عصرحاضر کے بعض سنجیدہ ارباب فکر ودانش کا خیال ہے کہ اس
وقت مسلمان مکی دور میں ہیں۔ گلوب پر مسلمانوں کی نہ عددی اکثریت ہے نہ
تعلیمی ، معاشی واقتصادی اورنہ ہی فکری و اعتقادی۔ کہنے کوتو پچاس سے زائد
مسلم ریاستیں ہیں لیکن سب ہی باطل قوتوں کے دست نگر ، ان میں اتنی بھی سکت
نہیں کہ اپنی شرطوں پر غیر مسلم ریاستوں سے معاہدے کرلیں۔ اسرائیلی ،
امریکی اور برطانوی افواج جب جس پر چاہیںبموں کی بارش کرکے چلی جائیں اور ا
سکے بعد مسلمان فریادوماتم کریں۔ عرب ممالک کوقدرت نے سونے کے سمندر عطا
کیے ہیں، لیکن ان کی فکریں مفلوج اور عقلیں امریکہ وبرطانیہ کی گروی ہیں۔
فلسطین، چیچنیا ،برما، کشمیرآسام اورگجرات سے مسلم آہیں بلند ہوتی ہیں
اور مسلمان دواشک بہانے سے زیادہ کچھ نہیں کرپاتے ۔ بابری مسجد دن کے اجالے
میں شہید کی جاتی ہے اور میڈیا میں قاتلوں اور مجرموں کے چہرے صاف طورسے
دکھائے جاتے ہیں ، مگر اس کے باوجود اس کی رپورٹ کے آنے میں۱۸؍سال لگ جاتے
ہیں۔ یہ سارے حوالے اس بات کو بتارہے ہیں کہ مسلمان مکی دور سے گزررہے ہیں۔
اس لیے مسلمانوں کو وہی کچھ کرنا چاہئے جو رسول اوراصحاب رسول نے مکی دور
میں کیا، جسے دو لفظوں میں استقامت علی الدین اور صبرودرگزرکہاجاسکتا ہے ۔
مکی دور کی ایک اور خصوصیت ہے ، اس دور میں رسول کریم علیہ الصلوٰۃ
والتسلیم صبر وشکر کے ساتھ اسلامی دعوت کے سامنے بہت ساری رکاوٹیں اور
دشواریاں حائل تھیں ، مگر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مشن سے
جڑے رہے اور مکہ میں رہتے ہوئے مکہ سے باہر اپنے اعوان وانصار کی ایک جماعت
پیدا کردی۔
موجودہ دور میں ہم اپنا محاسبہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم صرف غلبۂ اسلام
کا خواب دیکھتے ہیں، استقامت علی الدین کافریضہ کسی اور کے لیے چھوڑرکھا ہے
۔ دین ہمارے وجود سے دور ہوگیا ہے ۔ دین کے نام پرجو کچھ بچا ہے ، وہ ذہنی
دریچے میں چھپا ہوا ہے اورجہاں تک دعوت وتبلیغ کی بات ہے توپوری دنیا میں
اس کے وسیع ترامکانات کے موجود ہونے کے باوجود ہم ابھی اس میں الجھے ہوئے
ہیں کہ پہلے یہ طے کرلیں کہ ہمارااصل حریف کون ہے اور پھر یہ طے کریں کہ
عالمی اسلامی دعوت کے طریقے اور ذرائع کیا ہوں گے؟ اس طرح یہ غیرضروری
مباحث اصل دعوت کی راہ میں بری طرح رکاوٹ پیدا کررہی ہیں ۔ ممکن ہے کہ بعض
اہل دانش کو اس امر میں اختلاف ہوکہ مسلمان آج مکی زندگی میں ہیں اور وہ
دلیل میںیہ کہیں کہ آج دنیا مختلف معاہدوں کے رو سے چل رہی ہے ، مسلمان
بھی ان معاہدوں کے پابند ہیں اورانہیں معاہدوں کے رو سے انہیں پوری دنیا
میں سفر کرنے اور اسلامی دعوت عام کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس طرح گویا آج
مسلمان میثاق مدینہ کے عہد میں جی رہے ہیں۔ ایسے میں ان کا فرض ہے کہ وہ
عالمی معاہدوں کااحترام کریں اور عالمی دعوتی امکان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے
عالم گیر دعوتی مشن میں لگ جائیں ، بجائے اس کے کہ وہ وہائٹ ہاؤس پر جھنڈا
لہرانے اور پارلیمنٹ کو دارالشوریٰ بنانے کی سوچیں۔ مسلمانوں کی اس سے بڑی
نادانی اورکیا ہوسکتی ہے کہ جس کا اختیار انہیں حاصل ہے اس سے تو نظریں
چرائیں اورجو چیز ان کے اختیارسے باہر کی ہے اس کے درپے ہوکر عام مسلمانوں
کی تباہی کا سامان پیدا کریں۔ |