ارشاد باری تعالیٰ ہے،ترجمہ:اور
بے شک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سرو سامان تھے ۔(آل
عمران:۱۲۳)بدر، مدینہ منورہ سے تقریبا اسّی میل کے فاصلے پر ایک گائوںکا
نام ہے جہاں زمانۂ جاہلیت میں سالانہ میلہ لگتا تھا ۔یہاں ایک کنواں بھی
تھا جس کے مالک کا نام ’’بدر‘‘ تھا۔اسی کے نام پر اس جگہ کا نام ’’بدر‘‘
رکھ دیا گیا۔(سیرت المصطفیٰ ،ص:۱۶۲)ضیاء الامت حضرت علامہ پیر محمد کرم شاہ
ازہری قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:تاریخ اسلام کا یہ وہ معرکہ ہے جب اسلام
اور کفر، حق وباطل ، سچ اور جھوٹ کی پہلی ٹکر ہوئی اسی معرکہ میں فرزندان
اسلام کی تعداد لشکرِ کفار کی تعداد سے ایک تہائی تھی ،وسائل اور اسلحہ کے
اعتبار سے بظاہر بہت کمزور تھے، جزیرۂ عرب کا اجتماعی ماحول سراسر ان کے
خلاف تھا۔انتہائی خوش فہمی کے باوجود اسلام کے غلبہ اور فتح مند ہونے کی
پیش گوئی نہیں کی جاسکتی تھی۔ کفر بڑے کروفر کے ساتھ حق کی بے سروسامانی سے
نبرد آزما ہونے کے لیے تین گنا فوج لے کر بڑے غرور ورعونت سے میدان میں
آیاتھا لیکن اسے ایسی فیصلہ کن ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جس نے اس کی کمر
توڑ دی پھر اسے کبھی ہمت نہ ہوئی کہ وہ اس شان سے حق کو للکار سکے۔ مورخین
اس معرکہ کو غزوۂ بدر الکبریٰ ، غزوۂ بدر العظمیٰ کے نام سے یاد کرتے ہیں
لیکن ربِّ قدوس نے اپنی کتاب مقدس میں اسے یومُ الفرقان کے لقب سے ملقب
فرمایا ہے یعنی وہ دن جب حق اور باطل کے درمیان فرق آشکارا ہوگیا اندھوں
اور بہروں کو بھی پتہ چل گیا کہ حق کا علمبردار کون ہے اور باطل کا نقیب
کون؟ارشاد ربانی ہے۔ترجمہ: اور اس پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن
اتارا جس دن دونوں فوجیں ملیں تھیں۔(الانفال:۴۱) جنگ بد ر ہمیں یہ پیغام
عطا کر رہی ہے کہ دور اول ہی سے حق وباطل کے درمیان معرکہ آرائی ہوتی رہی
ہے ،مگر ہر دور میں فتح حق ہی کی ہوئی ہے اور بیشک باطل کو ایک دن مٹناہی
ہے شرط یہ ہے کہ اہل حق استقامت پذیر رہے اور اپنے رب سے اپنا رشتہ ہمیشہ
مضبوط رکھیں۔آج بھی مسلمانوں کو بہت سے داخلی اور خارجی مسائل درپیش
ہیں،مسلمانوں کوچاہئے کہ ایسے ناساز گار حالات میں اللہ ورسول ﷺ کی
فرمانبرداری کریں،شریعت اسلامیہ پرسختی سے عمل کریںاور صبرکا دامن تھامے
رہیں، اللہ کی مدد یقیناشامل حال ہوگی۔ |