پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر بھارت جو ہر لحاظ
سے پاکستان سے کئی گنا زیادہ طاقت کا حامل۔ چاہے حربی میدان ہو چاہے تعلیمی
میدان ہو چاہے معاشی میدان ہو یا جمہوری میدان ہو۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے
کہ بھارت جس کو ہمارے سیاستدان جب چاہتے ہیں دشمن نمبر ١ بنالیتے ہیں اور
جب خود اقتدار میں آتے ہیں تو پھر دوستی کی پینگیں بڑھانے کی باتیں کرتے
ہیں۔
بھارت جو ہماری سرحدوں پر اپنی فوج لگائے بیٹھا ہے وہ تو ہمارے کسی ایک
فوجی کو بھی نہیں مار رہا ہے اور جو ہمارے سپاھیوں کو روزانہ کی بنیاد پر
شہید کر رہے ہیں انکے گلے کاٹ رہے ہیں وہ ہمارے اپنے اور ہمارے دوست اور
ہمارے ناراض ہم وطن !۔ شرم کرو اس منافقت پر۔۔۔۔۔۔ کوئی اپنا دشمنی میں
اپنوں کے گلے کاٹ سکتا ہے کہیں ایسا ہوا ہے کہیں ایسا ہوتا ہے کوئی ایک ملک
بتا دو پورے عالم میں جہاں اپنے ہی ہم وطنوں کے گلے کاٹ رہے ہیں ان کی
جانوں سے کھیل رہے ہوں اور اپنی دہشت سے اپنے لاکھوں قومی ہم وطنوں کو بے
گھر کر رہے ہوں اور کچھ منافق جماعتی کہیں کہ یہ ہمارے اپنے ہیں مگر ناراض
ہیں۔ تف ہے ایسے ناراضوں پر۔
اور جو دشمن نمبر ١ گردانا جاتا ہے اس کی فلمیں پاکستانی سینماؤں میں لگی
ہوئی ہیں اور قوم کے جو لوگ فلمیں دیکھنے کے لیے سینما نہیں جا پاتے اور
فرماتے ہیں ہم انڈین فلمیں نہیں دیکھنا چاہتے ان میں سے اکثریت زرا اپنے
قول و فعل پر اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھ اور زرا اپنے گھروں کا جائزہ
لے کہ انکے گھروں پر ٹی وی پر دن بھر میں کتنے پاکستانی اور کتنے غیر ملکی
(یعنی انڈین) چینلز دیکھے جاتے ہیں۔
ایک وقت تھا ملک میں پی ٹی وی کے علاوہ سی این این چینل بھی نیا نیا آنا
شروع ہوا تھا۔ اور اگر رات کے کسی پہر نیم عریاں پروگرامز کے کچھ حصے جنہیں
عرف عام میں ٹوٹے کہا جاتا ہے آجاتے تھے تو قوم کو پتہ چلتا تھا جب دوسرے
دن مذبہی جماعتوں کے لیڈران قوم کو بتاتے تھے کہ رات کو ٢ یا ٣ بجے سی این
این پر فلاں پروگرام کے دوران نیم عریاں پروگرام چلا تھا۔ ارے کوئی زرا
منافقوں کی جماعت سے یہ پوچھے کہ تمہیں کونسی تکلیف رات کے ٢ یا ٣ بجے سی
این این دیکھنے پر مجبور کرتی تھی۔ جبکہ سب جانتے ہیں کہ حقیقی مذہبی مزاج
رکھنے والے اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ علمائے حق فرماتے ہیں کہ رات
عشا کی نماز کے بعد بغیر کسی ضروری کام سے جاگنا غیر شرعی حرکت ہے (میرا
نہیں علما کرام کا فتوی ہے ) جس کی وجہ سے تہجد کی نماز اور فجر کی نماز
میں اٹھنے سے رکاوٹ پیدا ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔
مگر کاش ہمارے ملک سے مذہب کی آڑ میں اپنا کھیل کھیلنے والوں پر کاش اے کاش
علمائے حق غالب آجائیں اور مذہب کی آڑ میں سیاسی دکان سجانے والوں کے خلاف
علمائے کرام ایک مؤقف اور ایک متفقہ قدم اٹھائیں اور انہیں پوری قوم کے
سامنے ننگا کردیں۔
کاش ہمارے ملک سے امریکہ سے بوریوں بھرے ڈالرز لینے اور اسی امریکہ کے خلاف
جلسہ جلوس کرنے والوں اور لاشوں کی سیاست کرنے والوں اور طالبان ظالمان کی
حمایت ہر حال میں کرنے والوں اور مساجد و مدارس کو بدنام کروانے کی کوشش
کرنے والے نام نہاد مذہبی لیڈروں موجودہ دور کے عبداللہ بن ابی جیسے منافق
کی جانشینی کرنے والوں کو کوئی پوچھے۔ کیونکہ عوام تو بھولے ہیں اور خصوصاً
نیم مذہبی تعلیم کہ جن کو کلمہ کا مطلب بھی نہیں پتہ اور انہیں رٹو طوطوں
کی طرح پڑھایا جاتا ہے اور ان کے معصوم اور کچے دماغوں میں یہ ڈال دیا جاتا
ہے کہ فلاں مسجد میں نمازیوں کو خودکش دھماکوں سے اڑا دو تو نمازی سارے
جہنم میں اور تم جنت میں جاؤ گے۔
کاش اے کاش کوئی خودکش حملہ آور کی ٹریننگ لینے والا عقل کو استعمال کرتے
ہوئے ٹریننگ دینے والے کو یہ مشورہ دے کہ خودکش دھماکے کی تربیت دینے والے
استاد جی آپ خود یا آپ اپنے بیٹے کو جنت میں بھیجنے کے لیے کیوں تیار نہیں
ہیں جو اسے تو امریکہ میں تعلیم کے لیے بھیج رہے ہیں اپنی بہو بیٹیوں کو
اسمبلیوں کے ٹکٹ دے رہے ہیں اور ہم غریب عوام کے بچوں کو جنت کا ٹکٹ مفت
میں کٹا کر دے رہے ہیں۔ مگر یہ ظالم دہشت گرد طالبان ظالمان اور انکے دہشت
گرد بنانے والے ان نیم مذہبی نیم خواندہ بے چارے کچے ذہنوں کو اس قابل ہی
کب ہونے دیتے ہیں جو وہ اپنے دماغ سے کچھ سوچ یا کچھ پوچھ سکیں۔
شرم ان کو مگر نہیں آتی مگر موت تو ان کو آئے گی اور اللہ کے سامنے بھی
جائے گا دہشت گرد کا حمایتی بھی اور دہشت گرد بھی پھر وہاں فیصلہ ہو جائے
گا کہ منہ چھپا کر شریعت کے نام پر گلے کاٹنے والے اللہ اور ہمارے پیارے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا منہ دکھائے گے اور پتہ نہیں وہ
مسلمانوں کے گروہ میں شمار بھی کیے جائیں گے یا نہیں واللہ اعلم بالصواب
اللہ اکبر |