز شاعر اور ہمارے دوست جناب انجم یوسفی مرحوم کا بیٹا امریکہ میں بسلسلہ روزگار مقیم تھا ایک روز وہ بنک سے رقم نکلوا کر نکل رہا تھا کہ” امریکی کالوں“ کے ہتھے چڑھ گیا جنہوں نے رقم چھیننے کے لیے اسے چھریوں کے پے درپے وار کرکے قتل کردیا۔ جناب انجم یوسفی کا ایک بیٹا پہلے ہی بیرون ملک جانے کے چکر میں دوستوں کے ہاتھوں زہر کھانے سے ہلاک ہوچکا تھا۔ انجم یوسفی امریکہ میں قتل کیے جانے والے اپنے جان سے پیارے بچے کو یوں یاد کرتے تھے۔
کرچی کرچی ہوگیا انجم اب کیا ہونا باقی ہے
آنکھیں مجھ سے پوچھ رہی ہیں کتنا رونا باقی ہے
گویا امریکہ کی حکومتیں ہی نہیں اس کے شہری بھی لوگوں کو غم دینے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ جو ”کالے امریکیوں “سے بچ جائے وہ ”گور ے امریکیوں“ کے ہتھے چڑھ جاتا ہے ۔ بہت سے لوگ اسکے ہتھے چڑھ جانے ہی کے خوف سے بھیگی بلی بنے امریکہ کی ہاں میں ہا ں ملائے چلے جاتے ہیں۔ لیکن معاملہ جب کسی قوم کی بیٹی کا ہو تو کوئی کیونکر چپ رہ سکتا ہے۔ ہمیں جہاں رب کریم کے حضور سر بہ سجود ہو کر اپنی کوتاہیوں کی گڑ گڑا کر معافی مانگنا ہے وہاں بحیثیت قوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی پاکیزہ بیٹی کی باعزت واپسی کے لیے عملی اقدام بھی کرنا ہونگے۔
قتیل اس سا منافق نہیں زمانے میں
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
Yousaf Alamgirian
About the Author: Yousaf Alamgirian Read More Articles by Yousaf Alamgirian: 51 Articles with 94745 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.