عربی زبان وادب کے متعلق روزنامۂ امت سے گفتگو

پینل:عظمت علی رحمانی،علی احمد صدیقی

’’شیخ ولی خان المظفر جامعہ فاروقیہ کراچی کے فا ضل ہیں اور سالہا سال سے جامعہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ہیں، استاذ حدیث ،معھد اللغۃ العربیۃ والدراسات الاسلامیۃکے مدیراور تخصص فی الادب العربی کے نگران ر ہے ، عربی زبان کے مایہ ناز ادیب وخطیب ہیں،لیکن اردو ادب کے ساتھ بھی گہرا لگاؤ ہے، پابندی سے آپ کے اردو کالم اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں، جبکہ عربی مضامین بھی عرب ممالک کے موقر اخبارات وجرائد میں چھپتے رہتے ہیں ،مزید برآں الفاروق عربی رسالے کے ایڈیٹر اورصدر وفاق المدارس العربیۃ پاکستان سماحۃ الامام الشیخ سلیم اﷲ خان کے آپ پرسیکریٹری رہے ہیں ،آپ اتحادامت اور گلوبل احترام ِانسانیت کے پرزورداعی ہیں، علمی،ادبی،رفاہی اور انتظامی میدانوں میں آپ کی قابل قدر خدمات ہیں ،ابھی حال ہی میں ولڈنبرگ انٹر نیشنل کالج اینڈ آرگنائزیشن اور ہیومن رائٹس انٹر نیشنل کونسل نے آ پ کے نام کو دنیا کی 100متأثر کن شخصیات میں شامل کیا ،جو ہم سب پاکستانیوں ،مسلمانوں اور بالخصوص طبقۂ علماء کے لئے باعث ِفخر ہے ،یاد رہے ،رابطہ عالم اسلامی اور جمہوریہ لبنان کی طرف سے بین الاقوامی اعزازات کے بعد شیخ کو عالمی سطح کا ملنے والا یہ تیسرا عظیم الشان ایوارڈ ہے ،یہاں آپ کے خیالات وافکارکی کچھ جھلکیاں نذرِ قارئین ہیں‘‘:
٭ اپنے تعارف اور خاندانی پس منظر کے حوالے سے کچھ فرما ئیے؟
ہمارا تعلق پٹھانوں کے یوسف زئی قبیلے کی ایک شاخ سے ہے ۔
٭ ابتدائی تعلیم آپ نے کہاں سے حاصل کی ہے ؟
زیادہ تر تعلیمی مراحل عالم اسلام کے عظیم علمی مرکز جامعہ فاروقیہ کراچی میں مکمل کئے ۔
٭ فراغت کے بعد آ پنے درس وتدریس کوصوابدیدی طورپر اختیا ر کیا ،یہ آپ کی مجبوری تھی یاشوق ؟
کسی بھی میدان میں امت کے لیے مفید بننے کے لئے علمی پختگی ضروری ہے ،درس وتدریس ہی ایک ایسا مشغلہ ہے ،جس میں دینی علوم کی خد مت کے ساتھ ساتھ کسی بھی فاضل کی صلاحیتیں خوب اجاگر ہوتی ہیں اورعلم میں گہرائی وگیرائی آجاتی ہے ۔
٭ جامعہ فاروقیہ کو آپ نے کیوں منتخب کیا ؟اور یہاں پڑھاتے ہوئے کتنا عرصہ ہوا ؟
جامعہ فاروقیہ میری مادر علمی ہے اس سے میرا قلبی لگاؤ اور عقیدت مندانہ تعلق ہے، بانی جامعہ سماحۃ الامام الشیخ سلیم اﷲ خان کو میں اس زمانے کامجدد سمجھتاہوں ، آپ کے اس تجدیدی اور عالم گیرمزاج کے سبب جامعہ فاروقیہ شروع ہی سے مختلف شعبوں اور مختلف میدانوں میں کام کے لئے مشہور ہے ،میر ی افتادطبع میں بھی اس سے ہم آہنگی تھی اس لئے میں نے یہیں سے اپنے علمی زندگی کے آغاز کی خواہش ظاہر کی جسے نوعمری اور نالائقی کے باوجود میرے شیخ نے شرف قبولیت بخشااور آج میں جو کچھ بھی ہوں جامعہ اور بانی جامعہ کی طفیل ہوں ۔
٭ آپ نے بہت سارے فنون میں سے ادب عربی کو کیوں خاص طور پر چنا؟حالانکہ عموماً لوگ صرف ونحو اور تفسیر وفقہ وغیرہ کو لیتے ہیں ؟
