حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ۹؍ سال رہیں اور ان ۹؍سالوں میں آپ
رضی اللہ عنہا نے خوب خوب علم حاصل کیا۔ نبی کریم ﷺسے ہمیشہ کچھ نہ کچھ
سوالات کیا کرتی تھیں اور آپﷺجو جوابات عنایت فرماتے انھیںیاد کر لیتیں۔بل
کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خصوصی
تربیت فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ سے کثیر تعداد میں احادیث مروی ہیں۔
آپ کا سوال کرنا بھی حکمت سے خالی نہ تھا کہ اس وجہ سے امت کو دینی احکام
و مسائل سیکھنے کو ملے۔ ذیل میں چند روایتیں نقل کی جاتی ہیں جو ہمارے لیے
بہترین سبق اور تعلیم ہیں۔
(۱) ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریمﷺسے سوال کیا کہ:
’’ یارسول اللہ! میرے دو پڑوسی ہیں، فرمائیے کہ میں ہدیہ دینے میں ان دونوں
میں سے کس کو اولیت دوں ؟‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:’’ دونوں میں سے جس کے گھر کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو اس کو
اولیت دو۔‘‘ (بخاری شریف)
(۲)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیںکہ :’’ ایک دن میں نے اور
(حضرت) حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے نفلی روزہ رکھ لیا پھر کھانا مل گیا جو
کہیں سے ہدیہ آیا تھا۔ ہم نے اس میں سے کھا لیا۔ تھوڑی دیر بعد نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ میرا ارادہ تھا کہ میں آپﷺسے سوال کروں
مگر مجھ سے پہلے حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے پوچھ لیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ یارسول اللہ!
میں نے اور عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے نفلی روزے کی نیت کی تھی۔ پھر ہمارے
پاس ہدیۃًکھانا آ گیا جس سے ہم نے روزہ توڑ دیا۔ پس فرمائیے کہ اس کا کیا
حکم ہے؟ ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم دونوں اس کی جگہ
کسی دوسرے دن روزہ رکھ لینا۔‘‘
(۳) ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’ قیامت کے دن
لوگ ننگے پاؤں ، ننگے بدن ، بغیر ختنہ اٹھائے جائیں گے۔ (جیسا کہ ماں کے
پیٹ سے دنیا میں آتے ہیں ) ‘‘ یہ سن کر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ یارسول اللہ! یہ تو بڑے شرم کا مقام ہو گا۔ کیا
مرد و عورت سب برہنہ ہوں گے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے؟ ‘‘ اس کے جواب میں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ اے عائشہ ! قیامت کے دن کی
سختی اس قدر زیادہ ہو گی اور لوگ گھبراہٹ اور پریشانی سے ایسے بدحال ہوں گے
کہ کسی کو کسی کی طرف دیکھنے اور توجہ کرنے کا ہوش و حواس ہی نہ ہو گا۔
مصیبت اتنی زیادہ اور شدید ہو گی کہ کسی کو اس کا خیال بھی نہ آئے گا۔‘‘
(۴)ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ ’’ اے اللہ!
مجھے مسکین زندہ رکھ اور حالت مسکینی میں مجھے دنیا سے اٹھا اور قیامت میں
مسکینوں کے ساتھ حشر فرما۔ یہ دعا سن کر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ یارسول اللہ! آپ نے ایسی دعا کیوں فرمائی؟‘‘
آپﷺنے فرمایا:’’ اس لیے کہ بلاشبہ مسکین لوگ مال داروں سے چالیس سال پہلے
جنت میںداخل ہوں گے۔ ‘‘ پھر فرمایا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ :’’
اے عائشہ! اگر مسکین سائل ہو کر آئے تو مسکین کو کچھ دیے بغیر واپس نہ کرو
اور کچھ نہ بھی ہو تو کھجور کا ایک ٹکڑا ہی دے دیا کرو۔ اے عائشہ ! مسکینوں
سے محبت کرو اور ان کو اپنے رب سے قریب کرو جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہیں
قیامت کے روز اپنے سے قریب فرمائے گا۔‘‘(ترمذی شریف) بعض محدثین اور شارحین
نے اس حدیث میں مسکینی سے مراد باطنی مسکینی لی ہے ان کے مطابق نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعا فرمانا کہ :’’ مجھے مسکین زندہ رکھ‘‘ یعنی
آپﷺکا باطنی مسکینی کو خشوع و خضوع کے ساتھ طلب کرنا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم
مسکینوں اور فقرا کو نہ جھڑکیں اور اپنے باطن کو مسکینیت سے سجائیں یعنی
اللہ و رسول جل شانہ و صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و الفت میں جئیں اور
مریں۔
(۵)ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ جو شخص
اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو
پسند فرماتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو نا پسند کرتا ہے اللہ
تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند فرماتا ہے۔ ‘‘ یہ ارشادِ مبارک سن کر
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ یارسول اللہ! موت ہم سب کو
بْری لگتی ہے(لہٰذا آپ کے فرمان کا مطلب یہ ہوا کہ ہم میں کوئی شخص بھی
اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند نہیں کرتا لہٰذا اللہ تعالیٰ بھی ہم میںسے
کسی کی ملاقات کو پسند نہیں فرماتا)‘‘ اس کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اس کا یہ مطلب نہیں ہے جسے طبعی طور پر موت بری لگی
اللہ کواس کی ملاقات نا پسند ہے بل کہ مطلب یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت
نزدیک آ جاتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے
انعام و اکرام کی خوش خبری سنائی جاتی ہے لہٰذا اْس کے نزدیک کوئی چیز اْس
سے زیادہ محبوب نہیںجو مرنے کے بعد اْسے ملنے والی ہے۔ اس وجہ سے وہ اللہ
تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ایسے بندوں کی
ملاقات کو پسند فرما نے لگتا ہے اور بلاشبہ کافر کی موت کا وقت جب نزدیک
آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ملنے کی اس
کو خبر سنائی جاتی ہے لہٰذا اْس کے نزدیک کوئی چیز اْس سے زیادہ ناپسند اور
بْری نہیںہوتی جو مرنے کے بعد اْس کو ملنے والی ہے اسی وجہ سے وہ اللہ
تعالیٰ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے ، چناں چہ اللہ تعالیٰ بھی ایسوں کی
ملاقات کو ناپسند فرماتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف) معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے
نیک بندوں کی موت کا دن ایک طرح سے اْن کے لیے خوشی و مسرت کا دن ہوتا ہے
کیوں کہ وہ اپنے اللہ سے ملنے والے انعامات اور اکرامات سے قریب ہونے جا
رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ کافروں اور مشرکوں کے لیے موت ہی سے سختی کا دروازہ
کھل جاتا ہے۔ |