نئی حکومت کے قیام سے لے کر اب
تک طرز حکمرانی میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا سابق حکومت کو لوڈ شیڈنگ اور
طرز حکمرانی نے ڈبویا تھا مسلم لیگ ن نے ان کی خامیوں کو اجاگر کرکے عوام
کو اچھی حکمرانی دینے اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے نام پر ووٹ حاصل کئے ۔حکومت
نے گردشی قرضوں کی مد میں اربوں روپے ادا کردئے ہیں لیکن لوڈ شیڈنگ کا جن
قابو میں نہیں آرہا بلکہ حالات پہلے سے بھی بدتر ہوتے جارہے ہیں اب کہا
جارہا ہے کہ گرڈ اسٹیشن اور سسٹم پرانا ہونے کی وجہ سے بہتر نتائج حاصل
نہیں ہورہے لیکن یہ تو بتایا جائے کہ گرڈ اسٹیشن اور باقی سسٹم انہی دنوں
میں ناکارہ ہوا ہے یا پہلے بھی یہی تھا جب آپ عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی
کرتے ہوئے عوام کے ساتھ شانہ بشانہ مظاہروں میں شریک ہوا کرتے تھے بلکہ
ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو ہدایات تھیں کہ وہ لوڈ شیڈ نگ کے خلاف ہونے
والے مظاہروں میں بھر پور شرکت کریں کئی مقامات پر تو سرکاری املاک کو
زبردست نقصان بھی پہنچا اور بعد ازاں شرپسندوں کے خلاف بنائے گئے مقدمات
صوبائی حکومت نے واپس لے لئے تھے۔کشکول توڑکر عوام کو اپنے پاوں پر کھڑا
کرنے کی نوید سنانے والوں نے آئی ایم ایف کے ہاتھوں بیعت کرلی اور ان کی
شرائط پر قرضہ حاصل کیا بلکہ بجٹ کی تیاری میں بھی آئی ایم ایف کی شرائط کو
ترجیح دی گئی۔سابق حکومت کی طرح جہاز بھر کر اپنے پورے خاندان کے ہمراہ غیر
ملکی دورے کئے جاتے ہیں بلکہ اپنے چہیتوں کو بھی اہم ملاقاتوں میں ساتھ رکھ
کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ انہی لوگوں سے معاملات طے کرنا پڑیں
گے اپنی سابق دور حکومت میں بھی موجودہ قیادت نے انہیں اونے پونے میں ایک
بینک سے نواز دیا تھا اب بھی کوئی اہم ادارہ ا نہیں سونپا جاسکتا ہے ۔
سوا ماہ کی حکومت میں ہی پندرہ ارب روپے کی کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں
توبیچاری عوام کو کیا ملا وہ کس پر اعتبار کرے جس پر بھی اعتماد کرتی ہے وہ
بھی وہی کچھ کرتا ہے جو سابقہ ادوار میں ہوتا ہے فرق صرف کردار بدلنے کا ہی
ہوتا ہے سکرپٹ تو پرانا ہی ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں خادم اعلی پنجاب کے
صاحبزادے سستا رمضان بازاروں کے معائنے کے لئے ہیلی کاپٹر پر نکلے تھے جبکہ
ان کی بلٹ پروف گاڑیاں ان کے وہاں پہنچنے سے قبل ہی پہنچادی گئی تھیں سستا
رمضان بازار کا مہنگا ترین معائنہ ہوا جبکہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ
کو ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کا خرچہ اپنی جیب سے ادا کرنا پڑا ۔ سوا تین
ارب کی سبسڈی دینے کے باوجود عام آدمی کی مشکلات کم نہیں ہوسکیں جبکہ ساری
صوبائی حکومت رمضان بازاروں کو سستا اور معیاری کرنے میں لگی ہوئی ہے
روزانہ کوئی نہ کوئی صوبائی وزیر کسی نہ کسی رمضان بازار میں نظر آتا ہے
تمام تر کوششوں کے بھی غریب آدمی کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا ہمارا طریقہ
کار ہی ریلیف میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ہم مصنوعی طریقے اور ڈنگ ٹپاو پالیسی
پر چلتے رہنا چاہتے ہیں اگر ہم اپنے اداروں کو مضبوط کریں اور ان کے ذریعے
ہی کام کروائیں تو زیادہ بہتر نتائج مل سکتے ہیں یہ عارضی اور خوبصورت
بیانوں کی حد تک کا سلسلہ زیادہ دیر چلتا نظر نہیں آتا۔ |