دراصل ہمارے دینی مدارس جن کو کچھ ہی زمانہ پہلے عربی مدارس کہا جاتاتھا اور اب بھی وفاق المدارس العربیۃ میں (المدارس العربیۃ) کا ذکرواضح ہے، ان کا مقصدِ تأسیس ہی عربی زبان سیکھنا سکھانا ہے ، ظاہر ہے کسی بھی دوسری زبان کی طرح عربی بھی گرائمر (صرف ونحو )کے بغیر نہیں سیکھی جاسکتی ،سو صرف ونحو کی تعلیم ضروری ہوئی ،مگر ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ گرائمر کو مقصود بالذات سمجھ لیا جائے اور اسی پر اکتفا کیا جائے․مگر بد قسمتی سے ہمارے ہا ں گذشتہ ایک عرصے سے ایسا ہی ہورہاہے ،حالانکہ دس بارہ سال عربی ہی عربی پڑھنے کے بعد آپ کو عربی پڑھنا لکھنا بولنا سب آنا چاہیے اور اس کے مختلف اسالیب، باریکیوں ،فصحی اور عامیہ میں فرق اور دونوں پر عبور حاصل کر ناچاہیے ۔مجھے شروع ہی سے یہ بات محسوس ہو ئی اور پھر میں اس کے درپے ہوا ،تو کچھ نہ کچھ کر گیا ،میں نے ہمیشہ یہ بات شدت سے محسوس کی ہے کہ عالم دین کو جدیدعلوم اور انگریزی تو نہیں آئی، چلیں خالص عربی علوم میں مشغول رہنے اور ماہر دینیات بننے کی خواہش کی بنا پر، مگر عربی نہ آنے کا تو اس کے پاس کوئی عذراور جواز نہیں ،عرب ملکوں میں جانے والے عام لوگوں سے بھی ہم نے مولویوں پر عربی نہ آنے اور نہ سمجھنے کا اعتراض بکثرت سناہے ۔
٭ کیا اردو ادب کے ساتھ بھی دلچسپی رہی ہے ؟
ادب من حیث الادب کے طور پرتو ہم نے اردونہیں پڑھی ،ہاں اردو زبان میں ادب ،تاریخ ،جغرافیا ، سیاست ،افکار ونظریات اور شخصیات کے متعلق بہت پڑھاہے ،مختلف شعراء کو بھی پڑھاہے ،اردو سے پاکستان میں مستغنی یا غافل رہنا تو ممکن بھی نہیں ہے۔
٭ ایک غیر عربی ملک میں آپ نے عربی پر عبور کیسے حاصل کیا ،جبکہ یہاں اس کا ماحول بھی نہیں ہے اور اس کی طرف توجہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے ؟
ہمارے دینی مدارس کے قیام کا مقصد جب عربی زبان سیکھنا سکھانا ہے، تو پھر عربی پر عبور حاصل کرنا عجیب نہیں بالکل قرین قیاس ہے،بلکہ عربی میں یہاں مہارت حاصل نہ کرنے پر تعجب ہوتا ہے، ہاں چونکہ مدارس میں لینگویج پر توجہ نہیں دی جاتی اور لغوی اعتبار سے اس کی تعلیم قد رے خشک ہے ،اس لئے عربی میں مہارت حاصل کرنے کے لئے محنت بہت کرنی پڑتی ہے، میں نے ایک عرصے تک دیوانہ وار اس کے لئے محنت کی ہے، جس کا ثمرہ مجھے اﷲ کے فضل سے مل گیا ہے،ہمارے ہاں جامعہ فاروقیہ میں عرب اخبارات اور میگزین بھی بکثرت آتے ہیں، اس کا بھی ہمیں بہت فائدہ ہواہے ۔
٭ عربی زبان کی ہمیں کیا ضرورت ہے ؟
عربی زبان کا شمار دنیا کی بڑی زبانوں میں ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اتحاد بین الامت کا بھی بہترین ذریعہ ہے ،جس کی بدولت آپ امت کے بکھرے شیرازے کو احسن طریقے سے یک جاکر سکتے ہیں، پھر یہی نہیں بلکہ ہماری ثقافت ،ہمارے مذہب اور تمام اسلامی علوم وفنون کاتو خزینہ ہی عربی زبان وادب کے ساتھ وابستہ ہے ،اس لئے ان علوم سے واقفیت ہونے کے لئے بھی عربی زبان سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے ۔
٭ کیا یہ کہا جاسکتاہے کہ جامعہ فاروقیہ میں معہد اللغۃ العربیۃ اور تخصص فی الادب العربی کا قیام آپ کی کوششوں کا نتیجہ ہے ؟
