ملک کی آزاد علیہ کے آزاد فیصلے - سارے آزاد فیصلے سیاسی کیوں؟

گزشتہ دنوں ہمارے ایک دوست سے ہمیں مطلع کیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے میاں نواز شریف کی نااہلیت میں فیصلے نواز شریف صاحب کے حق میں دے دیا ہے۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون (بے شک ہم اللہ کا مال ہیں اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے)۔

ہم تو جانے کب سے گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہے ہیں (ہمارے ایک دوست کے مطابق) کہ نواز شریف صاحب نے جو سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایک بزنس مین بھی ہیں انہوں نے کس کس کے ساتھ بزنس ڈیلز کی ہیں سیاسی ڈیلز کے ساتھ ساتھ یہ تو اللہ ہی جانے اور ابھی تو ایک ڈیل ہی عدالت میں آئی تھی تو کھلبلی مچ گئی۔ چلیں جی جب واقعی عدلیہ آزاد ہونے کے ساتھ ساتھ جب غیر جانبدار ہو جائے گی جب جو معاہدے عدالت کے سامنے آئیں گے وہ دیکھنے والے ہونگے۔

خبر کے مطابق نواز شریف صاحب کو انکی بحال کردہ عدالت نے بھی بحال کر دیا۔ چلو جی سائنسی ایک اصول آج سیاست میں بھی صحیح ثابت ہو گیا کہ جسکے مطابق “عمل اور رد عمل باہم برابر ہوتے ہیں“۔ ۔

چلیں جی اس طرح ن لیگ کی عدلیہ بحالی پر سیاسی جدوجہد اور عدلیہ کی نواز شریف (شریف برادران) کی سیاسی بحالی پر عدالتی جدوجہد سے حساب برابر ہو گیا ۔ اب دیکھتے ہیں کہ آزاد عدلیہ اب احسان کے جواب میں احسان کے بعد غیر جانبداری کا مظاہرہ کب کرتی ہے اور سیاسی فیصلوں میں جس قدر مستعدی اور تیزی دکھائی جارہی ہے اسی قدر مستعدی ملک پاکستان کے تمام لوگوں خصوصاً غریب افراد کے لیے کب ہو پاتی ہے۔

کہتے ہیں کہ پاکستان کی ایک آرگنائزیشن آئی ایس آئی کے خلاف بھی ایک کیس مہران بینک سکینڈل کے سلسلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ١٩٩٠ سے داخل ہے اور پینڈنگ میں پڑا ہوا ہے کتنے ہی چیف جسٹس صاحبان آئے اور چلے گئے (بشمول افتخار چوہدری) اور سب نے اس کیس کو مقدس پتھر کی طرح اٹھایا بھی نہیں صرف دیکھا اور نظروں نظروں سے چوم کر رکھ دیا۔

آنکھیں ترس رہی ہیں کہ جو ظلم و ستم ملک بھر میں مختلف ہاتھوں جیسے طالبان، مہنگائی، امریکی حملوں، اراکین اسمبلیوں (خصوصاً ن لیگ سے تعلق رکھنے والے) کی بدمعاشیوں اور غنڈہ گردیوں جیسے واقعات کی صورت میں ہو رہا ہے چیف جسٹس صاحب کب ان باتوں پر نوٹس لیتے ہیں جیسے مشرف کے دور میں ہر بات میں نوٹس لیتے تھے۔ اب کیا ہوا۔ اب تو عدلیہ آزاد ہے چینی مشرف دور کی تیس روپے والی پینتالیس روپے کی ہے اور عدلیہ آزاد ہے۔ دودھ تیس روپے کلو والا اب جمہوری دور میں چالیس پینتالیس روپے کلو ہے اور عدلیہ الحمداللہ آزاد ہے۔ مشرف دور میں آٹا اٹھائیس روپے کلو والا آج پینتیس روپے کلو ہے اور زندہ ہیں وکلا زندہ ہیں۔

شرم ہم کو مگر نہیں آتی۔

جس قدر قرضے خیرات کی صورت میں یا امداد کی صورت میں اس جمہوری حکومت نے ڈیڑھ سال میں لیے ہیں اتنے تو مشرفی دور کے دس سال میں نہیں لیے گئے تھے۔ اگر لیے گئے تھے تو تاریخ بتاریخ اور کتنے کتنے کس کس دن لیے گئے بتانے کی زحمت کیجیے اور پھر میں بھی کوشش کروں گا کہ ڈیڑھ سال میں لیے گئے قرضے اور امداد کی تفصیل فراہم کرسکوں۔ اسکے علاوہ جس قدر دھماکے ڈیڑھ سال میں ہوئے زرا ان کا موازنہ مشرفی دور سے کر دیکھیے اور انصاف کا دامن ہاتھ سے نا چھوڑتے ہوئے ریشیو بتا دیجیے۔

اور مشرف کو سزا دلوانے والوں کو کیا امر مانع ہے اب تو عدلیہ بھی آزاد ہے اور حکومت بھی حمہوری ہے اور مشرف جب دل کرتا ہے آتا ہے اور جب چاہتا ہے جاتا ہے یہ حکومت رکھنے والے اور خصوصاً اسکے خون کے پیاسے غیرت مند جمہوری اقدار اور طاقت رکھنے والے اب بھی کیا کسی معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے اس کا کچھ نہیں بگاڑ پا رہے اور صرف انصار عباسی اور حامد میر جیسے بکاؤ اینکرز کو اسکے پیچھے لگاتے ہیں اور خود انکے کالم پڑھ پڑھ کر خوش ہوتے ہیں۔ شرم ان کو مگر نہیں آتی۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 533034 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.