تہران ایمبیسی ،باکمال لوگ لاجواب سروس

ملکوں کے درمیان تعلقات اور کاروبار وغیرہ کو باامن طریقے سے چلانے کے عمل کو سفارت کاری کہا جاتا ہے ۔ بین الاقوامی مذاکرات با آسانی حل کرنے کے طریقے اور سفارت کار کے اسلوبِ عمل بھی سفارت کاری سے عبارت ہے ۔ امن ، جنگ ، تجارت ، تہذیب ، معاشیات ، اقتصادیات وغیرہ میں ممالک کے درمیان معاہدے اور مفاہمتیں سفارتکاری ہی سے انجام پذیر ہو تی ہیں ۔اور جو اس سافارتی عمل کو انجام دیتا ہے اسے سفیر کہا جاتا ہے۔دنیا کے مختلف ممالک میں پاکستان کے سفارت خانے موجود ہیں اور ان میں سفارتی عملہ بھی ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ کتنا خداداد ملک پاکستان کی خدمت کرتے ہیں یا جس ملک میں وہ پاکستان کی جانب سے سفیر بنتے ہیں اسکی بیشتر خدمت کرتے ہیں؛ اسکی ایک مثال میمو گیٹ سکینڈل ہے۔یہ تنخواہ تو پاکستان سے لیتے ہیں لیکن خدمت دوسروں کی کرتے ہیں۔یا کچھ بھی نہیں کرتے مگر کمال کرتے ہیں۔جیسا کہ واصف علی واصف مرحوم نے لکھا کہ سعودی عرب میں ایک مشکل آئی تو پاکستانی سفارتخانے رجوع کیا تو تین دن تک چکر لگاتا رہا لیکن ہربار یہی جواب ملتا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں مصروف ہیں وغیرہ وغیرہ۔تو وہاں سے پاکستان فوں کیا تو معلوم ہوا کہ سفیر محترم پاکستان کسی ملنے والے کے رشتہ دار ہیں تو انہوں نے کہا کہ انہیں جاکر میرا بتاؤ تو کام ہو جائے گا، یہ نسخہ استعمال کرنے سے قبل جواب حسب سابق ہی تھا کہ صاحب مصروف ہیں نسخہ استعمال کرنے کے بعد انہوں نے فورا ہی دفتر میں بلا لیا جب میں دفتر میں داخل ہوا تو مصروفیت اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کرکے حیران رہ گیا کہ صاحب کرسی پر براجمان ہیں اور ایک اخبار کا مطالعہ فرما رہے ہیں،مجھے دیکھ کر ہی کہنے لگے کہ آپ نے پہلے کیوں نہ بتایا کہ آپ فلاں کے ذریعے سے آئے ہیں۔تو جناب یہ حال ہے ہمارے سفارت کاروں کا اور انکی مصروفیات کا،اگر یہ اپنی ذمہ داری صحیح طریقے سے انجام دیتے تو دنیا میں پاکستان کا یہ تعارف نہ ہوتا!

مجھے بھی اس مصروفیت کا حال تہران میں واقع پاکستانی سفارتخانے میں دیکھنے کوملا ،وہاں میں نے دیکھا کہ چند ایرانی پاکستان کا ویزا لینے کیلئے اور پانچ پاکستانی نیا پاسپورٹ بنوانے اور دو اپنا پاسپورٹ لینے کیلئے آئے تھے۔ وہاں بھی وہی مصروفیت کا رونا رو کر انہیں بلاوجہ تنگ کیا جاتا ہے ۔جب ایک سے کہا جاتا ہے کہ آپ پاسپورٹ کیلئے نکاح نامہ لیکر آؤ! یا نیا شناختی کارڈ کی بجائے نکوپی لیکر آؤ! یا اپنا شناختی کارڈ نمبر پاکستان میں نادرا کے نمبر 7000 پر میسج کرو اور جو جواب آئے وہ لیکر آؤ اور نادرا یا تو چپ سادھ لیتا ہے یا احسان کرکے جواب دیتا ہے تو صرف نام اور والد کانام لکھا آتا ہے !بھلا عملے سے انسان پوچھے کہ یہ تو اس شخص نے پہلے بھی بتایا تھا اور کارڈ بھی دکھایا لیکن اعتبار نہیں کیا گیا۔ایک بلتستانی سے کہا گیا کہ اردو سناؤ!بدبخت کیا پاکستان میں سبھی اردو جانتے ہیں ؟بلاول ،بختاور گورنر پنجاب اور سپیکر قومی اسمبلی سمیت کئی لوگوں کو اردو نہیں آتی۔ایک سے کہا گیا کہ یہاں کیوں آئے ہو؟اسکا پاسپورٹ پاکستانی آئی ڈی پاکستانی تو کیا وہ پاسپورٹ انڈین ایمبیسی میں جاتا!!!