معہد اللغۃ العربیۃ کا قیام چونکہ ہمار ے مدارس کے لئے ایک نیا اور جدید شعبہ تھا ،اس لئے سماحۃ الشیخ حضرت مولانا سلیم اﷲ خان صاحب کے حکم سے حضرت مولانا ڈاکٹر عاد ل خان صاحب کی نگرانی میں کمیٹی بنادی گئی تھی، جس کے ارکان میں میرے علاوہ شیخ غلام اکبرغلام قادر ،شیخ محمد عیاض علی محمد ،شیخ اسلام الدین ، شیخ حسین رشید ، شیخ اسماعیل بلتی اور مولانا شفیق احمد خان بستوی تھے ،ابتداء میں کچھ مشکلات تو پیش آئیں، لیکن الحمد ﷲ چند ہی برس بعد یہ شعبہ اپنی ترقی کی منازل طے کرنے لگا ،جہاں تک تخصص فی الادب العربی کا تعلق ہے اس کا قیام حضرت شیخ الحدیث دامت برکاتہم کی خصوصی دلچسپی سے عمل میں آیا ، پھر ہم نے معہد کی طرح اس کی کامیابی کے لئے بھی سر دھڑ کی بازی لگائی ۔
٭ پاکستان کی قومی زبان قرار دادِ مقاصد اور دستورِ پاکستان میں عربی زبان کو قرار دیاگیا تھا، اس پر عمل کیوں نہیں ہوا ؟
قیام پاکستان کے بعد اکابر علماء کرام اور دین دار طبقہ کی یہی خواہش اور کوشش رہی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی زبان عربی ہی ہو نی چاہیے، لیکن بعض نادیدہ قوتیں ان کوششوں کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ بنی رہی، جس کے نتیجے میں وہ خواہش اور کوشش بار آور ثابت نہ ہوسکی۔
٭ آپ عربی زبان کی ترویج واشاعت کو اپنا مشن قرار دیتے ہیں ،یہ غیر معمولی اہمیت آپ اسے کیوں دیتے ہیں ؟
عربی زبان کا اِحیاء ضروری ہے، ہمارے مسلم حکمرانوں ، علماء ، دانشوران اور دینی جامعا ت ویونیورسٹیز نے اگر عربی زبان کی ترویج واحیا ء کے حوالے سنجیدہ محنت نہ کی تو میں سمجھتا ہو ں کہ یہ امت اپنے اسلا ف کے علمی و روحانی ورثہ سے ہاتھ دھو بیٹھے گی ،یہی وجہ ہے کہ امام شافعی ؒ اور امام ابن تیمیہ ؒجیسے اساطین علم نے عربی زبان کے سیکھنے کو واجب قرار دیاہے کیونکہ احکام دینیہ کے اصل مآخذ تک پہنچنا ہی عربی زبان کے سیکھنے پر موقوف ہے ۔
٭ دینی مدارس میں عربی زبان میں درس وتدریس کیا اس کے لئے معاون ثابت نہیں ہوگی یا ایسا ممکن نہیں ؟
الحمد ﷲ دینی مدارس میں اس حوالے سے رجحان پایا جارہا ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ تعلیمی زبان عربی بنانے کے لئے مدرسین کی وہ مقدار موجو د نہیں جس کی اس حوالے سے انہیں ضرورت ہے ۔
٭ کونسے ایسے موانع اور اسباب ہیں جو علماء اور عوام کو روک رہے ہیں؟
موانع اور اسباب تو یہاں میرے خیال میں کچھ نہیں ہیں، کیونکہ بنیادی چیز اس معاملے میں عربی گرائمرسے واقفیت ہونی چاہیے، جس سے الحمد ﷲ علما ء وطلبا ء کی ایک بڑی تعداد واقف ہے، کوتاہی اگر رہتی ہے تو وہ صرف اس گرائمر کی عملی مشق کی ہے، یعنی عربی زبان میں تکلم، اگر تکلم کی حد تک عربی زبا ن کو توجہ دیجائے تو میں سمجھتاہوں کہ ایک حد تک کامیابی حاصل ہوسکتی ہے ۔
٭ جناب وفاق المدارس العربیہ پاکستان والے یہ اقدام کیوں نہیں کرتے ، وہ مدرسے میں امتحانی پرچہ جات کو عربی میں حل کرنے کو لازم قرار دیں ؟
وفاق المدارس والوں کی شروع سے یہ خواہش رہی ہے کہ امتحانی پرچہ جات عربی ہی میں حل کئے جائیں ،چنانچہ آپ نے دیکھاہوگا ہرپرچہ پر یہ نوٹ لکھا ہو اموجود ہوتاہے :عربی میں پرچہ حل کرنے والا طالب علم اضافی دس نمبر کا مستحق ہوگا ۔
٭ کہا جاتا ہے کہ عربی زبان دنیا کی واحد زبان ہے ،جو مسلمانوں کو ایک صف میں جمع کرسکتی ہے، کیا آپ اس سے متفق ہیں ؟
