آج سے صرف5سال کے بعد بازار میں ایسا گوشت ملنا شروع
ہوجائے گا جو ہوگا تو مرغی‘ بکرے اور گائے کا ہی گوشت مگر وہ لیبارٹری سے
حاصل کیا جائے گا۔کلوننگ بائیو ٹیکنالوجی کی مد د سے آکسفورڈ یونیورسٹی کے
سائنس دانوں نے لیبارٹری میں اصل جین کی افزائش کے ذریعے حقیقی گوشت بنانے
میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ نقلی گوشت کا ذائقہ تو گوشت سے ملتا جلتاہوگا
مگر اس کی ساخت اور دوسری صفات گوشت جیسی نہیں ہوگا۔ لیبارٹری میں بنایا
جانے والا گوشت ہر لحاظ سے اصلی گوشت جیسا ہوگا اور ابتدائی مراحل میں اسے
اصلی جانوروں کے جین کی افزائش کے ذریعے تیار کیا جائے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ لیبارٹری کا گوشت وہ لوگ بھی استعمال کرسکیں گے جو
اپنے عقائد کی بنا پر محض اس وجہ سے گوشت نہیں کھاتے کیوں کہ وہ اپنی خوراک
کے لئے جانوروں کو ہلاک کرنے کے خلاف ہیں۔
مصنوعی گوشت کی تیاری پر امریکہ سمیت دنیا کے مختلف حصوں میںبائیوسائنس دان
کئی برسوں سے کام کررہے ہیں اور اس پر امریکہ اور کئی یورپی ممالک کی
حکومتوں نے ایک بڑی انعامی رقم کا اعلان بھی کررکھا ہے تاہم اس سفر میں
پہلی کامیابی حاصل کی ہے آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ2050ءتک دنیا کی آبادی9ارب تک پہنچ جائے گی اور موجودہ
وسائل انسان کی غذائی ضروریات پوری نہیں کرسکیں گے ‘ خاص طور پر پروٹین کی
ضروریات جو زیادہ تر گوشت سے حاصل ہوتے ہیں۔
آنے والے 15سے20سالوں میں گوشت کی زیادہ تر ضروریات مصنوعی گوشت کی طرف
منتقل ہوجائیںگی۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ نصف صدی کے بعد انسان کلی طور پر
لیبارٹری کے گوشت پر انحصار کررہا ہوگا اور غذائی ضروریات پوری کرنے والے
جانوروں کو زمین پر ایک بوجھ سمجھا جانے لگے گا۔
”انوائرمنٹل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی “ میگزین میں شائع ہونے والی ایک تازہ
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جانور بڑی مقدار میں گرین ہاﺅس گیس پیدا کرتے ہیں
جس سے عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ حال ہی میں آسٹریلیا نے
گلوبل وارمننگ پر قابوپانے کے سلسلے میں جنگلی اونٹوں کو مارنے کا قانون
منظور کیا ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ گائے اونٹوں سے بھی زیادہ گرین باﺅس گیس
خارج کرتی ہیں اور دنیا میں ان کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ فی الحال ان کی جان
بخشی اس لئے کی جارہی ہے کہ وہ انسانی خوراک کا ایک بڑا حصہ پورا کررہی ہیں
لیکن مصنوعی دودھ اور مصنوعی گوشت کے بعد یقینی طور پر ان کا انجام بھی
آسٹریلیا کے اونٹوں سے ز یا دہ مختلف نہیں ہوگا۔
کارخانوں کی چمنیوں سے کاربن گیس کے اخراج پر قابو پانے کے سلسلے میں ہونے
والی عالمی ماحولیاتی کانفرنسیں کئی برسوں سے مسلسل ناکامی کا شکار ہیں
کیوں کہ کوئی بھی ملک اپنی صنعتی پیداوار کی قربانی دینے کے لئے تیار
نہیںہے اور اب اس نئی پیش رفت کے بعد یہ پھندہ جانوروں کے گلے میں ڈالنے کی
راہ مزید ہموار ہونے کی توقع ہے۔
ایک تازہ رپورٹ کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی18فیصد ذمہ داری
جانوروں پر عائد ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شرح دنیا بھر کے ہوائی
جہازوں اور سڑکوں پر دوڑنے والی گاڑیوں کی مجموعی شرح سے زیادہ ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کاربن گیسیں پیدا کرنے والی بہت سی صنعتیں
جانوروں سے منسلک ہیں۔ ان سے چھٹکارہ پاکر گرین ہاﺅس گیسوں کا اخراج96فیصد
تک گھٹایا جاسکتا ہے۔
لیبارٹری میں تیار کئے جانے والے گوشت کے حق میں سائنس دانوں نے یہ دلیل
بھی پیش کی ہے کہ اسے تیار کرنا آسان اورسستا ہے۔ مصنوعی گوشت کی تیاری پر
جانوروں کے مقابلے میں 45فیصد کم توانائی استعمال ہوتی ہے اور جانوروں کے
زیر استعمال زمین کے مقابلے میں مصنوعی گوشت کے لئے محض ایک فیصد زمین
اور4فیصد پانی درکار ہوگا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے
پروٹین سے مصنوعی گوشت بنانا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ دودھ سے دہی تیار
کرنا۔
مصنوعی گوشت کی تیاری کے منصوبے کے سربراہ اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی سائنس
دان ہانا ٹومسٹو کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی کم تر وسائل کے ساتھ خوراک کی
بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج پر
قابو پانے کی سمت ایک اہم پیش رفت ہے۔
لیبارٹری میں تیار کیا جانے والا پہلا گوشت قیمے کی صورت میں تیار کیا گیا
ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بوٹیوں کی شکل میں گوشت کی تیاری میں ابھی
کچھ وقت لگے گا تاہم آئندہ چند برسوں میں صارفین کو اپنی پسند کے مطابق
ران‘ چانپیں‘ گردن اور دوسری اقسام کا مصنوعی گوشت بھی میسر آجائے گا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ نصف صدی کے بعد مصنوعی گوشت خوراک کے حصول کا سستا
ترین ذریعہ بن جائے گا۔ بھارت اور چین جیسے گنجان آباد اور غریب افریقی
ملکوں کی زیادہ تر غذائی ضروریات مصنوعی گوشت سے پوری کی جانے لگیں گی۔
آنے والے دور میں جب مصنوعی گوشت عام اور غریب آدمی کی خوراک بن جائے گا
بہت ممکن ہے کہ تب اہم شخصیات کی تواضع دال اور روٹی سے کی جایا کرے گی! |