جب بات کی تو جواب ملا کہ یہ محترم زیادہ رش برداشت نہیں کرسکتے اس لیے انکا موڈ آف ہوجاتا ہے۔واہ کیا جواب ہے! جب ۵ بندوں کا رش برداشت نہیں کرسکتے تو یہ صاحب یہاں کیوں متعین ہیں کسی خالی دفتر میں بٹھایا جائے تاکہ سکون سے رہیں کیونکہ ہم پاکستانیوں بالخصوص ایمبیسیوں کے عملوں کو کام کی بالکل زحمت برداشت نہیں ہے۔

ایک جواب یہ ملا کہ ہمیں زیادہ افراد رکھنے کی اجازت نہیں ہے تو سفیر محترم کی خدمت میں عرض ہے کہ چلیں زیادہ عملہ نہ رکھیں لیکن کم از کم بااخلاق عملہ تو رکھ لیں! کیا یہ بھی حکم ہے کہ بداخلاق شخص ہی رکھنا ہے؟

ان سفارتخانوں میں اسی طرح سمندر پار پاکستانیوں کی توہین کی جاتی ہےاور کوشش کی جاتی ہے کہ انہیں دوسرے شہر سے دوبارہ چکر لگوایا جائے۔اسکا کوئی نوٹس لینے والا نہیں ہے حکومت وقت سے گزارش ہے کہ اس جانب بھی توجہ دے۔

لیکن ان مشکلات کا سادہ سا حل بھی موجود ہے کہ سب سے پہلے تہران ایمبیسی اپنے ویب سائٹ اپڈیٹ کرے اور اس میں تمام فارم اپلوڈ ہوں اور وہیں ان فارموں کو پر کیا جائے اور ضروری خانے صحیح پر کیے جانے تک اگلا فارم سائٹ پر نہ آئے جب مکمل ہوجائے تو اسوقت اسے ڈاؤنلوڈ کیا جائے اور وہی سفارت خانے میں جمع کروائے جائیں۔دوسرا یہ کہ ایمبیسی میں فون یا اشتہار کے ذریعے ضروری اطلاعات پہنچائی جائیں۔

آخر میں ایک بات یہ ہے کہ ہم ہر بات میں اسلامی نمونہ عمل پیش کرنے کے بجائے ہر کام میں بھارت کی مثال دیتے ہیں تو یہاں بھی یہی کرلیا جائے کیونکہ انڈین ایمبیسی تہران میں رجوع کرنے والے سے انتہائی خوش اخلاقی سے برتاؤ کی جاتا ہے اور اسکی مشکل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اسے دوبارہ تکلیف نہ ہو اور اگر پھر بھی حل نہ ہو تو رجوع کرنے والا بھارتی سفیر سے بالمشافہ ملاقات کرسکتا ہے اور مشکل حل کروا سکتا ہے۔کیا جس چیز کا ہم راگ الاپتے ہیں کبھی اس پر عمل بھی کیا ہے؟اے کاش ہمیں باتوں کے بجائے عمل کی عادت پڑ جائے خدا اس نالائق سفارتی عملے کی ہدایت کرے۔آمین
مومنہ اقبال
About the Author: مومنہ اقبال Read More Articles by مومنہ اقبال: 6 Articles with 4225 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.