سو فیصد۔عربی زبان اس حیثیت سے ایک قوم کو نہیں بلکہ کئی اقوام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکتی ہے کہ ان اقوام کے خیالات وافکار اور جذبات کی ترجمانی عربی ہی کے ذریعے ہو ،وجہ اس کی یہ ہے کہ عربی زبان آسمانی تعلیمات کی زبان ہونے کے ناطے کسی نہ کسی حد تک دنیا کی ہر قوم کے لئے جانی پہچانی اور مقدس ہے، اسی کے سبب اسے بقا ء ودوام بھی ملا ہے ،لہذا دنیا کی مختلف برادریا ں اس کی بدولت ایک صف میں متحد ہوسکتی ہیں ۔

٭ کیا پاکستانی قوم کے اتحاد واتفاق کے لئے بھی عربی زبان سبب بن سکتی ہے ؟
جی ہاں ! پاکستانی قوم اگر لسانی تعصب اور مغرب کے تأثر سے بالاتر ہوکر دین اسلام ہی کی زبان پر متفق ومتحد ہوجائے، تو میں سمجھتاہوں کہ اس قوم کی تقدیر ضروربدل سکتی ہے۔
٭ آپ کی خواہش ہے کہ پاکستان کا ہر نوجوان عربی زبان بولنے والا بنے ؟
جی ہاں !تاکہ اسلاف کی جس میراث کو ہم نے ثریا سے زمین پر دے ماراہے ،اسے ہم پھر وہیں پہنچادیں اور وہ ہمیں پہنچادے ۔

٭ عربی زبان سے رشتہ جوڑنے سے آپ سمجھتے ہیں ہمارا کلچر بھی بدل جائیگا ؟
چونکہ کسی بھی زبان کے سیکھنے اور اس میں دلچسپی کے نتیجے میں اس زبا ن کے کلچر کی طرف بھی رغبت پید اہوجاتی ہے اس لئے ہماری خواہش اور کوشش یہ ہے کہ پاکستانی قوم بھی عربی کے نتیجے میں عرب کے اسلامی کلچر کو اپنا لے ،یوں وہ مغربی کلچر سے نجات حاصل کرسکتی ہے۔
٭ پاکستان اورعرب ممالک کے درمیان رابطے میں آپ کے خیال میں عربی زبان کوئی کردار اداکرسکتی ہے ؟
یہ تو اظہر من الشمس ہے ہی ، اس کے علاوہ سب سے بڑا فائدہ اس حوالے سے یہ ہوگا کہ قوم اسلام کی اصل روح سے بخوبی واقف ہوجائی گی ، نیز جس افتراق نے ہمارے درمیان جنم لے کر ہمیں آ پس میں دست وگریبا ن کر کے رکھ دیاہے، جس کے نتیجے میں اغیا ر ہم پر ہنستے ہیں وہ افتراق کسی حد تک ختم ہوسکتاہے ۔
٭ آپ رابطۃ الادب الاسلامی العالمیۃ
(ریاض)کے رکن ہیں اس حوالے سے آپ کے کیا اہداف ہیں ؟
پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان بُعدکی بنیادی وجہ دونوں اطراف کے علماء کرام کے درمیان رابطے کا نہ ہونا ہے، اس حوالے سے علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو مدعو کرکے اور اعلی سطح پر تعارفی دورے کرواکے دونوں طرف موجود خلیج میں پل کا کردار اداکریں ، عربی زبان اس میں بہترین مددگار ثابت ہوگی ،ہم حتی الوسع اس کوشش میں ہیں کہ پوری امت ایک کلمۂ توحید پر متفق ہوکر آپس میں بھائی چارگی قائم کر کے تعاون علی البر والتقوی کا عملی نمونہ پیش کریں ۔
٭ آ پ نے اس حوالے سے اس کے لئے کوئی حکمت عملی بنائی ہے ؟
ہمار ے بعض دوستوں نے مختلف اکیڈ میز اور مجامیع کا منصوبے بنا یا ہے، اﷲ سے دعا ہے کہ وہ ا ن منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطافر مائے اور پوری انسانیت کے لئے بھلائی کا ذریعہ بنائے۔
٭ آخری سوال، ادیان عالم وفرق مختلفہ پرآپ کی گہری نظر ہے ،اس حوالے سے آپ کی کیا خدمات ہیں ؟
ہمارے ہاں جامعہ میں ہر سال یہودیت ،عیسائیت وغیرہ کے متعلق بعض لیکچرز ہمارے حوالے تھے ، اس کے علاوہ ہماری ایک کتاب (مکالمہ بین المذاہب )کے نام سے چھپ کر منظرعام پر آچکی ہے، جس کی علمی طبقوں میں کافی پذیرائی ہوئی ہے اور چند سال قبل عربی زبان میں(اللامذہبیۃ۔۔۔خیانات وافتراء ات) بعض سلفی حضرات کے اعتراضات کے جواب میں چھپی ہیـ۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 882488 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More