نیا صدر پاکستان کون؟

د

آصف زرداری کا دورِصدارت بہت سی خوشگوار اور ڈھیروں’’دردناک‘‘ یادوں کے ساتھ اپنے اختتام کو بس پہنچنے ہی والا ہے۔ الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات کے لیے 6 اگست (27رمضان) کی تاریخ دی ہے، جبکہ حکومت اور اپوزیشن انتخابات عید کے بعد کرانا چاہتی ہیں، فی الحال تو الیکشن کمیشن نے ان کی درخواست کو رد کردیا ہے۔ لیکن لگتا یہی ہے نئے صدر کے لیے انتخاب عید کے فوراً بعد ہوگا۔ زرداری صاحب بہت خوش قسمت واقع ہوئے ہیں۔ ان کا خاندان شروع سے سیاست میں متحرک رہا ہے مگر انہیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوسکی تھی۔ 1985ء کے عام انتخابات جس کا بے نظیر بھٹو نے بائیکاٹ کیا تھا۔ ان انتخابات میں حاکم علی زرداری قومی اور ان کے صاحبزادے آصف علی زرداری صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے کھڑے ہوئے تھے، لیکن دونوں باپ بیٹے چند سو ووٹ ہی حاصل کرپائے۔ زرداری صاحب کی لاٹری اس وقت کھلی جب ان کی بے نظیر بھٹو سے شادی ہوئی۔ شادی کے بعد وہ محترمہ کے دونوں ادوار میں وزارتوں پرفائز رہے اور دونوں بار ان کی مبینہ کرپشن کی وجہ سے بے نظیر حکومت گری۔ 2007ء میں محترمہ کے قتل کے بعد زرداری صاحب کے لیے نئی سیاسی راہیں کھلیں اور وہ انتہائی غیرمتوقع طور پر قصر صدارت میں براجمان ہوگئے۔ زرداری صاحب کا کریڈٹ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے تمام اختیارات 1973ء کے آئین کی اصل روح کے مطابق وزیراعظم کوسونپ دیے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے دور میں ایوان صدر جوڑتوڑ کا مرکز بنا رہا۔ مخالفین کے الفاظ میں ’’وہاں سازشیں تیار ہوتی رہیں۔‘‘ یہ بھی حقیقت ہے کہ صدر کا منصب جس اہلیت، وقار اور تدبر کا تقاضا کرتا ہے آصف زرداری بہرحال اس پر پورا نہیں اترتے تھے۔ اس وجہ سے اس عہدے کی بے توقیری ہوئی۔ زرداری صاحب نے مفاہمت کی پالیسی کو اپنائے رکھا اس سے سیاسی کھینچ تان میں تو کمی ہوئی لیکن مفاہمت کے نام پر جس طرح اتحادیوں کو آزاد چھوڑا گیا اور لوٹ مار کے مواقع فراہم کیے گئے، اس نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

زرداری دور حکومت پر تو لکھا جاتا رہے گا، آج کا سوال یہ ہے نیا صدر پاکستان کون ہوگا؟ یا کسے ہونا چاہیے؟ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کے نام سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ن لیگ نے سرتاج عزیز، جسٹس (ر) سعیدالزماں صدیقی، ممنون حسین کے نام شارٹ لسٹ کردیے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے میاں رضا ربانی کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد کا نام سامنے آیا ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ صدر مملکت کا عہدہ چونکہ آئینی طور پر غیرسیاسی اور غیرجانبدار ہوتا ہے، اس لیے اس منصب پر کسی ایسے شخص کو فائز کیا جانا چاہیے جو کوئی واضح سیاسی وابستگی نہ رکھتا ہو۔ جس طرح بھارت میں ایٹمی سائنس دان ابوالکلام کو صدر بنایا گیا تھا، اسی طرح لوگ ڈاکٹر عبدالقدیرخان کا نام لے رہے ہیں۔ بلاشبہ ڈاکٹر صاحب محسن پاکستان ہیں، ہر شخص کو ان کی بیش بہا خدمات کا اعتراف ہے البتہ پچھلے چند برسوں سے ڈاکٹر صاحب کی جو سرگرمیاں رہی ہیں، ان سے وہ خاصے متنازع ہوگئے ہیں۔ ان کے ’’مخلص‘‘ دوست انہیں انتخابی سیاست میں گھسیٹ لائے ہیں، صرف اتنا ہی نہیں، ان سے قومی رہنماؤں کے خلاف سخت بیانات دلوائے اور کالم لکھوائے جارہے ہیں، عوام نے ڈاکٹر صاحب کے اس کردار کو پسند نہیں کیا ہے، اس کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ ان کی جماعت نے 11مئی کے انتخابات میں میزائل کے نشان پر حصہ لیا تھا، ڈاکٹر صاحب نے خود انتخابی جلسوں سے خطاب کیا، اس کے باوجود ان کے سارے امیدوار مل کر چند ہزار ووٹ ہی حاصل کرسکے۔ ڈاکٹر صاحب کو اﷲ نے بڑی عزت دی تھی اور قوم اب بھی ان کا بڑا احترام کرتی ہیں۔ لیکن کیا کیجئے، وہ ایک ایسی سیاست کررہے ہیں جو ان سے میل نہیں کھاتی۔ ڈاکٹر صاحب کے اس رویے کی وجہ سے صدر مملکت کے لیے ان کے نام پر اتفاق تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔

پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ وہ رضاربانی کی صورت میں ایک بہترین امیدوار سامنے لائی ہے، دیگر جماعتوں کو ان کے نام پر اتفا ق کرلینا چاہیے۔ بلاشبہ رضاربانی مسٹر کلین کے طور پر معروف ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ، پروقار اور تمام حلقوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے، رضاربانی پچھلے دور حکومت میں بھی اتنے ہی ’’اچھے‘‘ تھے، پھر پی پی نے انہیں صدر کے عہدے کے لیے کیوں نامزد نہیں کیا؟ حالانکہ اس وقت پی پی انہیں باآسانی جتوا بھی سکتی تھی۔ اب تو پی پی ہارے ہوئے جواری کی مانند ہے، اس کے امیدوار کو کوئی کیوں متفقہ امیدوار بنائے گا۔ تحریک انصاف کے پاس بھی کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جسے متفقہ طور پر صدر مملکت منتخب کرلیا جائے۔ اب ذرا ن لیگ کی طرف آتے ہیں۔ لیگی حلقوں میں سرتاج عزیز کو فیورٹ امیدوار قرار دیا جارہا ہے۔ یہ صاحب نوازشریف کی سابقہ حکومتوں میں بھی اہم عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں۔ بطور وزیرخزانہ انہوں نے اتنے ٹیکس لگادیے تھے کہ یار لوگوں نے ان کا نام ہی ’’سرچارج‘‘ عزیز رکھ دیا تھا۔ عوامی سطح پر ان کی کوئی ساکھ نہیں ہے البتہ سنا ہے انکل سام کا ہاتھ ان کی پشت پر ہے۔ ممنون حسین گورنر سندھ رہے ہیں، ن لیگ کے صوبائی عہدیدار بھی ہیں لیکن کارکنان ان کے خلاف شکوے شکایت کرتے ہی ملتے ہیں۔ غوث علی شاہ پرانے لیگی ہیں۔ سندھ کے وزیراعلیٰ سمیت کئی عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ چھوٹے صوبے اور سندھی ہونے کی وجہ سے ان کی پوزیشن خاصی مضبوط ہے، لیکن یہ کافی سیاسی تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر پیپلزپارٹی ان کی سخت ناقد ہے۔ مہتاب عباسی، اقبال ظفر جھگڑا اور سردار یعقوب ناصر پرانے سیاست دان ہیں، میاں صاحب سے وفاداری نبھانے کا ریکارڈ بھی اچھا ہے۔ ان تینوں کا چھوٹے صوبوں سے تعلق ہے، اس لیے ان میں سے ہر ایک کو صدارت کا مضبوط امیدوار تصور کیا جارہا ہے، لیکن بات وہی ہے، ن لیگ سرتاج عزیز، ممنون حسین، غوث علی شاہ، مہتاب عباسی، اقبال ظفر جھگڑا اور یقوب ناصر کو عددی برتری کی بنیاد پر جتواتو سکتی ہے مگر سب جماعتوں کے لیے قابل قبول نہیں بنواسکتی۔ البتہ ن لیگ کے پاس ایک ایسا نام ضرور ہے جو سب کے لیے قابل قبول ہوسکتا ہے۔

سابق چیف جسٹس آف پاکستان سعیدالزماں صدیقی وہ واحد جج ہیں جنہوں نے پرویزمشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کرتے ہوئے عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ ان کی شخصیت کرپشن کے دھبوں سے بھی پاک ہے، دوست دشمن سب ان کی امانت ودیانت اور اصول پسندی کے معترف ہیں، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کی کوئی واضح سیاسی وابستگی بھی نہیں ہے، یعنی صدر مملکت کے منصب پر فائز ہونے کے لیے جو تجربہ، تعلیم، وقار، غیرجانبداری جیسی خصوصیات درکار ہیں وہ ان میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ ن لیگ نے پہلے بھی صدیقی صاحب کو اپنا امیدوار بنایا تھا، اس بار بھی امید یہی ہے کہ انہیں ہی میدان میں اتارا جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ملک وقوم اور صدر کے عہدے کی توقیر بحال کرنے کے لیے ن لیگ کا ایک اچھا فیصلہ ہوگا۔ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی جانب سے سعیدالزماں صدیقی کی حمایت کی پوری پوری توقع کی جاسکتی ہے جبکہ پی پی رہنما بھی ماضی میں صدیقی صاحب کے بارے میں اچھے الفاظ کا استعمال کرتے رہے ہیں۔

میاں صاحب نے صدارتی امیدواروں کے ناموں پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ایک پانچ رکنی تشکیل دی ہے جو اپوزیشن جماعتوں سے جلد بات چیت کا آغاز کرنے والی ہے۔ میرا خیال ہے، اگر ن لیگ خلوص دل سے کوشش کرے تو وہ سعیدالزماں صدیقی کے نام پر اپوزیشن کو راضی کرسکتی ہے۔

munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 110937 views i am a working journalist ,.. View More