گدھے کا حساب

قارئین!

آج آپ سے ایک واقعہ بیان کرنے کو دل چاہ رہا ہے کہ ہمارے وطن عزیز کے حالات جس نہج کو پہنچا چکے ہیں اس میں بڑا کردار ہمارے اپنے منتخب کردہ حکمرانوں کا ہے اسی حوالے سے یہ تحریر لکھی جا رہی ہے ہو سکتا ہے کہ کسی صاحب نظر و اہل دل کی نظروں سے گذرے تو حالات کی بہتری کی جانب بڑھا جاسکے گا۔

ایک دفعہ ایک ملک کا بادشاہ بیمار ہو گیا، جب بادشاہ نے دیکھا کہ اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں تو اس نے اپنے ملک کی رعایا میں اعلان کروا دیا کہ وہ اپنی بادشاہت اس کے نام کر دے گا جو اس کے مرنے کے بعد اس کی جگہ ایک رات قبر میں گزارے گا،

سب لوگ بہت خوفزدہ ہوئے اور کوئی بھی یہ کام کرنے کو تیار نہ تھا، اسی دوران ایک کمہار جس نے ساری زندگی کچھ جمع نہ کیا تھا ۔ اس کے پاس سوائے ایک گدھے کے کچھ نہ تھا اس نے سوچا کہ اگر وہ ایسا کرلے تو وہ بادشاہ بن سکتا ہے اور حساب کتاب میں کیا جواب دینا پڑے گا اس کے پاس تھا ہی کیا ایک گدھا اور بس! سو اس نے اعلان کر دیاکہ وہ ایک رات بادشاہ کی جگہ قبر میں گزارے گا۔

بادشاہ کے مرنے کے بعد لوگوں نے بادشاہ کی قبر تیار کی اور وعدے کے مطابق کمہار خوشی خوشی اس میں جا کر لیٹ گیا، اور لوگوں نے قبر کو بند کر دیا، کچھ وقت گزرنے کے بعد فرشتے آئے اور اسکو کہا کہ اٹھو اور اپنا حساب دو۔ اس نے کہا بھائی حساب کس چیز کا میرے پاس تو ساری زندگی تھا ہی کچھ نہیں سوائے ایک گدھے کے!!!

فرشتے اس کا جواب سن کر جانے لگے لیکن پھر ایک دم رکے اور بولے ذرا اس کا نامہ اعمال کھول کر دیکھیں اس میں کیا ہے، بس پھر کیا تھا، سب سے پہلے انہوں نے پوچھا کہ ہاں بھئی فلاں فلاں دن تم نے گدھے کو ایک وقت بھوکا رکھا تھا، اس نے جواب دیا ہاں، فوری طور پر حکم ہوا کہ اسکو سو د’رے مارے جائیں،اسکی خوب دھنائی شروع ہو گئی۔

اسکے بعد پھر فرشتوں نے سوال کیا اچھا یہ بتاو فلاں فلاں دن تم نے زیادہ وزن لاد کر اسکو مارا تھا، اس نے کہا کہ ہاں پھر حکم ہوا کہ اسکو دو سو د’رے مارے جائیں، پھر مار پڑنا شروع ہوگئی۔ غرض صبح تک اسکو مار پڑتی رہی۔

صبح سب لوگ اکھٹے ہوئے اور قبر کشائی کی تا کہ اپنے نئے بادشاہ کا استقبال کر سکیں۔

جیسے ہی انہوں نے قبر کھولی تو اس کمہار نے باہر نکل کر دوڑ لگا دی، لوگوں نے پوچھا بادشاہ سلامت کدھر جا رہے ہیں، تو اس نے جواب دیا، او بھائیوں پوری رات میں ایک گدھے کا حساب نہیں دے سکا تو پوری رعایا اور مملکت کا حساب کون دیتا پھرے۔

کبھی سوچا ہے کہ ہم نے بھی حساب دینا ہے ۔ اور پتہ نہیں کہ کس کس چیز کا حساب دینا پڑے گا جو شاید ہمیں یاد بھی نہیں ہے۔ آج کل رمضان المبارک کا مقدس مہینہ چل رہا ہے میری طرح آپ کا بھی واسطہ منافع خوروں سے ضرور پڑا ہوگا،کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم مسلمان ہونے کا دعوی تو کرتے ہیں مگر اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے رعایتی نرخ پر اشیا فروخت کرنے سے گریز کرتے ہیں بلکہ عام دنوں کی بانسبت دوگنا چار گنا قمیت بڑھا کر نیکی کمانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں تاکہ اس منافع سے سال بھر ہم عیش کر سکیں۔مجھے یہ آج کہنے دیجئے کہ کیا ایسے کرنے والے مسلمان ہیں؟ ہم بآسانی دوسروں کو کافر تو کہہ دیتے ہیں ہم مگر اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں کہ ہم خود اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کے برعکس کام کر کے کیا انکی خوشنودی حاصل کررہے ہیں۔

دوسری طرف ہمارے اوپر حکمرانی کرنے والوں کا طرز عمل تو دیکھئے کہ رمضان بازار کا نام لے کر بھی اگر اشیا باہر کے نرخ پر دی جائیں گی تو بتائے تو اس قدر حکومتی وسائل اور اخراجات کو ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔حکومت وقت کو اس سلسلے میں موثر اقدامات کرنے چاہیں کہ رمضان بازار میں معیاری اشیا ہی فروخت کی جائیں اور خلاف ورزی کرنے والے کا مزید رمضان بازار میں کام کرنے کا موقعہ نہیں دینا چاہیے،عوام کی بھلائی اگر حکمرانی نہیں سوچیئے گے تو کل کو کیسے وہ اللہ کے دربار میں سرخرو و ہو سکے گے ۔ایک بات ایسے حکمرانوں کو یاد رکھنی چاہیے کہ یہاں تو دھاندلی و رشوت سے کام چلا لیں گے مگر وہاں جو بھی ہوگا انصاف کے تقاضے کو پورا کرے گا۔

اللہ تعالٰی ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522815 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More