نعیمی صاحب کی شہادت .... یا فرقہ وارانہ تصادم کی سازش....؟

سوات میں ”آپریشن راہ راست“ کی شروعات سے اب تک وطن عزیز میں درجنوں خودکش بم دھماکے ہوچکے ہیں لیکن آج کے جامعہ نعیمیہ کے دھماکے نے ملک میں فرقہ واریت پھیلانے کی سازش کو بے نقاب کردیا ہے۔ ملک سے باہر بیٹھے ہوئے افلاطون سیاستدانوں اور ملک میں موجود سیکولر سیاسی شخصیات نے پہلے ہی واویلا شروع کررکھا تھا کہ طالبان پورے پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، طالبان سندھ میں بھی مزارات کو شہید کردیں گے، طالبان کراچی کا امن غارت کردیں گے، وغیرہ وغیرہ، جامعہ نعیمیہ کے دھماکے نے اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ یہ سارے دھماکے طالبان ان لوگوں کے خلاف کررہے ہیں جو ”آپریشن راہ راست“ کے حق میں ہیں اور جن لوگوں نے آپریشن کے حق میں مظاہروں کا اہتمام کیا اور ریلیاں نکالیں۔ اگر عقل سلیم استعمال کی جائے، ذہن کے فکری دروازے کھولے جائیں (اگرچہ ہمارے کچھ دوست ذہن کے استعمال کے حد درجہ خلاف ہیں اور اندھی تقلید میں گردن تک دھنس چکے ہیں) تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ان تمام خود کش بم دھماکوں کے پیچھے غیر ملکی اذہان اور طاقتیں کام کررہی ہیں۔ ”اصل“ طالبان تو امریکہ کے خلاف افغانستان میں سرگرم عمل ہیں، وہ صحیح جہاد میں مصروف ہیں، وہ افغانستان سمیت کسی بھی اسلامی ملک میں امریکہ اس کے حواریوں کے قبضہ کے خلاف ہیں۔ ایسی رپورٹس منظر عام پر آچکی ہیں کہ پاک فوج نے طالبان کے بھیس میں کچھ لوگوں کو پکڑا اور جب ”تحقیق“ کی گئی تو وہ ”ہندو“ نکلے، اور وہی لوگ پاکستان میں خود کش حملے اور افواج و دوسری فورسز کے خلاف منظم حملے کررہے ہیں۔ پاک فوج بھی ان طالبان کے خلاف کارروائی میں مشغول ہے جو پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف نبرد آزما ہیں جبکہ ان لوگوں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے جو پاکستان کے اندر معصوم اور بے گناہ شہریوں اور پاکستانی عسکری اداروں کے خلاف ناپاک کارروائیاں کررہے ہیں۔ کہاں ہے بیت اللہ محسود؟ وہ دہشت گرد اب تک پکڑا کیوں نہیی گیا؟ یا اس پر ڈرون حملہ کیوں نہیں ہوا؟ اسی لئے کہ وہ تو ”امریکی“ طالبان میں سے ہے جو دن رات اس ملک کا سکون غارت کر رہے ہیں، جو پاکستان کے بےگناہ شہریوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کررہے ہیں۔ بیت اللہ محسود اور اس کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہورہی؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے اور پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت کو اس کا جواب کبھی نہ کبھی دینا ہی پڑے گا....!

بلا شبہ جامعہ نعیمیہ پر ہونے والا دھماکہ شدید الفاظ میں قابل مذمت ہے اور یہ پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی عالمی سازش کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا سرفراز نعیمی صاحب کو جوار رحمت میں جگہ عطا کرے، ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وطن عزیز کو اغیار اور اپنوں کی ان سازشوں سے محفوظ رکھے جو ایک خاص مقصد کے تحت اس ملک میں افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں اور افراتفری پھیلانے کا سب سے آسان نسخہ فرقہ وارانہ فسادات کی راہ ہموار کرنا ہے۔ ہمارے ان مذہبی اور سیاسی پیشواﺅں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں جو ایسی کارروائیوں کو فوراً دوسرے مسلک کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، یہی تو دشمن کی چال ہے کہ ایک طرف سوات اور اس کے ملحقہ علاقوں میں مزارات کے خلاف کارروائیاں کروائی جاتی ہیں اور دوسری طرف سوات آپریشن کے حق میں مظاہرے کرنے والی دینی جماعتوں کے خلاف اس طرح کے حملے کروائے جارہے ہیں تاکہ فرقہ وارانہ جنگ کا بھرپور تاثر دیا جاسکے۔ کوئی مسلمان مسجد میں دھماکہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور جو اس طرح کی کارروائیاں مساجد میں کرتے ہیں کوئی بھی ذی شعور انہیں مسلمان ماننے کو تیار نہیں، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ بغیر ثبوت اور دلائل کے الزام کسی پر بھی لگا دیا جائے، جو نماز کی پابندی کرے، جو داڑھی رکھے، جو شلوار ٹخنوں سے اوپر پہنے، اس کو ملزم بنا دیا جائے، بغیر کسی جرم کے موت کی نیند سلا دیا جائے۔

آج تک حکومت اور ہماری عسکری قیادت نے یہ تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس کیوں نہیں کی کہ افغانستان میں 25 سے زائد بھارتی سفارتی دفاتر کیا کر رہے ہیں؟ وہاں کس طرح کے ”طالبان“ پیدا کئے جارہے ہیں؟ حکومت صرف اور صرف امریکی آشیر باد کے لئے، بھارت کے منہ سے نقاب اٹھانے کی جرات نہیں کرتی۔ بھارت میں کوئی پٹاخہ بھی چل جائے تو الزام پاکستان۔ ISI، لشکر طیبہ، جماعت الدعوہ پر لگا دیا جاتا ہے، جبکہ یہاں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کے ثبوت تک ملنے پر کہ اس کے ڈانڈے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ سے ملتے ہیں، ہماری حکومت خاموش رہتی ہے، لبوں پر جیسے کسی نے تالے لگا دئیے ہوں، ہاتھوں کو باندھ دیا گیا ہو کہ اشارہ تک نہیں کرسکتی۔ یہ کیسی حکومت ہے کہ جس کے دور میں پولیس کو اپنی حفاظت کے لئے شہروں کے اندر تھانوں کے باہر مورچے بنانے پڑیں، ایس ایچ او کو ملنا ہو تو سات جگہ چیکنگ کروانی پڑتی ہے، ساری کی ساری پولیس فورس اپنی ذاتی اور ”وی آئی پیز“ کی سکیورٹی کو ”فول پروف“ بنانے میں لگی ہے اور عوام اپنی جانوں کو ہتھیلی پر لئے نان شبینہ کے لئے محنت مزدوری کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں۔ صبح گھر سے نکلتے ہیں تو واپسی کے بارے میں متفکر، کام پر ہوتے ہوئے بھی دھیان بال بچوں کی طرف ہوتا ہے کہ اللہ کرے خیریت سے سکول، کالج سے واپس پہنچ گئے ہوں۔ عوام پوچھتے ہیں کہ حکومت کا وجود ہے کہاں؟ صرف اسلام آباد میں؟ وہ بھی ہزاروں پردوں کے پیچھے؟ بنکروں کے اندر؟ آخر خلق خدا جائے کہاں، کس کو اپنے دکھڑے سنائے؟ اور اب دوبارہ سے فرقہ واریت شروع کرنے کے بہانے بنائے جارہے ہیں، خدارا کچھ تو سوچے، کوئی تو سوچے، آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا، آخر کب تک یہ ملک، اس کے عوام زخم زخم ہوتے رہیں گے....؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222638 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.