سندھ میں تشدد و بد امنی کی جڑ “کوٹہ سسٹم“

خبر آئی ہے کہ ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم میں مزید ‘بیس سال‘ کی توسیع ہو رہی ہے۔ جس کے سب سے بڑے متاثرین سندھ کے وہ مظلوم شہری عوام ہیں جو آئین پاکستان، انسانیت، انصاف اور مساوات کے اصولوں کو پاؤں تلے روند کر بنائے جانے والے اس کوٹہ سسٹم کے باعث وفاقی ملازمتوں میں صرف دو فیصد کوٹے کے حقدار ہیں۔

نا انصافی کے اس نظام کی بنیاد 40 سال قبل اس وقت کی حکمراں پیپلز پارٹی اور اسٹبلشمنٹ نے رکھی تھی عدم مساوات کے اس ظالمانہ نظام کو اس وقت ‘مساوات محمدی ‘ کا نعرہ بلند کرنے والی پیپلز پارٹی نے اپنی صوبہ سندھ کی حکومت تک وسعت دیکر دیہی اور شہری کی تقسیم کو مزید پکا کر دیا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی سے شدید اختلافات رکھنے والے اسلامی عدل کے دعویدار جنرل ضیاء نے بھی اس غیر منصفانہ اور متعصبانہ سسٹم کو جاری رکھ کر میرٹ کی بالا دستی کو ہمیشہ کے لیئے دفن کردیا۔

قبل ازیں آزادی کی جدوجہد کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے زیادہ تر مہاجرین سندھ کے شہری علا قوں میں ہی آباد ہؤے تھے اور ان کے پڑھے لکھے طبقے نے پاکستان کو چلانے کے لیئے بڑی محنت سے مربوط مشینری(بیوروکریسی) ترتیب دی تھی، اس وقت دارالحکومت کراچی تھا۔ پھر یہ ہئوا کہ صدر ایوب خان نے بیوروکریسی کے انتہائی قابل اور ایماندار ٣١٣ افسران اور پھر صدر ذوالفقار بھٹو نے ١٢٠٠ سے زائد افسران کو بیک جنبش قلم برطرف کردیا۔ جن میں اکثریت سندھ کے شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کی تھی۔ پھر رہی سہی کسر سندھ کے شہریوں پر قہر بن کر ٹوٹنے والے قانون، ‘کوٹہ سسٹم‘ نے ان پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کرکے پوری کر دی۔ جس سے اتنے بڑے ‘احساس محرومی‘ نے جنم لیا کہ جسکا خمیازہ آج تک دو کروڑ کی آبادی والے پاکستان کے اھم ترین تجارتی و کاروباری شہر کراچی میں بدامنی اور غارتگری کی صورت میں پوری قوم بھگت رہی ہے۔

حیرت انگیز اور شرمناک بات یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ اور حکومت کو دیہی اور شھری کی تقسیم صرف سندھ ہی میں نظر آتی ہے کسی اور صوبے میں نہیں۔اس طرح سندھ کی تقسیم تو ١٩٧٣ کے آئین میں ظالمانہ قانون سازی کے ذریعے پہلے ہی ھو چکی ھے-

ان مہاجروں اور انکی اولادوں کو سرکاری مشینری سے بیدخل کر کے جعلی حلقہ بندیوں اور جعلی ووٹروں اور سندھ کے غلامانہ نطام کے سہارے محض چند مٹھی بھر وڈیرے پورے سندھ کے اور خاص طور پر شھری علاقوں کے ٹھیکیدار بن بیٹھتے ہیں- یہ وڈیرے انتھائی نا اھل اور کرپٹ ہوتے ہیں - آج کراچی کے جلنے کی وجہ یہی نا اھل اور کرپٹ وڈیرے اور انتطامیہ میں بھرے انکے رشتہ داربھی ھیں-

شہری حکومتوں کا (بلدیاتی) نطام بھی انھیں پسند نہیں ھے کیونکہ اختیارات اور پیسے کی تقسیم انہیں گوارا نہیں ھے- یہ چند وڈیرے اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ ھوتے ھیں اور انکے مفادات کو تحفظ دیتے ہیں- اسطرح انہیں بھی کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ھے-

سندھ کے مسئلے کا ایک ہی حل ھے اور وہ ھے سندھ سمیت پاکستان بھر میں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر الیکشن کا انعقاد- پاکستان کا موجودہ طرز حکومت جمھوریت کی نفی ھے- اور اگر یہ ممکن نہیں ھے تو پھر سندھ میں مزید صوبے بنانے ھونگے- سندھ میں خود مختار انتطامی یونٹ یا صوبے پاکستان بچانے کے لئیے بہت ضروری ھیں- سندھ میں شہری علاقوں کے ساتھ ہونے والی 40 سالہ طویل زیادتی کو روکنا ھوگا-

اگر یہ بات منظور نہیں تو بھر ظلم، جبر، نا انصافی، متعصبانہ سوچ، میرٹ کے قاتل ‘کوٹہ سسٹم‘ کو فی الفور ختم کرنا ہو گا، سندھ کی موجودہ ‘ تقسیم‘ کو ختم کرنا ہوگا، جسطرح دوسرے صوبوں میں یہ تقسیم نہیں ہے۔ پاکستان کی ترقی کا راستہ بھی اسی طرح ملے گا۔
Ather Ali Waseem
About the Author: Ather Ali Waseem Read More Articles by Ather Ali Waseem: 53 Articles with 61405 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.